معیشت دان قیصر بنگالی کی باتیں


”روم جل رہا تھا اور نیرو چین کی بانسری بجا رہا تھا۔“ اب اس فقرہ کی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے تاریخ میں جھانکنے کی ضرورت نہیں پاکستان جائیے اور دیکھیے کہ کتنے سیاست دان اور فوج کے اعلیٰ عہدہ دار بے حس نیرو کی شکل میں ملک کو جلتا دیکھ رہے ہیں اور چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ پاکستان اس وقت سری لنکا کے راستے پہ چلتے ہوئے بینکرپسی (دیوالیہ) کے دہانے پہ کھڑا ہے۔ اس ملک میں اشرافیہ اور غریب عوام کی دو دنیائیں بسی ہوئی ہیں۔ جہاں ایک جانب پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس، جوتوں سے عاری، اور تعلیم سے یکسر نابلد، بھیک مانگتے، بھوکے عوام ہیں تو دوسری جانب وہ لوگ جن کے گھروں میں عیش و عشرت کا ہر سامان ہے۔ کبھی ذہن سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ ہوش میں آنے سے پہلے اس ملک کو تباہی کے پاتال میں مزید کتنا اترنا ہے؟

اپنے سوال کے جواب کے لیے ہم نے ماہر معیشت قیصر بنگالی سے گفتگو کی جن سے میرا تعارف گزشتہ کچھ برسوں میں بطور خاص انٹرنیٹ کے توسط سے ہوا۔

سوال 1۔ قیصر صاحب مجھے خوشی ہے کہ بالآخر آپ سے گفتگو کا موقع ملا۔ میں ایک سوشل ورکر ہوں۔ معیشت کو زیادہ نہیں سمجھتی لیکن یہ ضرور جانتی ہوں کہ کسی بھی ملک کے عوام کی خوشحالی کا انحصار اس کے عوام کی معاشی ترقی، سیاسی، اخلاقی اور قانونی صورتحال پہ ہے۔ آپ معاشیات کے ماہر ہیں۔ ہمیں آسان زبان میں پاکستان کی معاشی زبوں حالی کے اسباب اور حل بتائیں۔

جواب : بہت شکریہ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر شخص اکانومسٹ ہوتا ہے۔ خصوصاً خواتین جو روزانہ کی بنیاد پہ گھر چلاتی ہیں۔ ان سے بہتر گھر کا بجٹ کون بنا سکتا ہے۔

سوال 2 : سب سے پہلے کچھ اپنے متعلق بتائیں۔ آپ کا نام قیصر بنگالی کیونکر ہے؟

جواب: میں انڈیا کی ریاست گجرات کے شہر سورت میں پیدا ہوا۔ آزادی سے نوے سال پہلے میرے دادا کے والد اور خاندان نے سورت سے بیل گاڑیوں پہ ایک سال طویل سفر طے کیا اور کلکتہ پہنچ کے اپنا کاروبار شروع کیا۔ وہ بنگال کے بڑے زمیندار تھے لہٰذا سورت میں بنگالی مشہور ہوئے۔ اسی وجہ سے یہ ہمارے نام کا حصہ بن گیا۔ ہماری زبان گجراتی تھی۔ جب 1968ء میں ہمارا گھرانا پاکستان منتقل ہوا تو میں نویں جماعت میں تھا۔ اس وقت مجھے اردو بالکل نہیں آتی تھی۔ جو پی ٹی وی کی خبریں دیکھ کر سیکھی۔ اردو شاعری کا شوق تھا تو ضیا الحق کے دور میں پریس کلب جاکر حبیب جالب کو شوق سے سنتا۔ کراچی کے کالج اور یونیورسٹی سے اکنامکس میں ڈگری کر کے دو سال بوسٹن، امریکہ سے ایم ایس کے بعد کراچی یونیورسٹی سے اکنامکس میں پی ایچ ڈی کیا۔

گو میرا تعلق بزنس کمیونٹی سے تھا لیکن میں بچپن میں جب اپنی گاڑی میں بیٹھا ہوتا اور بچوں کو بھیک مانگتے دیکھتا تو والد صاحب سے پوچھتا تھا کہ یہ غریب کیوں ہیں؟ میں اس وقت سے ہی جاننا چاہتا تھا کہ غربت کیوں ہے اور اس کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے۔ میں باغی طبیعت کا تھا۔ اس کے نتیجہ میں سوشلسٹ بن گیا۔ اور والد کی خواہش کے باوجود خاندانی بزنس کو نہ اپنا سکا۔ میں نے تعلیم، تدریس اور تحقیق کو ترجیح دی۔ بحیثیت اکانومسٹ کئی اداروں سے وابستہ رہا۔ اور مختلف صوبوں کے اداروں میں ریسرچ اور معاشی پالیسیوں کے نفاذ سے منسلک رہا۔ اس وقت میں بطور کنسلٹنٹ کام کر رہا ہوں۔

سوال 3۔ پاکستان گزشتہ چار دہائیوں سے ڈی فالٹ اسٹیٹ اور دیوالیہ ہونے کے راستے پہ کیوں ہے؟

جواب: بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں شروع سے ہی ریاست کے مفاد کا وژن نہیں تھا۔ جو لوگ پاکستان ہجرت کر کے آئے، کراچی میں زبردستی ہندؤوں کو مجبور کر کے ان کے خالی مکان اور بنگلوں پہ قابض ہو گئے اس طرح انفرادی مفاد ہماری نفسیات اور کردار کا حصہ بن گیا۔

پاکستان کی حالیہ صورتحال کو سمجھنے کے لیے میں پاکستان کی معیشت کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ ضیاء سے پہلے کا دور جو 1947 سے 1977 کا اور پھر 1977 کے بعد ضیاٰء کی حکومت، اور بعد کا دور۔

پہلے دور میں پاکستان کی نوعیت ترقیاتی ریاست کی تھی اس کا مقصد معاشی ترقی تھا، جو خواہ پرائیویٹ ہو یا ریاستی سطح پر۔ 1947 میں پاکستان بہت پسماندہ تھا اور برٹش انڈیا کالونی کا ”بیک یارڈ“ کہلاتا تھا۔ آزادی کے وقت کل چھ درمیانی سطح کی فیکٹریاں تھیں۔ لیکن آزادی کے بعد ترقیاتی منصوبوں کو ترجیح دیتے ہوئے ہائی ویز، ڈاک خانے، پاور اسٹیشن اور تربیلا اور منگلا جیسے ڈیم وغیرہ بنائے گئے۔ اس ترقی نے پاکستان کی معیشت کا جغرافیہ بدل دیا۔ پہلے دور میں تیزی سے معاشی اثاثے بنائے گئے۔ سالانہ ترقی میں اضافہ کا تناسب بیس سے اکیس فی صد تھا۔ ہم ”ماڈل اکانومی“ سمجھے جاتے تھے اور دوسرے ممالک ہم سے سیکھ رہے تھے۔ اس کا کریڈٹ کسی ایک کو نہیں، سب حکومتوں، خواہ فوجی ہو یا جمہوری، کو جاتا ہے۔

سوال 4 : تو پھر 1977 کے بعد معیشت کو کیا ہوا؟

جواب: 1977 کے بعد پاکستان ترقیاتی کے بجائے سیکیورٹی ریاست بن گیا۔ ریاست کی نوعیت اور ان کی ترجیحات بدل گئیں۔ اس کے بعد سے ہم ترقیاتی منصوبوں پہ کچھ نہ لگا سکے۔ 1980 کی دہائی میں ترقی کی یہ شرح دو اعشاریہ سات فیصد رہ گئی اور اس کے بعد سے ہم کبھی سنبھل نہ پائے۔ ان برسوں میں ہم نے دانستہ امپورٹ (در آمد) کے سارے دروازے کھول دیے ہیں۔ پیپر، شوگر، آٹو موبیل، اسٹاک مارکیٹ، رئیل اسٹیٹ۔ ہمارے بحران کی نمبر ون وجہ تیل کی امپورٹ ہے۔ جس کا ضیاع ہم روزانہ کی بنیاد پہ سڑکوں پہ ٹریفک جام کی صورت دیکھتے ہیں۔ گاڑیاں اور تیل کا ایک ایک قطرہ ڈالرز میں خریدا جاتا ہے۔ جس کی قیمت غریب عوام ادا کرتے ہیں۔ غیر ملکی گاڑیوں کی یہ امپورٹ غیر ضروری ہے۔ پچھلے چالیس سال میں ہم نے بجائے محنت کرنے اور صنعتیں لگانے کے، سٹے بازی اور اسٹاک مارکیٹ کے دروازے کھول کے ”کیسینو اکانومی“ کو فروغ دیا۔ اس وقت ہمارا بجٹ غیر ترقیاتی منصوبوں پہ خرچ ہو رہا ہے۔ ہمارا انفرا اسٹرکچر تباہ حال ہے۔ اور ہم بجلی، پانی اور غذا کے شدید بحران میں مبتلا ہیں۔

سوال 5۔ صنعتیں بند کرنے اور پبلک سیکٹر کو پرائیویٹ تحویل میں دینے کا کیا جواز ہے؟

جواب: ہماری صنعتیں دانستہ بند کی گئیں۔ میں پوری ذمہ داری سے اس کا الزام پالیسی میکرز پہ لگا رہا ہوں۔ ہماری پالیسیاں خاص لابیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے بن رہی ہیں جس میں شکر، پیپر، آٹو موبائل ریئل اسٹیٹ، اسٹاک مارکیٹ اور سب سے بڑھ کر خود ہماری فوج شامل ہیں۔ فائدہ چند خاندانوں کو ہی پہنچ رہا ہے۔ جو براہ راست معیشت میں خسارے کا باعث ہیں۔ ہم نے اپنی زراعت اور پبلک صنعتوں کو کمزور سمجھا اور کہا کہ وہ اگر منافع نہیں کما رہی ہیں تو اس کو پرائیویٹائز کر دو۔ 1992ء میں پبلک انٹرپرائز کا سب سے بڑا جمعہ بازار لگایا گیا۔ اس وقت نوے یونٹ نجی تحویل میں گئے اور جو ایک سال کے اندر چار پانچ کے علاوہ سب بند ہو گئے۔ کیونکہ جنہوں نے صنعتیں خریدی تھیں وہ تو زمین خرید کے ہاؤسنگ اسٹیٹ بنانا چاہ رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ کئی ریاستی کمپنیاں منافع بخش تھیں۔ اس کی چند مثالیں ذیل پاک سیمنٹ، پی ایس او، ملت ٹریکٹر۔ جاوداں سیمنٹ پلانٹ، بلوچستان میں ہرنائی وولن ملز جو 1978ء تک بھی منافع دے رہا تھا۔ پبلک سیکٹر منافع کے لیے نہیں ہوتے۔ ان کا سماجی مقصد ہوتا ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز کا مقصد منافع نہیں، انجینئرنگ انڈسٹری کی ترقی تھا۔ تاجر منافع دیکھتا ہے، عوام کی فلاح یا ملکی ضرورت مدنظر نہیں رکھتا۔

جرنل ضیا کا تو کوئی ترقیاتی ایجنڈا نہ تھا۔ ان کا مقصد معیشت کے بجائے جہاد پھیلانا تھا۔ انہوں نے کہا ”ہم تو ماسکو تک جہاد کو لے جائیں گے۔“ انہوں نے سارے پبلک سیکٹرز کو سیاست دانوں کو کرپٹ کرنے کے لیے استعمال کیا۔ ستر کی دہائی میں قرضہ لے کر واپس نہ کرنے یا بینک لون ڈی فالٹ کا کلچر ہی نہ تھا۔ ملک میں فوج کی لابی اور اس کے کاروبار پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا لینڈ اونر خود ہماری فوج ہے۔ کراچی میں وہ زمین جو فائرنگ کی مشق کے لیے لی تھی وہاں پہ گھر بنا کے جرنیلوں کو دے دیے۔ جو قانون کی خلاف ورزی ہے۔ قانوناً زمین صوبے کی ہوتی ہے جو لیز پہ دی جاتی ہے۔ اس طرح ملک کو اس حال پہ پہنچانے میں حکمران طبقہ کی ہوس کے علاوہ فوج کا بھی کردار ہے جو بجٹ کا بڑا حصہ لے جاتے ہیں۔ ان کو زمین، گیس اور فرٹیلائزر سب سے سستے دام پہ ملتے ہیں۔

سوال 6۔ ہماری ایکسپورٹ کی کیا صورتحال ہے؟

جواب: ستر سالوں میں ہم صرف تین ”چ“ بیچ پائے ہیں۔ یعنی چاول، چمڑا اور چادر۔ ہوزری کی برآمدات میں ہم سِر فہرست تھے۔ جو اب گھٹ گئی ہے اور اس کی مارکیٹ دوسرے ممالک لے گے ہیں۔ ہم اپنی اشیاء میں اگر ورائٹی نہیں پیدا کریں گے تو خرید تو کم ہو جائے گی۔ جب ہم اپنا سرمایہ صنعت میں نہیں لگائیں گے تو کس طرح پیداوار اور برآمدات بڑھائیں گے۔ ہماری اینٹی انڈسٹری پالیسی کی وجہ سے 2011۔ 2021 تک ایکسپورٹ چوبیس یا پچیس ارب ڈالر پہ اٹکی رہی۔ اسی دوران امپورٹس 40 ارب ڈالر سے 56 ارب ڈالر ہو گئی۔ 2021 اور 2022 کے درمیان ایکسپورٹس میں 25 فیصد کا اضافہ ہوا اور اسی دوران امپورٹس میں 49 فیصد کا اضافہ ہوا۔ ہم نے جس کوئلے سے بجلی کے پلانٹ لگائے وہ بھی امپورٹڈ تھے۔ جبکہ ہمارے پاس خود بھی کوئلہ ہے۔ ہم چاول کی پیداوار اور ایکسپورٹ میں سرفہرست سات ممالک میں شمار ہیں۔ لیکن چاول کا سیریل باہر سے آتا ہے۔ حالانکہ ہم اس کی فیکٹری بنا کے ایکسپورٹ کر سکتے ہیں۔ بڑے برانڈ کے جوتوں کی فیکٹری بند ہو گئی۔ جبکہ ہمارے پاس چمڑا ہے۔ تین پیپر مینوفیکچررز کی لابی اتنی مضبوط ہے کہ اس نے سیکڑوں پرنٹنگ پریس بند کروا دیے۔ حد تو یہ ہے کہ اب ہمارے بچوں کے اردو کے قاعدے بھی چین اور ملائشیا سے چَھپ کے آرہے ہیں۔ ہماری اسٹیپلرز کی پن اور معمولی سے پرزے بھی باہر سے آتے ہیں۔ سپر اسٹور میں مشکل سے ہی پاکستان کی چیزیں ملتی ہیں۔ جہاں غریب کے پاس کھانے کو نہیں بیالیس فی صد بچے غذا کی شدید قلت کا شکار ہیں وہاں کتے بلیوں کے وٹامن اے اور ڈی شامل کیے کھانے امپورٹ ہو رہے ہیں۔ ہماری صنعت اور زراعت کی گرتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے عوام کو روزگار مہیا نہیں ہے باوجود اس کے کے ہم وسائل کے لحاظ سے امیر ملک ہیں۔

جس سال گرمی کی شدت سے بہت سے لوگ مر گئے تھے۔ ان میں تیس چالیس ایسی لاشیں تھیں جن کو ان کے ورثا نے کلیم نہیں کیا۔ جب ایک صحافی نے ان کے ورثا کا پتہ کیا تو انہوں نے کہا ”اگر ہم انہیں کلیم کریں گے تو انہیں دفنانا پڑے گا۔ ہمارے پاس اس کے پیسے نہیں۔ وہیں چھوڑ دیں تو ایدھی دفنا دے گا۔“ تو یہ حال تو ہم نے عوام کا کر دیا ہے۔ ہم معاشی ہی نہیں، اخلاقی طور پہ بھی بالکل دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ ہماری اشرافیہ کو شرم آنی چاہیے جو ایک گھنٹے میں ایک لاکھ خرچ کر دیتے ہیں اور یہاں مغرب سے زیادہ عیاشی سے رہتے ہیں۔ ہم نے دو پاکستان بنائے ہیں اشرافیہ اور غریب عوام کا پاکستان۔

سوال 7۔ ایکسپورٹ امپورٹ کا گیپ بڑھتا رہا ہے تو ان برسوں میں ہمارے وزیر خزانہ اور دوسرے وزراء کیا کرتے رہے ہیں۔ ملک تو ان کا بھی ہے؟

جواب: ہمارے یہاں امپورٹیڈ ٹیکنو کریٹ حکمران بن گئے ہیں۔ مثلاً 1993ء سے آئی ایم ایف سے ڈاکٹر یعقوب، ورلڈ بینک سے ڈاکٹر عشرت حسین آئے، ایشین بنک سے ڈاکٹر شمشاد اختر اسٹیٹ بنک کے گورنر رہے۔ شوکت عزیز کے زمانے سے امپورٹ کے سارے دروازے کھل گئے۔ میں ان کو ”پاکستان کے میر جعفر“ کہتا ہوں۔ ان میں سے کچھ اگر باہر سے امپورٹ ہوئے تو کچھ مقامی بھی ”میر جعفر“ بننے کے لیے تیار تھے۔ بیوروکریسی سے اور پروفیشنل اکنامسٹ جنہوں نے ان پالیسیوں کا دفاع کیا۔

سوال 8۔ کہا جاتا ہے کہ صدر پرویز مشرف کے دور میں ترقی کی شرح بہت زبردست تھی؟ آپ کی ریسرچ کیا کہتی ہے؟

جواب: مشرف کا دور 1999ء سے 2007ء کا تھا۔ بتایا جاتا تھا کہ اس وقت گروتھ ریٹ اچھا تھا۔ میں اس وقت سوشل پالیسی ڈویلپمنٹ سینٹر میں تھا۔ ہم ریسرچ کے تحت 2001ء سے باخبر کر رہے تھے کہ جو یہ اعداد و شمار حکومت کی جانب سے دیے جا رہے ہیں، فرضی ہیں۔ ہم اپنی اسٹڈی ثبوت کے ساتھ پیش کرتے تھے جو آج بھی ویب پہ موجود ہے۔ اگر ایسا ہی سب اچھا تھا تو ایک ہی سال (2008 ء) میں کیسے ہر چیز الٹ گئی۔ ہم تو اس وقت امریکہ افغانستان کی جنگ میں امریکہ کے خانساماں تھے۔ خوب ڈالرز مل رہے تھے۔ مشرف حکومت نے کنزیومر (صارفین) مارکیٹ کا دروازہ کھول دیا جو پہلے پاکستان میں نہیں تھا۔ بینکوں سے قرضہ لے کے جو چاہو خرید لو، گاڑی، اسکوٹر، گھر، ٹی وی حتی کہ بل بورڈ لگے تھے کہ اگر چھٹیوں پہ باہر جانا ہے تو قرضہ لو۔ اس کی وجہ سے بینکنگ سیکٹر کا گروتھ ریٹ 30 سے 40 فی صد ہو گیا۔ جس نے بحیثیت مجموعی جی ڈی پی کو بڑھا دیا۔ گو چار پانچ سال کے عرصے کی ترقی کے فرضی نمبر 2008ء میں ایکسپوز ہو گئے۔

سوال 9۔ سارے پڑوسی ممالک ترقی کر رہے ہیں مثلاً انڈیا اور بالخصوص بنگلہ دیش، یہ سب کیسے ہوا؟

جواب: اس ترقی کی وجہ ان ممالک کی پالیسیز اور انفرا اسٹرکچر ہے۔ انہوں نے اپنی معیشت مضبوط کی۔ صنعتیں لگائیں۔ حالانکہ ان کے ذرائع ہم سے کم تھے۔ انہوں نے تعلیم کے نظام کو اچھا کیا اور اس کے معیار پہ کوئی مداخلت برداشت نہیں کی۔ جبکہ ہم نے تعلیم کے شعبہ کی نجکاری کی۔ ہمارے تعلیمی ادارے، ماسوا ایک آدھ کے، سب دکانیں ہیں اور اساتذہ دکاندار۔ ہم نے ٹیکنیکل مہارت نہیں پیدا کی۔ اگر ہماری مشین خراب ہو جاتی ہے تو ہم جہاز کا ٹکٹ بھیج کے اس کا ماہر بلاتے ہیں۔ حساب کے استاد کو وہ تنخواہ نہیں ملتی جو ایم بی اے میں پڑھانے والے کو ملتی ہے حالانکہ حساب ”مدر آف آل سائنسز“ ہے۔ اور اسی لیے ہم کچھ بھی نہیں پیدا کر سکے۔ حالانکہ یونیورسٹی کی سطح پہ ریسرچ پیپرز (مقالوں) کی فیکٹری لگی ہوئی ہے لیکن جس معیار کی ریسرچ ہو رہی ہے وہ ہمیں کہیں نہیں لے جائے گی۔ ہماری تعلیم ہمیں کرپٹ بنا رہی ہے کیونکہ یہ صرف ہمیں اپنی ذات اور خاندان کے لیے مفاد کے لیے سوچنا سکھاتی ہے، معاشرے کو لوٹانے کا تصور نہیں۔ دوسرے ممالک نے سیاست اور معیشت میں سب کو ان کا حصہ دیا جبکہ پاکستان کی کوئی قومی شناخت نہیں۔ مثلاً ہماری کرکٹ اور ہاکی ٹیم ایک ہی صوبے سے آتی ہے۔ فٹ بال، جو لیاری کا کھیل ہے، اسے وفاق نے کبھی پروموٹ نہیں کیا۔ بلوچستان سے نکلنے والی سوئی گیس کا کنکشن صرف 14 فی صد بلوچستان میں مستقل لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ہے۔ پاکستان کا معاشرہ وڈیرے، سردار، چودھری پہ مبنی ہے اور فوج بھی اسی بنیاد پہ بنی ہے۔ اس سیاسی ڈھانچہ میں خواندگی اور صحت عامہ کی ترقی کوئی معنی نہیں رکھتی۔

سوال 10۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کا قرضہ لازم و ملزوم سے ہو گئے ہیں، کچھ اس پر بھی روشنی ڈالیں۔

جواب: یہ پہلا موقع نہیں، پچھتر سال میں ہم تئیس بار یہ قرضہ مانگ چکے ہیں۔ آئی ایم ایف بنیادی طور پہ مغربی طاقتوں کا ایک بینک ہے جو ایمرجنسی میں فنڈ اپنی شرائط کے ساتھ دیتا ہے۔ اس میں وہ اپنے مفادات پیش نظر رکھتے ہیں۔ لیکن آئی ایم ایف ہمیں دعوت نہیں دیتا۔ ہم اپنے اندرونی حالات ایسے کیوں کرتے ہیں کہ قرض کے بغیر ہم دیوالیہ ہو جائیں۔ ہم اپنی ایمرجنسی اگر بیس سال تک رکھیں گے تو یہ ہمارا قصور ہے۔ یہ قرضہ آکسیجن کا ایک وینٹیلیٹر ہے جو ہم سانس لینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ قرضہ ہم پچھلے قرضے کو چکانے کے لیے لیتے ہیں، ڈی فالٹ سے بچنے کے لیے۔ انڈیا آخری بار 1991ء میں آئی ایم ایف کے پاس گیا اور اس کے بعد سے اس نے اپنی پالیسی پہ کڑی نظرثانی کی اور پھر قرض نہیں لیا۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ کب تک ہم اپنی سیاسی خودمختاری کو بیچتے رہیں گے۔ اب تو دوسرے دوست ممالک بھی ہمارے کشکول سے تنگ آ چکے ہیں۔

سوال 11 : حالیہ سیلاب نے ملک کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ آئندہ اس قسم کی صورتحال سے نمٹنے کا کوئی منصوبہ ہے؟

جواب: ہم نے اس سے پہلے بھی قدرتی آفات دیکھی ہیں۔ 2005ء کا زلزلہ اور 2010ء کا سیلاب۔ ہماری ذہنیت یہ ہے کہ آج جو مشکل ہے اس سے ڈیل کر لو اور پھر بھول جاؤ۔ جب دہلیز پہ پانی آتا ہے تو سوچتے ہیں کہ کیا کیا جائے۔ سیلاب تو قدرت کا نظام ہے وہ تو اپنا راستہ ڈھونڈے گا۔ اگر آپ پانی کے راستے میں گھر بنائیں گے تو سیلاب تو سب بہا لے جائے گا۔ ان حالات سے نپٹنے کے لیے انفرا اسٹرکچر پہ کام کرنا ضروری ہے۔

سوال 12 : موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے کن اقدام کو اپنانے کی تجاویز ہیں؟

جواب: بنیادی طور پہ دو بحران ہوتے ہیں۔ ایک بجٹ کا خسارہ اور دوسرا تجارت کا خسارہ۔ بجٹ کے خسارے کا مطلب ہے کہ حکومت کے اخراجات زیادہ اور آمدنی کم ہے۔ اور تجارت کے خسارے کا مطلب امپورٹ کا ایکسپورٹ سے زیادہ ہونا ہے۔ ہماری ایکسپورٹس اوسطا اگر سو ڈالرز ہیں تو امپورٹس دو سو پچیس ڈالرز ہیں۔ ان دو خساروں کو پورا کرنے کے لیے ہم ملکی کرنسی چھاپ رہے ہیں اور ڈالر میں قرضہ لے رہے ہیں۔ جس سے افراط زر بڑھ رہا ہے (جو آج 40 سے 50 فیصد ہے) اور ڈالر مہنگا ہو رہا ہے۔ جس کی قیمت عوام ادا کرتے ہیں۔ لیکن اگر حکومت کے پاس امپورٹ کے لیے پیسے نہیں تو وہ ڈالرز تو نہیں چھاپ سکتی۔ اس لیے قرضہ لینا ہوتا ہے۔ بڑھتے قرض کا غبارہ سری لنکا کی طرح پھٹ سکتا ہے۔ 1972ء میں ڈالر کی قیمت دس روپے تھی اور آج ایک ڈالر 300 روپے سے زیادہ ہے۔ اس بحران سے نپٹنے کے لیے کچھ تجاویز یہ ہیں۔

غیر ضروری اشیاء کی درآمد پہ پابندی لگا دی جائے۔ غیر ترقیاتی اخراجات میں 50 فیصد کمی کی جائے۔ ڈیفنس کے غیر دفاعی اخراجات میں اگر بیس فیصد کمی ہو تو ایک کھرب روپوں کی بچت ہو گی۔ اس کے علاوہ ہمارے یہاں چالیس کے قریب فیڈرل ڈویژن میں سے پندرہ سے بیس کو ختم ہونا چاہیے۔ کہ جو غیر ضروری ہیں۔

باہر سے کوئلہ منگوانے کے بجائے ہم اپنے ملک کے کوئلہ کو استعمال کر کے بیس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سولر پینل سے بھی بجلی پیدا کرنے میں معاونت کی جائے۔ ریل کے مقابلے میں ٹرک 30 فیصد زیادہ ایندھن استعمال کرتا ہے۔ ریل کو بحال کر کے اس ایندھن پر خرچ ہونے والا زرمبادلہ بچا سکتے ہیں۔ ہمارا سب سے بحران تیل کی امپورٹ کا ہے۔ جس پہ قابو پانا بہت ضروری ہے۔

آج لوگوں کے پاس نوکریاں نہیں۔ فکس آمدنی والوں کی قوت خرید آدھی ہو گئی۔ اگر اس بحران پہ قابو نہیں پایا تو خانہ جنگی ہوگی تشدد بڑھے گا۔ لوگوں کو اپنے حقوق کے لیے بغاوت کر کے سڑکوں پہ آنا ہو گا۔ کیونکہ دولت کا اتنا فرق نہیں چل سکتا۔ دو پاکستان نامنظور ہیں۔ اشرفیہ ملک سے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کے عوام کو ان کی ضرورت نہیں۔

نوٹ: ڈاکٹر اور قیصر بنگالی چالیس سال سے زیادہ تدریس، تحقیق اور پالیسی مشاورت کا پاکستان اور بیرون ملک کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کی تحقیق پلاننگ اور ڈویلپمنٹ میں ہے۔ وہ پاکستان کے اہم اداروں سے منسلک رہے۔ پاکستان کی مختلف حکومتوں کی مشاورت کرنے کے علاوہ پچاس سے زیادہ مقالے، آٹھ کتابیں لکھیں اور تالیف کیں۔ ان کا اہم کام بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ڈیزائن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments