گریٹ والی آف سندھ


ہمارا ملک پاکستان آثار قدیمہ کا گڑھ ہے اور ہر صوبہ میں آثار قدیمہ میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے بے شمار ایسی جگہیں ہیں جن کو دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ انہی میں سے ایک جگہ رنی کوٹ قلعہ ہے جس کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ یہ غالباً دنیا کا سب سے بڑا قلعہ ہے۔ اس کی دیوار کا گھیر بیس میل یا اکتیس کلو میٹرز ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ قلعہ تالپوروں نے تعمیر کیا اور ایک نواب ولی محمد لغاری نے انیسویں صدی میں مرمت کرائی۔ اقوام متحدہ کے ثقافتی ورثہ میں شامل کرنے کے لیے محکمہ آثار قدیمہ کی درخواست زیر غور ہے۔ غرض یہ ایک شاندار سیاحتی مقام ہے مگر نہ تو وزارت سیاحت اس کی ترویج  میں خاص دلچسپی لے رہی ہے اور نہ ہی کوئی اور محکمہ۔ حالانکہ اگر اسکی ترویج و تشہیرکی جائے تو یہ ملک کے لیے زرمبادلہ کمانے کا بہترین ذریعہ بن سکتا ہے۔

اسے دیکھنے کے لئے ہم سکھر سے براستہ انڈس ہائی وے روانہ ہوئے۔ لاڑکانہ۔ دادو۔ سیہون ﴿ جس کی وجہ شہرت حضرت لعل شہباز قلندر کا مزار ہے ) سے گزرتے ہوئے سن شہر ﴿جس کی وجہ شہرت مشہور سندھی راہ نما جی ایم سید ہیں ) پہنچے۔ چونکہ راستے کا پورا علم نہیں تھا اس لیے راستے میں کئی جگہوں پر رک کر مقامی افراد سے رنی کوٹ کے بارہ میں پتہ کیا تو حیرت ہوئی کہ عام لوگوں کو اس قلعہ کا علم ہی نہیں تھا۔ وہ حیرت سے ہمیں دیکھ کر خیر پور کے کوٹ ڈی جی قلعہ کا پتہ بتاتے۔

با لا آخر ہم نے اپنے مہربان ڈاکٹر بدر سومرو صاحب ریٹائرڈ ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ شعبہ صحافت سندھ یونیورسٹی کو فون کیا جو سندھ کے بلکہ پاکستان کے چپہ چپہ سے واقف ہیں۔ حسب توقع انہوں نے فوراً مکمل معلومات مہیا کیں کہ جب سن شہر کے قریب پہنچو تو شہر سے ذرا پہلے رنی کوٹ کے لیے سڑک نکلتی ہے۔ اس پر تقریباً تیس کلومیٹر رنی کوٹ کا قلعہ ہے۔ چنانچہ ان کی راہ نمائی کے عین مطابق سن شہر سے تھوڑا پہلے دائیں ہاتھ بورڈ نظر آ گیا اور ہم اس پر روانہ ہو گئے۔

محکمہ آثار قدیمہ کے خیال میں غالباً آثار قدیمہ تک پہنچنے کا راستہ بھی آثار قدیمہ ہی کی طرح ہونا چاہیے۔ تیس کلو میٹرز کی یہ سڑک جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی۔ نہایت خستہ حال ہے۔ اگر ہم سیاحوں کو ان آثار کے دیکھنے کے لئے راغب کرنا چاہتے ہیں تو انفراسٹرکچر کو بہتر بنانا ہماری ذمہ داری ہے، لیکن نہ حکومت کی، نہ انتظامیہ کی اور نہ ہی محکمہ سیاحت کی اس طرف کوئی توجہ ہے۔ بہر حال اس ٹوٹی ہوئی سڑک پر تیس کلو میٹرز کا سفر ایک گھنٹے میں طے کر کے سن گیٹ پر پہنچے جو اس قلعہ کے چار دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔

میری بیوی جو میرے ہر الٹے سفر میں میرے ساتھ ہوتی ہے اور دوران سفر کو سنے دے دے کر اور منزل پر پہنچ کر واہ واہ کر کے میری حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اس سفر میں بھی ساتھ تھی۔ اور دیوار کو دیکھتے ہی اس کے منہ سے، کیا شاندار دیوار ہے، کے الفاظ نکلے۔ حقیقتاً یہ دیکھنے کی چیز ہے اور دیوار چین کی طرح کیر تھر کے پہاڑوں کی چوٹیوں پر سانپ کی طرح بل کھاتی حد نظر تک چلتی چلی جاتی ہے اور تعمیر کا معیار اس قدر اعلیٰ ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ میرے خیال میں یہ جگہ شعبہ سیاحت کی توجہ سے چند بہترین مقامات میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

راستہ خستہ حال ہونے کے علاوہ بنجر علاقہ سے گزرتا ہے۔ جہاں دور تک خشک میدان میں کہیں کہیں ببول کے درخت اور صحرائی جھاڑیاں نظر آتی ہیں جن پر کچھ بکریوں کے ریوڑ چرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آبادی بہت کم ہے اور کہیں کہیں نیم پختہ گھر اور لکڑی کی بنی ہوئی جھونپڑیاں دکھائی دیتی ہیں، جہاں محنتی اور سخت کوش انسان اپنے تھوڑے سے اثاثے کے ساتھ دن رات اس سخت ماحول میں رہ کر اپنے بچوں کی روٹی پانی کا بندوبست کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

ان کے لیے ملک میں حکومتوں کی تبدیلی۔ سیاستدانوں کے جھگڑے، انتظامیہ کی پالیسیاں اور اہلکاروں کی بے ضابطگیوں کی کوئی جگہ نہیں اور تمام تر رشوت خوری، بے ایمانی اور بد انتظامی کے بد اثرات سے نا آشنا جن کا وہ بھی شکار ہوتے ہیں۔ ان نا مساعد حالات کو خدا کی مرضی قرار دے کر اپنی روز مرہ کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں۔ دل کیا کہ کبھی ان خون آشام چمگادڑوں کے جبڑوں سے ان لذت کو چھین کر ان غریب لوگوں کے لطف سے نا آشنا ہونٹوں کو بھی ان لذت سے آشنا کر دوں جو صدیوں سے سخت کوشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ کے مشہور شاعر غلام حسین ندیم نے کہا تھا۔
ساڈے ہتھ پیالہ زہر دا اساں ویلے دے سقراط
اساں کھنڈ بناندے کھار نوں ساڈی جگ توں وکھری بات

(ہمارے ہاتھ میں پیالہ زہر کا، ہم وقت کے سقراط
ہم کھارے کو شکر بناتے ہیں، ہماری جگ سے الگ بات)

قمر سلیمان
Latest posts by قمر سلیمان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).