ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ! پہلی قسط :


اگر انور سن رائے سے ہم مل نہ چکے ہوتے تو ہم سے دو غلطیاں ضرور سرزد ہو جاتیں۔ ایک ناول پڑھنے سے پہلے اور دوسری بعد میں۔

ذلتوں کے اسیر ہمارے سامنے کھلا پڑا ہے۔

ایک ایسا ناول جس کا بنیادی کردار ایک ایسی عورت سے متاثر ہو کر بنایا گیا جو اپنے متعدد جنسی معاشقوں، شادیوں، بے راہ روی اور پراسرار موت کی وجہ سے آج بھی یاد کی جاتی ہے۔ ایک ذلت آمیز زندگی گزار کر رخصت ہو جانے والی ہی تو ذلتوں کی اسیر تھی۔ پھر عنوان ذلتوں کے اسیر کیوں؟ کیا یہ کتابت کی غلطی ہے، طباعت کی یا انور سن رائے سے چوک ہو گئی؟ کیونکہ ناول کے نام کا صیغہ واحد نہیں۔

ناول پڑھ چکے تو خیال یہ آیا کہ اس ناول کا مصنف مرد نہیں ہو سکتا۔ آخر کوئی مرد فاحشہ سمجھی جانے والی عورت کے اندر بھڑکتی ہوئی آگ کو کیسے الفاظ کا روپ دے سکتا ہے؟ وہ کیسے جان سکتا ہے کہ وہ عورت زخموں سے چور، سسکیاں بھرتے ہوئے موت کی تلاش میں بھٹک رہی ہے۔ جیسے جیسے موت کی آرزو شدید ہوتی ہے، زندگی ایک اور امتحان میں ڈال دیتی ہے۔

آخر انور سن رائے نے کیسے سمجھ لیا کہ پا بہ زنجیر عورت ننگے پاؤں کڑی دھوپ میں اپنا سفر کیسے تمام کرتی ہے؟ یک دم خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ مصنفہ خاتون ہوں اور نام انوری سن رائے ہو اور نام کا ی چھپنے سے رہ گیا ہو۔ بیگم اختر کی طرح بیگم انور سن رائے؟

لیکن افسوس ہمارے خیال کی پرواز فوراً ہی ڈھے گئی کہ انور سن رائے سے دو بدو ملاقات کا شرف حاصل ہو گیا۔

طلسم ہوشربا کی کہانیوں نے بچپن سے ایسا اسیر کیا کہ آج تک رہائی نہیں ملی۔ جب کوئی عیار مکار جادوگر بھیس بدل، چہرے پہ روغن زیتون مل کر کسی اور کی شکل میں محل میں داخل ہوتا، طلسمی آئینہ اصل روپ ظاہر کر دیتا، طلسمی کبوتر جادوگر کے نام کا ورد کرنے لگتا۔ چوکیدار چوکنے ہو جاتے تو ہمارا رکا ہوا سانس بحال ہو جاتا۔

یہی کچھ ہمارے ساتھ ناول پڑھتے ہوئے ہوا، سانس رکا اور نہ جانے کتنی بار رکا۔ ثانیہ ایک طلسمی آئینہ ہی تو تھی، جس طرف بھی رخ کرتی، معاشرے کے چہروں سے ملمع اتر جاتا اور حقیقت اپنی کریہہ بدصورتی کے ساتھ سامنے آ جاتی۔

یہ بھی سمجھ آ گیا کہ عنوان سوچنے میں قطعاً کوئی غلطی نہیں ہوئی۔
ایک عورت کی انتیس برس کی زندگی نے معاشرے کے مختلف طبقات کی غلاظت پرت پرت کر کے اتار دی۔

ثانیہ گوجرانوالہ کی مٹی سے بنی تھی۔ نہ جانے اس مٹی میں کیا ہے جو کبھی امرتا پریتم میں ڈھل جاتی ہے، کبھی ن م راشد میں، کبھی میرا جی میں اور کبھی سارہ شگفتہ میں۔

ثانیہ کی زندگی ویسے ہی شروع ہوئی جیسے پدرسری معاشرے کی عورت کی ہوتی ہے۔ غربت، بچوں کا انبار، لاپروا کاہل باپ، تعلیم کی کمی اور انجام، باپ کے گھر سے شوہر کی چاکری اور پھر سے وہی سب کچھ جو اس کی ماں کا نصیب تھا۔ اس دائرے میں مرد کھلاڑی ہے جو عورت کو اپنی انگلیوں پر نچاتے ہوئے اس کی زندگی کا فیصلہ کرتا ہے، چاہے باپ ہو یا بھائی، شوہر ہو یا بیٹا۔

بات تب بگڑتی ہے جب کبھی کوئی ستم رسیدہ سوال پوچھنے کی جرات کرتے ہوئے سر جھکانے سے انکار کرتی ہے یا اپنا راستہ خود تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

ثانیہ نے زندگی سے سیکھا ہے کہ عورت ایک جسم کا نام ہے اور اس جسم کی قیمت اس کا مالک طے کرتا ہے۔ بھلے یہ مالک باپ ہو، بھائی، شوہر، بیٹا، عاشق یا کوئی اور۔

ثانیہ نے بچپن سے معاشرے کے تضادات اور منافقت کو قریب سے دیکھا ہے اور اس میں مرد کا کردار بنیادی ہے جو عورت کو کبھی بھی، کہیں بھی اپنے فائدے کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔

ناول ثانیہ کی زندگی کے ان دس برسوں کی کہانی سناتا ہے جب ثانیہ عورت کے انسان ہونے اور اس کی ذات کو پیش آنے والے واقعات پہ سوال اٹھاتی ہے۔ وہ یہ تو سمجھ چکی ہے کہ یہ دنیا عورت کے لئے نہیں بنی مگر وہ جاننا چاہتی ہے کہ کیوں؟

وہ پوچھتی ہے،

”عورت کیا ہے؟ کیا عورت اس لئے عورت ہے کہ اس کے جسم کی بناوٹ مرد سے مختلف ہے اور اس کے جسم کا ایک حصہ کوکھ کہلاتا ہے جس میں وہ مرد کا نطفہ محفوظ کرتی ہے۔ یا اس کے سینے پر دو ابھار ہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ اس نطفے کی پرورش کرتی ہے اور ان ابھاروں کی وجہ سے مرد کو خوبصورت دکھائی دیتی ہے۔

کیا عورت بس اتنی ہی انسان ہے؟ کیا اس کی روح نہیں ہوتی؟ کیا وہ مردوں کی طرح انسان نہیں ہوتی؟ بس جنسی لذت دینے اور بچے پیدا کرنے کی ایک مشین ہوتی ہے؟ صرف حکم بجا لانے والا روبوٹ ہوتی ہے ”

ثانیہ گرچہ معمولی پڑھی لکھی عورت ہے لیکن اتفاق سے نوجوان دانشوروں کے ایک ایسے گروہ سے متعارف ہوتی ہے جن کا اوڑھنا بچھونا اردو ادب اور خاص طور پہ شاعری ہے۔ اس گروہ میں مرد و عورت کی کوئی تخصیص نہیں۔ سب کا تعلق نچلے متوسط طبقے سے ہے، اور سب زندگی کی گاڑی کھینچنے کے ساتھ ساتھ شاعری کی دنیا فتح کرنا چاہتے ہیں۔

ثانیہ ان کے لئے ایک پراسرار کردار ہے۔ وہ سب اس کے بارے میں سوچتے ہیں، اس کی پردوں میں لپٹی ذات کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔

سرور اکرام نے پہلی ہی نظر میں محسوس کر لیا کہ وہ ایک تجربہ کار اور جہاں دیدہ عورت ہے۔

نبیل کا کہنا تھا کہ اس نے اپنی زندگی میں اتنی سخی اور مہربان لڑکی نہیں دیکھی، اس کے مزاج میں قلندری ہے۔ پتہ نہیں یہ اتفاق ہے یا کوئی اور بات لیکن اس نے سڑکوں پر گھومتے اور فٹ پاتھوں پر لیٹے مجذوبوں کو ثانیہ کا احترام کرتے دیکھا ہے۔

انور سن رائے کو احساس ہوا کہ اس میں ایسی کوئی بات ضرور ہے جو غیر معمولی ہے، وہ ان سب لڑکیوں اور عورتوں سے مختلف تھی جنہیں وہ جانتے تھے۔ شاید اس نے زندگی کو بہت قریب سے اور شاید پوری تلخیوں کے ساتھ دیکھا ہے۔

امتیاز شفیق سمجھتا ہے کہ ثانیہ کی شخصیت میں بہت پراسراریت تھی۔ اس سے مل کر ایک عجیب سا خوف محسوس ہوتا ہے یوں لگتا ہے کہ کوئی چیز آہستہ آہستہ رگوں میں چل رہی ہو اور خون کے ساتھ ساتھ اس چیز کے چلنے کی آہٹ بھی سنائی دے رہی ہو۔

مدیحہ کے خیال میں وہ ایک عجیب عورت ہے، انداز کچھ ایسا جیسے کچھ چھن جانے کا خوف ہو، بظاہر تند خو لیکن اندر سے ڈری ہوئی۔

شرفو نے کہا کہ ثانیہ کو تم لوگ نہیں جانتے، وہ کسی کی بیوی بن کر نہیں رہ سکتی، بیوی بن کر رہنے والی عورتوں میں سے نہیں ہے۔ وہ کسی ایک کی ہو کر رہ ہی نہیں سکتی۔

واجد کی رائے میں مدیحہ کو ثانیہ سے نہیں ملنا چاہیے ایسی ویسی بات ہونے کے نتیجے میں مدیحہ کیا کرے گی؟

انصار طالب کے خیال میں ثانیہ اپنے آپ سے بھاگ رہی ہے اور چھپانے کے باوجود وہ سب سامنے آ رہا ہے جو وہ چھپانا چاہتی ہے۔

احمد قریش اسے ایک عجیب روح سمجھتا ہے، معاشرے کی باغی، گپت عہد کی کوئی روح۔

امثال کے نزدیک ثانیہ کی آنکھوں سے نکلے ہوئے الفاظ اس کی آنکھوں تک پہنچ کر دل پہ نقش ہو جاتے ہیں اور ان کی خاموشی کلام کرتی ہے۔ اس کی آنکھیں ہر وقت جنسی کشش کا جال پھیلائے رکھتیں ہیں۔

اعزاز کو وہ غیر معمولی اشتعال انگیزی کی مالک محسوس ہوتی ہے۔ کبھی کبھی اسے لگتا ہے کہ اس میں کوئی اور روح حلول کر جاتی ہے، کوئی ایسی روح جو ظاہری علامت کے بغیر خوفزدہ کر دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments