ایک نا ختم ہونے والا اذیت ناک سفر۔ مکمل کالم


آج لال مسجد آپریشن سے بات شروع کرتے ہیں۔ جو بچے نئے نئے انقلابی بنے ہیں انہیں شاید یاد نہ ہو سو اُن کی معلومات کے لیے بتا دوں کہ لال مسجد اسلام آباد میں ہے، 2007 میں وہاں ایک مولوی صاحب نے عورتوں اور بچوں کو ڈھال بنا کر ریاست کی عملداری کو چیلنج کیا، اُن سے ہر قسم کے مذاکرات کیے گئے مگر بات نہیں بنی، سو اُس وقت کی حکومت پر دباؤ بڑھتا گیا کہ وہ فوجی کارروائی کر کے ریاست کی رِٹ بحال کرے۔ بالآخر سیکورٹی اداروں نے آپریشن کیا جس کے نتیجے میں لال مسجد کا محاصرہ تو ختم کروا لیا گیا مگر اِس کارروائی میں سو کے قریب افراد جاں بحق ہو گئے۔

آپریشن کے بعد عورتوں اور بچوں کی مظلومیت کی لرزہ خیز کہانیاں اخبارات میں شائع ہوئیں، ملک میں کہرام مچ گیا اور حکومت پر کڑی تنقید شروع ہو گئی اور اچھی بھلی مضبوط حکومت شدید دباؤ میں آ گئی۔ اِس بات کو یہیں چھوڑتے ہیں اور اگلی بات کرتے ہیں۔ آج سے چار سال پہلے ملک کے دور افتادہ علاقے میں ایک رہنما احتجاجی مارچ کر رہا تھا، وہ رہنما ریاست کی اچھی کتابوں، بولے تو گُڈ بُکس میں نہیں تھا، سو اسے روکنے کی کوشش کی گئی، وہ نہ رکا، جواب میں فائرنگ کر دی گئی جس کے نتیجے میں کم ازکم تیرہ مظاہرین جاں بحق ہو گئے۔ اِن غریبوں کی شناخت کے بارے میں اتنا کہنا کافی ہے کہ یہ اربن مڈل کلاس پنجابی نہیں تھے۔

دونوں باتیں الجھ گئی ہیں لہذا سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہماری لاڈلی برگر کلاس نے اِس مرتبہ چونکہ ضرورت سے زیادہ بڑی واردات کردی ہے اِس لیے اِن کے چاہنے والوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اِس کا دفاع کیسے کریں۔ چاہنے والوں کا بس نہیں چل رہا کہ سیدھا یہ لکھ دیں کہ فوجی املاک اور شہیدوں کی یادگاروں کو تباہ کرنے والوں کے محض کان کھینچ کر (کان بھی زور سے نہیں کھینچنے ) رہا کر دیں، یہ ہمارے بچے ہیں، شریر ہیں، جذباتی ہیں، اِن کا کوئی قصور نہیں، جو انہوں نے کیا وہ کئی برسوں کی محرومیوں کا نتیجہ ہے، یہ تو نظام کی ناکامی کا غصہ تھا، ریاست کو چاہیے اِن سے پیار محبت سے پیش آئے اور اِن کے لیے عام معافی کا اعلان کردے، بدلے میں یہ اچھے بچے بن کر رہیں گے، البتہ اگر انہیں جیل بھیج دیا گیا تو یہ تخریب کار بن کر نکلیں گے۔

اِس دلیل کے جواب میں اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ گزشتہ دس سال سے اِن کے لیے عام معافی ہی چل رہی تھی جس کی وجہ سے آج ہم یہاں پہنچے ہیں۔ جو کام اِن بلوائیوں نے کیا اگر اُس کا دس فیصد بھی کسی نے بلوچستان یا فاٹا میں کیا ہوتا تو اخبارات میں یہ بحث ہی نہ ہو رہی ہوتی کہ اِن سے کیا سلوک کیا جائے۔ جس واقعے میں تیرہ مظاہرین جاں بحق ہوئے تھے وہ اِس کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔

ایک اور بات یہ لوگ بہت شد و مد سے کر رہے ہیں کہ فائیو سٹار انقلابیوں کو جس بے رحمی سے گرفتار کیا جا رہا ہے اُس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اصل میں اِن کی تاریخ شروع ہی ایک سال پہلے ہوئی ہے، اِس سے پہلے ملک میں کیا ہوتا تھا انہیں کچھ نہیں پتا، کس طرح آمریتوں میں لوگوں نے صعوبتیں برداشت کیں اِن کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں۔ ایک دلیل ڈیفنس کے اِن چہ گویراؤں کے حق میں یہ بھی دی جا رہی ہے کہ اصل قصور تو سیکورٹی اداروں کا ہے جنہوں نے حساس عمارتوں کی حفاظت نہیں کی، اگر وہ بروقت کارروائی کرتے تو اتنا نقصان نہ ہوتا۔ یہ دلیل دیتے وقت اِن کے حامی بڑے غیر محسوس انداز میں بلوائیوں کو کلین چِٹ دے رہے ہیں مگر اِس دلیل میں بھی وزن نہیں کیونکہ جو لوگ اِن کے محض پکڑے جانے پر یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں پیار محبت سے سمجھا بجھا کر چھوڑ دیا جائے، اُن کو اگر موقع پر گولیاں مار دی جاتیں تو ملک میں کس قسم کا کہرام مچتا، یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ لال مسجد کا آپریشن اِس کی چھوٹی سی مثال ہے۔

برگر انقلابیوں کے دفاع میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ سب نوجوان تو پُر امن احتجاج کا حصہ تھے مگر ایک سازش کے تحت اُس احتجاج میں کچھ فسادی شامل ہو گئے جنہوں نے تمام توڑ پھوڑ کی اور تباہی مچائی لہذا اُن فسادیوں کو پکڑ کر سزا دینی چاہیے۔ اِس دلیل کی پڑتال بھی کرلیتے ہیں۔ پچھلے چند برسوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ کہیں کچھ لوگ اکٹھے ہو کر کسی شخص توہین مذہب کے نام پر قتل کر دیتے ہیں۔ چند ماہ پہلے ننکانہ صاحب میں ایک ہجوم نے تھانے میں گرفتار شخص کو، جو اسی الزام میں بند تھا، اندر گھس کر مار دیا۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ یہ اِس لیے ہو رہا ہے کہ ملک میں انتہا پسندی کا ایک ماحول بنا دیا گیا ہے جس کے تحت لوگوں میں اشتعال اور انتہا پسندی کُوٹ کُوٹ کر بھر دی گئی ہے، اب انہیں کسی کے حُکم کا انتظار نہیں کرنا پڑتا، وہ خود ہی عدالت لگاتے ہیں اور موقع پر ہی سزا سنا دیتے ہیں۔ سیاسی شعور کے نام پر بھی ہم نے یہی کچھ کیا ہے، جب آپ اپنے پیروکاروں کو مسلسل یہ کہیں گے کہ آپ حق پر ہیں اور آپ کے مخالف باطل لہذا آپ نے اُن کے خلاف جہاد کرنا ہے تو لا محالہ اِس بیانئے کا وہی نتیجہ نکلے گا جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اِس حقیقت سے انکار کرنا ممکن نہیں، باقی جو مزاجِ یار میں آئے۔

اب تصویر کا دوسرا رُخ دیکھتے ہیں۔ دوسرا رُخ یہ ہے کہ جنہیں ہم فائیو سٹار انقلابی کہہ رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ سچ مُچ انقلابی ہوں، ضروری تو نہیں کہ ہمیشہ غریب اور پسے ہوئے طبقے کے لوگ ہی انقلاب لائیں، پڑھا لکھا اور متمول طبقہ بھی تو ملک کی خاطر جد و جہد کر سکتا ہے لہذا عین ممکن ہے کہ یہ جد و جہد درست سمت میں ہو۔ چلیے ہم یہ بات تسلیم کرلیتے ہیں مگر پھر دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا، اگر یہ واقعی حق و باطل کا معرکہ ہے، جہاد ہے، آزادی کی جنگ ہے تو ایسی جد و جہد میں ضمانتیں نہیں کرواتے، ممی ڈیڈی کو یہ نہیں کہتے کہ فلاں انکل کو فون کر کے کہیں کہ مجھے کینٹ تھانے سے چھڑا لیں، فار گاڈ سیک یہاں اے سی بھی نہیں اور مچھر بھی بہت ہیں۔ چہ گویرا اور ماؤ زے تُنگ نے عدالتوں سے رجوع نہیں کیا تھا۔

دوسرا، کیا یہ لوگ واقعی نظریاتی ہیں اور اِن کی جنگ کسی نظریے کی خاطر ہے؟ نہیں، ایسا نہیں ہے، اسے دیوتا کی محبت میں دیوانگی تو کہا جا سکتا ہے مگر نظریاتی جنگ نہیں کہہ سکتے، اگر یہ نظریاتی جنگ ہوتی تو کسی ایک شخص کی ذات کے گرد نہ گھومتی جبکہ یہاں یہ حال ہے کہ آج اگر یہ حُکم آ جائے کہ سب کچھ ختم کر کے چُپ چاپ گھروں میں بیٹھ جاؤ، ہم نے کسی سے آزادی نہیں لینی تو بلا چوں چرا اُس حکم کی تعمیل ہوگی اور نظریہ گھاس کھانے چلا جائے گا۔

سچ پوچھیں تو صورتحال قابل قبول نہیں، کوئی جمہوریت پسند اور آزاد خیال شخص ایسا معاشرہ نہیں چاہتا جہاں بنیادی انسانی حقوق سلب کیے جاتے ہوں، مگر مصیبت یہ ہے کہ جمہوریت پسندوں کے لیے اِن بلوائیوں نے کوئی راستہ ہی نہیں چھوڑا۔ یہاں دانشوروں کو صرف اپنا ریکارڈ درست رکھنے کی فکر ہے، وہ بڑھ چڑھ کر غیر قانونی اقدامات کی مذمت تو کر رہے ہیں، جو کہ بالکل کرنی چاہیے، مگر اُن کا مطمح نظر کوئی قابل عمل حل پیش کرنا نہیں بلکہ صرف شہیدوں میں نام لکھوانا ہے تاکہ سند رہے اور کل کو جب فسطائیت کا دور واپس آئے تو وہ اطمینان سے کہہ سکیں کہ ہم نے تو اُس وقت بھی مذمت کی تھی اور آج بھی مذمت کر رہے ہیں۔ دانشوروں کی اِس روش کی وجہ سے آج ہم واپس اُسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے، خدا ہی جانتا ہے کہ یہ سفر کتنا طویل اور اذیت ناک ہے!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 496 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments