زندگی یا تاریک راہیں


یہ محض روایتی بات ہوگی اگر کہا جائے کہ پاکستان بحرانی کیفیت میں ہے۔ کہنے، سوچنے اور کرنے کی بات یہ ہے ملک اس وقت جس بحران میں پھنسا دیا دیا ہے، اس سے نکلنا کیسے ہے؟ سیاسی کشاکش، آئینی بحرانوں اور گوناگوں تنازعات سے نکلنے لیے عدالتوں سے رجوع کیا جائے تو اس میں ہرج کی کوئی بات نہیں لیکن ان اداروں سے اگر شکایات پیدا ہونے لگیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان قضیوں کو نمٹانے کے ضمن میں متعلقہ اداروں کی صلاحیت ویسی نہیں رہی جیسی ہونی چاہیے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ وہ جو انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر ایک پٹی بندھی ہوتی ہے، وہ ڈھیلی پڑ چکی لہٰذا بہت سے زمینی حقائق بدل چکے۔ ان حقائق کے بدلنے سے یہ تاثر قوی ہوا کہ اب ریاستی سطح پر تقسیم اتنی گہری ہو چکی ہے کہ قاعدے قوانین اور اصول و ضوابط سب دم توڑ چکے ہیں۔

یہ صورت حال بھی کم تشویش ناک نہیں تھی کہ نو مئی کا واقعہ رونما ہو گیا۔ نہایت عزیز دوست اور ممتاز دانشور ارشاد محمود نے لکھا ہے کہ اس دن جو کچھ ہوا، وہ دراصل پاکستانی عوام کی اسٹیبلشمنٹ سے مایوسی کا مظہر ہے۔ اسی طرح ایک اور بزرگ دانشور اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق راہ نما جناب قیوم نظامی نے سوشل میڈیا کے ایک پلیٹ فارم پر اس صورت حال کو انقلاب قرار دیتے ہوئے ریاست کو مشورہ دیا کہ وہ اس کے سامنے سر جھکا دے۔ ڈان لیکس سے شہرت پانے والے صحافی سرل المیڈا سے بھی اسی قسم کی بات منسوب ہوئی۔

یہ انقلاب تھا، عمران خان کی گرفتاری پر عوامی ردعمل تھا یا دہشت گردی؟ اس سوال پر عوام ہی نہیں ریاستی ادارے تک تقسیم ہیں۔ اس تقسیم کا سب سے موثر مظاہرہ چیف جسٹس کی عدالت میں عمران خان کی پر جوش پذیرائی اور بعد ازاں ایسی سہولتوں کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے، ماضی میں جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہی صورت حال ہے جو بحران کی نشان دہی کرتی ہے اور یہ ضرورت اجاگر کرتی ہے کہ اس کے حل کے لیے غیر روایتی طریقہ کار اختیار کیا جائے۔

کسی بحران کے حل کا بیڑا اٹھانے سے قبل مسئلے کی بنیاد تلاش کرنا ضروری ہو گی۔ اس موضوع پر غور ہی ان سطور کا بنیادی مقصد ہے لیکن اس سے قبل ضروری محسوس ہوتا پے کہ نو مئی کے واقعات کے بارے میں کسی نتیجے پر پہنچا جائے کہ کیا یہ واقعی کوئی انقلاب تھا کسی انقلاب کی دستک تھی، کوئی احتجاج تھا، سیاسی سرگرمی تھی یا اس کی نوعیت کچھ مختلف تھی؟

پاکستان کی تاریخ سیاسی جدوجہد اور احتجاج کی مختلف شکلوں سے بھری ہوئی ہے۔ قوم نے ایوب خان کی آمریت سے نجات کے لیے ایک بھرپور تحریک چلائی جو انسانی خون سے رنگین ہوئی۔ بنیادی طور پر یہ ایک سیاسی تحریک تھی جس کے لیے لوگ سڑکوں پر نکلے۔ اس تحریک کی سب سے بڑی قوت ایک ہی تھی کہ ہر طبقہ فکر کے لوگ تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ عوامی سمندر اور اس کے غیض و غضب کو دیکھ کر جابر حکمران خوفزدہ ہو گئے اور انھوں ریاستی قوت کے ذریعے عوام کو کچلنے کی کوشش کی جس نتیجے میں خون ریزی ہوئی۔ 1977 میں انتخابی دھاندلی کے خلاف پاکستان قومی اتحاد اور جنرل ضیا الحق کی آمریت کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک بھی ایوب خان کی تحریک سے مختلف نہیں۔ جنرل مشرف کے خلاف تحریک میں خوش قسمتی سے تشدد شامل نہیں ہوا، لہٰذا یہ تحریک خالصتاً ًسیاسی رہی۔

جہاں تک نو مئی کے واقعات کا تعلق ہے، یہ پاکستان میں اب تک برپا ہونے والی تحریکوں سے یکسر مختلف تھے۔ اس امر میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ پی ٹی آئی ایک مقبول اور بڑی سیاسی جماعت ہے لیکن کیا یہ جماعت احتجاجی تحریکیں چلانے کی صلاحیت یا تجربہ بھی رکھتی ہے؟ حکومت سے محرومی کے بعد عمران خان نے اپنی مخالف حکومت کو دباؤ میں لانے کے لیے سڑکوں پر نکلنے کی جو کوشش بھی کی، ناکامی سے دوچار ہوئی۔ اس سے اس سوال کا جواب تو مل گیا کہ یہ جماعت احتجاجی تحریک برپا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جماعت اگر احتجاجی تحریک چلانے کی صلاحیت سے محروم ہے تو پھر نو مئی کے واقعات کیا تھے؟

احتجاجی تحریک چلانے کے ضمن میں متعدد بار ناکامی کا سامنا کرنے کے بعد یہ سیدھی سی بات ہے کہ نو مئی کے واقعات مایوسی کے عالم میں کی گئی ایک کوشش تھے جسے آر پار کی نفسیات کا نتیجہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان واقعات کے بارے میں حتمی نتیجے پر تو صرف اسی صورت میں پہنچا جا سکتا ہے اگر کوئی کمیشن ان واقعات کی تحقیقات کر کے سارے حقائق قوم کے سامنے رکھ دے تاہم اس وقت دستیاب حقائق یہی بتاتے ہیں کہ یہ توڑ پھوڑ کے ایسے منظم واقعات تھے جو دہشت گردی کی تعریف میں آتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے افغان شہریوں کو معاوضے پر استعمال کرنے کی اطلاعات بھی ہیں جن کی تصدیق خود ان افغان شہریوں نے اپنے بیانات میں کر دی ہے۔ توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیرا کے ان واقعات کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ اس کا رخ اسٹیبلشمنٹ کی طرف موڑ دیا گیا پھر جو کچھ ہوا، اس کی تفصیلات سب کے علم میں ہیں۔

پی ٹی آئی واحد جماعت نہیں ہے جس نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف موقف اختیار کیا ہے۔ ماضی میں کئی دیگر جماعتیں بھی ایسا کرتی آئی ہیں لیکن ان فرق یہ ہے کہ پی ٹی آئی سے قبل سیاسی احتجاج کا طریقہ اختیار کیا گیا جب کہ اس جماعت نے تصادم کا راستہ چنا۔ سیاسی جدوجہد کی خوبی یہ ہے کہ اس کے پس پشت لوگ تھوڑے ہوں یا زیادہ، اس کی عمر طویل ہوتی ہے اور اسے سیاسی حکمت عملی کے ذریعے کامیابی کی منزل تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں تصادم وقتی ہوتا ہے جو گزرتے وقت کے ساتھ کمزور پڑتا جاتا ہے جس سے قانونی اور انتظامی ذرائع استعمال کر کے آسانی کے ساتھ نمٹا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تصادم دراصل خود شکنی اور خود کشی کا راستہ ہے، بدقسمتی سے جس پر چل کر پی ٹی آئی نے خود کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا لیا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ عمران خان اپنے امریکی رابطوں کو متحرک کر کے غیر ملکی مداخلت کی راہ بھی ہموار کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال تصادم سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔

اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ یہ بحران پیدا کیوں ہوا؟ اس بحران کی ابتدا اس وقت ہوئی جب عمران خان نے پارلیمنٹ سے باہر رہنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے مخالفین نے ابتدا میں ان کی واپسی کی سنجیدہ کوششیں کیں لیکن عمران خان نے ان پر توجہ نہ دی۔ اب وہ پارلیمنٹ سے باہر ہو چکے ہیں اور مختلف اداروں کی طرف سے انھیں ملنے والی سہولت کے باوجود ان کی واپسی کا راستہ کھلنے کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ اس کشمکش کے نتیجے میں قومی منظر نامے پر ایک مثبت تبدیلی یہ رونما ہوئی ہے کہ پارلیمنٹ تاریخ میں پہلی بار اپنی طاقت کے مظاہرے میں کامیاب رہی ہے۔

محسوس یہی ہوتا کہ جیسے جیسے یہ لڑائی آگے بڑھتی جائے گی، پارلیمنٹ مزید طاقت پکڑتی جائے گی جس کا خیر مقدم ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس جائزے کے بعد یہ سوال ایک بار پھر ہمارے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے کہ پارلیمان کا قوت پکڑنا اپنی جگہ مبارک لیکن مسئلے کا حل کیا ہے؟ تو مسئلے کا حل یہ ہے کہ عمران ہم چو ما دیگرے نیست کی کیفیت سے نکل کر سیاست اور پارلیمان کی طرف لوٹیں اور پارلیمان کی قوت کے سامنے سر جھکائیں۔ ان کی پارلیمان بلکہ سیاست میں واپسی کا راستہ صرف اور صرف ایک میثاق کے ذریعے کھلے سکتا ہے اور وہ ہے میثاق جمہوریت۔ یہ راستہ اگر انھیں پسند نہیں ہے تو اس کا نتیجہ ہمیں فیض صاحب بہت پہلے بتا گئے ہیں یعنی ایک عوامی قوت کا تاریک راہوں میں گم ہو جانا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments