کیا عدالت جنس کا تعین کر سکتی ہے؟


گزشتہ برس ملتان لٹریری فیسٹیول کے منتظمین نے ایک سیشن ملک میں زیر بحث ”ٹرانس جینڈر بل“ پر گفتگو کے لیے مخصوص کیا تھا۔ وطن سے دوری (غربت) بہت سے موضوعات پر جاری بحث سے ناواقف رکھتی ہے۔ اس سیشن میں محترمہ تنویر جہاں کی گفتگو سے پیدا ہونے والے درجہ حرارت نے اس موضوع کے گرما گرم ہونے کا احساس دلایا۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ اب اس موضوع پر شائع ہونے والی ہر خبر خود بخود نظر میں آ جاتی ہے۔

گزشتہ جمعہ کو وفاقی شرعی عدالت نے قومی اسمبلی کے بل پر فیصلہ دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ جنس کا تعین صرف اور صرف جسمانی ساخت کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ قومی اسمبلی کے اسی بل پر دیا گیا ہے جس پر ملتان میں گفتگو ہو رہی تھی۔ یہ خاکسار نہ تو قانون جانتا ہے اور نہ فقہ۔ ذہنی صحت کے شعبے سے سے اپنی 32 سالہ وابستگی کے نتیجے میں جو شد بد پیدا ہونا لازم تھی اس کے پیش نظر یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ فیصلہ ان فکری اور تحقیقی نتائج کے صریحاً خلاف ہے جو علمی دنیا نے دہائیوں سے جاری بحث سے اخذ کیے تھے۔ مذہبی علما کسی جدید مسئلے کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کیسے دیکھتے ہیں، ایک عامی کے طور پر اس کا اندازہ 1987 یا 88 میں پہلی دفعہ اس وقت ہوا جب علامہ طالب جوہری مرحوم اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن تھے اور وہاں ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے پیدا ہونے والے بچوں پر گفتگو جاری تھی۔ علامہ صاحب نے مجھے یہ بتایا کہ اس گفتگو کے لیے کونسل کس طرح میڈیکل ڈاکٹرز سے مل رہی ہے اور ان بچوں کی پیدائش کے بارے میں خالص سائنسی معلومات اکٹھا کی جا رہی ہیں۔ مقصد ظاہر ہے یہ تھا کہ اس مسئلے پر کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے اس مسئلہ کی حقیقت سے کماحقہ واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔

میں یہ گمان کر سکتا ہوں کہ ٹرانس جینڈر بل کی تین شقوں پر فیصلہ کرنے سے پہلے شرعی عدالت کے منصفین نے بھی جنس کے تعین کے لیے ضروری عوامل پر جاری گفتگو اور اس میں شریک ماہرین کے نظریات جانے کی کوئی نہ کوئی کوشش ضرور کی ہو گی۔ اگر یہ کوشش کی گئی ہے تو یہ طالبعلم پورے وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ یا تو جو معلومات شرعی عدالت تک پہنچی ہیں وہ غلط ہیں یا درست معلومات کو سمجھنے کی پوری کوشش نہیں کی گئی یا پھر ان معلومات کو سرے سے در خور اعتنا ہی نہیں سمجھا گیا۔ شرعی عدالت کا یہ فیصلہ اس لیے بھی موجودہ سائنسی معلومات کے خلاف دکھائی دیتا ہے کیونکہ مصر اور ایران کے علماء آج سے 45 سال پہلے 1980 کی دہائی میں دستیاب معلومات کی بنیاد پر جنس کے تعین کے لیے جسمانی ساخت کو ناکافی قرار دے چکے تھے۔ یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ پاکستان کی شرعی عدالت کے پاس وہ معلومات اور ماہرین نہیں جو انہیں یہ بتلا اور سمجھا سکتے کہ جنس کے تعین کے لیے فقط جسمانی ساخت پر انحصار کے کیا نتائج نکلتے اور نکل سکتے ہیں۔ میری نظر میں شرعی عدالت کے فیصلے کی بنیاد جنس کے تعین کے لیے درکار عوامل کے بارے میں منصفین کے رائے پر رکھی گئی ہے اور یہ رائے کم علمی پر مبنی ہے۔ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس پر اپنی چند معروضات مختصراً عرض کروں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ پیدائش سے قبل ہی والدین بننے والے جوڑوں میں یہ جاننے کی خواہش کس قدر شدید ہوتی ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ لڑکا ہو گا یا لڑکی۔ اب الٹرا ساؤنڈ کی مدد سے یہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر الٹراساؤنڈ کے ذریعے جب جنس کا تعین کرتا ہے تو ایسا جسمانی ساخت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ پیدائش کے بعد ماں باپ اسی اعتبار سے بچوں کے نام رکھتے ہیں۔ ان کے لباس خریدتے ہیں۔ ان کو کھیلنے کے کھلونے فراہم کرتے ہیں۔ ان کے لئے تعلیمی اداروں اور وہاں علم حاصل کرنے اور مستقبل کے لیے مضامین کا انتخاب بھی بہت سی صورتوں میں جنس کے حوالے سے ہی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں آج تک اگر لڑکی پیدا ہو تو رونا پیٹتا شروع ہو جاتا ہے اور لڑکے کی پیدائش آج بھی خوشیوں کا سبب قرار پاتی ہے۔ جو بات یہاں وجہ نزاع ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی لڑکا یا لڑکی اپنی جسمانی ساخت سے متعین ہونے والی جنس کے ساتھ آسودہ اور مطمئن نہ ہو تو کیا کیا جائے۔ کیا ایسا فرد الٹراساؤنڈ کی رپورٹ ساری زندگی گلے میں لٹکا کر ایک مجبوری کی زندگی گزارتا رہے یا اس کے پاس کوئی اور راستہ بھی ہے؟ اپنی جسمانی ساخت کے ساتھ ناآسودگی اور عدم اطمینان کو شرعی عدالت کے ججوں کی طرح کوئی معمولی بات نہ سمجھیے۔ ایسے افراد میں پیدا ہونے والے نفسیاتی اور جسمانی مسائل اور ان میں موجود خودکشی کی شرح پر صرف گوگل پر موجود معلومات آپ کو بہت کچھ بتلا دے گی لیکن اس نا آسودگی کی حقیقت ان سے پوچھیے جن پر یہ گزرتی ہے یا ان سے پوچھئے جو یہ سب کچھ ہوتا ہوا دیکھتے اور ایسے افراد کی مدد کرتے ہیں۔ شرعی عدالت کے منصفین کا یہ فیصلہ پڑھتے ہوئے مجھے وہ سائکایٹرسٹ یاد آ گئے جو خواتین کے ذہنی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے یہ کہہ رہے تھے کے مسائل صرف جسمانی ہوتے ہیں جو خون کے ٹیسٹ کے ذریعے دیکھے جا سکیں یا دواؤں کے ذریعے جن کا علاج کیا جا سکے باقی رہی تھوڑی بہت مایوسی، اداسی یا پریشانی۔ تو ان سب کا علاج خلوص دل سے کی جانے والی عبادت کے ذریعے ممکن ہے۔
اپنی جسمانی ساخت کے ساتھ ناآسودگی Gender Dysphoria کے متعدد اسباب ہیں اور ان میں ایک اہم وجہ خالص جسمانی ہے۔ اسی وجہ سے اب ایسے افراد پہلے سے کہیں زیادہ مختلف طبی طریقوں سے اپنے جسم میں وہ تبدیلیاں لانے کے قابل ہو جاتے ہیں جو انہیں ان کی ترجیح کے مطابق جسمانی ساخت کا مالک بنا دیتی ہے۔ اگر پبلک فورم کے تقاضے اور وقت کی تنگی آڑے نہ ہوتی تو تفصیل کے ساتھ یہ بات بیان کی جا سکتی تھی کہ اپنی جسمانی ساخت کے ساتھ ناآسودہ ہونے کا کیا مطلب ہے۔ تاہم دو باتیں کہنا ضروری ہیں۔

ایک۔ یہ ناآسودگی بالعموم کسی نفسیاتی عارضے کے سبب نہیں ہوتی
دو۔ ایسے افراد کی ایک بڑی تعداد جسم میں موجود تبدیلیوں کے سبب اس ناآسودگی کو محسوس کرتی ہے۔

آج کی دنیا میں ایسے افراد کو جنس کی تبدیلی Gender Reassignment کے لیے درکار سہولیات فراہم کرتی ہے تاہم چونکہ یہ ایک پیچیدہ فیصلہ ہے اس لیے اس میں جسمانی اور نفسیاتی دونوں پہلوؤں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ اور اس قدر قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاتا جس حتمی انداز کو شرعی عدالت نے اختیار کیا ہے۔

ایک اہم بات جو شرعی عدالت کے فیصلے سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اس مسئلے کی پیچیدگی اور حساسیت سے بالکل ناواقف اور بے غرض نظر آتی ہے۔ عدالت بادی النظر میں اس علم سے بھی محروم دکھائی دیتی ہے جو ایک ایسے شخص کے احساسات کو سمجھنے میں مدد دے جو اپنی جسمانی ساخت اور اپنی ترجیحی جنس کے درمیان تضاد سے پریشان ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments