صاحب آپ کو متلی نہیں ہوتی؟


بیٹا ادھر آنا، شاباش کم ہئیر …. یہ ونڈوز بند کر دو ۔ گڈ ۔ اور یہ انکل سے ملو ۔

یہ انکل جمیل ہیں، امریکہ میں ہوتے ہیں، میرے دوست ہیں اور مدتوں بعد پاکستان آئے ہیں۔

جمیل صاحب یہ میرا بڑا بیٹا ہے ساتویں میں پڑھتا ہے ۔ مہنگے اسکول میں داخل کرایا ہے۔

بیٹا وہ انکل کو انگلش کی پوئم سناﺅ۔ شاباش ہری اپ….

بھئی واہ واہ آپ کا بیٹا بہت ذہین ہے ماشاءاللہ ۔ انگریزی کا لہجہ بالکل امریکی ہے ۔

ارے جمیل صاحب ان کے سکول کی یہ خاص بات ہے کہ لہجے پر بہت زور دیتے ہیں ۔

کلاس روم میں اردو بولنے پر سختی سے پیش آتے ہیں۔ فیس تو لیتے ہیں پر حق ادا کر دیتے ہیں

جاﺅ بیٹا ماما سے کہو کہ گیسٹ آئے ہیں، ٹی کا بندوبست کریں

اور سنائیں جمیل صاحب…. ادھر تو حالات بہت خراب ہیں۔ اللہ ہی اس قوم کو ہدایت دے ۔ اس کی حرکتیں عذاب کو دعوت دیتی نظر آتیں ہیں۔سمجھ نہیں آرہی اس قوم کا کیا بنے گا۔ اپنی زبان اور روایات کو چھوڑ بیٹھی ہے ۔ ایسے لگتا ہے دنیا ہی سب کچھ ہے ۔ جمیل صاحب دنیا دار ہو گئے ہیں سب۔ میں ہر سال اچھی خاصی رقم مدرسے کو دیتا ہوں۔ دنیا کے ساتھ اللہ کو راضی کرنا بھی ضروری ہے ۔پیسے قبر میں تو لے کر نہیں جانے۔آپ کو اس لیے نہیں بتا رہا کہ میں کوئی بڑا نیکی کا کام کرتا ہوں بلکہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ نیکی کا تصور کس قدر گڈ مڈ ہوتا جا رہا ہے۔ اندازہ کریں اس قوم کاکہ ہمارے محلے میں ایک گورنمنٹ سکول ہے اس کا ہیڈ ماسٹر میرے پاس آیا۔ اس کو کسی نے بتایا ہو گا کہ میں صدقہ خیرات میں خاصی رقم نکالتا ہوں ہر سال۔ آ کر کہنے لگا کہ اسکول کے لیے پانچ کمپیوٹر خریدنے ہیں۔ بچوں کو سکھانے کے لیے چاہیں۔ سرکار سے فنڈ نہیں مل رہا آپ کچھ مدد کردیں۔

یعنی جمیل صاحب ذرا اندازہ تو کریں کہ میں ہیڈ ماسٹر کی بات کر رہا ہوں جو پڑھا لکھا آدمی ہے اور صدقے کی رقم اسکول کے لیے مانگ رہا ہے۔ ہاہاہا۔

یعنی اسکول کو پیسے دینے سے میں اللہ کو راضی کر سکتا ہوں ۔ اللہ تو راضی ہوتا ہے اگر پیسے وہاں دیے جائیں جہاں اس کا نام لیا جاتا ہے ۔ مسجد مدرسہ جہاں ہر وقت اس کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ جہاں اہل ایمان کے دل اللہ کی محبت سے مامور ہوتے ہیں اور اس کا کلام پڑھا جاتا ہے ۔

کمپیوٹر خرید کر دوں گورنمنٹ اسکول کو…. واہ واہ…. اور آخرت کی فکر نہ کروں ۔ حد ہو گئی ہے۔

بات نصیر صاحب آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ میں حال ہی میں اپنے بچوں کو واپس پاکستان سیٹل کرنے کا سوچ رہا ہوں ۔

وہاں بہت گند ہے۔ اف آپ کی سوچ ہے۔ اب بیٹیاں جوان ہو رہی ہیں۔ اس سے پہلے کہ اس گندے معاشرے کی ہوا لگے اور باغی ہو جائیں میں ان کو واپس لانا چاہتا ہوں۔ وہاں بھی میں نے بہت خیال رکھا ہے ۔ بچوں کو اسلامی اسکول میں تعلیم دلائی ہے۔ بچیوں کو گھر سے باہر جانے کی کبھی اجازت نہیں دیتا۔

میں نے شروع ہی سے سختی رکھی کہ پڑوسیوں سے رہ و رسم محدود ہو۔ مسٹر ڈیوڈ میرا پڑوسی ہے اس کے ساتھ کبھی ہیلو ہائے ہو جاتی ہے لیکن ان کے گھر کا ماحول استغفرللہ ….توبہ ! توبہ! جو وہ لباس ہی پہنتے ہیں۔ ان کی لڑکیا ں بس کچھ نہ پوچھیں، ننگی ہی سمجھیں ۔ ان کا سوئمنگ پول ہمارے واش روم کے روشن دان سے نظر آتاہے ، ذرا اوپر چڑھ کر دیکھنا پڑتا ہے۔ دو کپڑے کی دھجیاں پہنے مرغابیاں بنی ہوتیں ہیں۔ اور ساتھ میں باپ اور بھائی بھی نہا رہے ہوتے ہیں ۔ توبہ …. توبہ ….

یار ویسے جمیل امریکہ میں سنا ہے بڑی عیاشی ہے ۔ تم نے تو وہاں زندگی گزاری ہے۔ مزے تو خوب کیے ہوں گے؟؟

ارے نصیر ، دنیا میں کوئی جگہ ہے تو امریکہ ہے یا پھر یورپ۔ لڑکیوں کے حسن کو بیان نہیں کر سکتا اوپر سے اپنے آپ کو فٹ اور سمارٹ رکھتیں ہیں۔

یہ جو گندی فلموں میں نظر آتیں ہیں کیسی ہوتی ہیں؟

واہ واہ جمیل واہ واہ اب تو عرصے سے نہیں دیکھیں لیکن یار حیران ہوتا ہوں کہ ساری ایک سے بڑھ کر ایک…. کمال ہے۔ بس تو سوچ نصیر تیرے بھائی نے سارے دل کے ارمان نکالے ہوئے ہیں۔ گرین کارڈ ایک گوری سے شادی کے بعد حاصل کیا تھا۔ گرین کارڈ کے حصول تک ذرا محتاط رہنا پڑتا ہے۔ لیکن گرین کارڈ کے بعد تو لائن لگا دی ۔ گوریوں کو ایسا ایسا چکمہ دیا۔ اوئے پاکستانیوں کی سوچ کو کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ گورے ابھی بچے ہیں ۔

ہاہاہا۔ میں نے سنا ہے کہ وہاں جوتے پالش کرنے کی کوئی مشین ہوتی ہے جس میں ایک جوتا پالش کروانے کے بعد دوسرے کے لیے مشین میں سکے ڈالنے پڑتے ہیں ۔اپنی طرف سے گورے نے بڑی چالاکی کی لیکن پاکستانی ایک مشین سے ایک جوتا پالش کرواتے ہیں اور دوسری مشین سے دوسرا ….

اوئے پاکستانی بڑی تیز قوم ہے ۔پاکستانیوں کو کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ ہاہاہاہا….

اور سناﺅ کاروبار کے ساتھ تم کوئی نوکری بھی تو کرتے تھے سرکاری ۔ میں نے سنا تھا امریکہ میں کہ نصیر افسر لگ گیا ہے۔

ہاں نوکری جاری ہے ۔ مزے کی بات بتاﺅں دو سال سے مجھے نہیں یاد کہ کوئی کام کیا ہو ۔ حاضری لگ جاتی ہے ۔ نوکری لگنے کے کچھ عرصہ بعد ہی اللہ کے فضل سے بڑی رقم آئی تھی میں نے سوچا نوکری میں کیا رکھا ہے، کاروبار کرنا چاہئے ۔ کاروبار سے کروڑوں کماتا ہوں اور دفتر حاضری کے لیے پانچ ہزار ایک جونئیر کو دے دیتا ہوں ، تا کہ پکی نوکری ہے لگی رہے ۔یار اس لحاظ سے پاکستان میں عیاشی ہے ۔

ہا ں یار یہ پاکستان میں ہی مزے ہیں ۔ امریکہ میں تو بڑا کام کرنا پڑتا ہے ۔ وہاں ذرا سی بد دیانتی پکڑی جائے تو بڑا نقصان ہو جاتا ہے ۔

ویسے جمیل مغرب نے جو دیانت اور نظم و ضبط نظر آتا ہے یہ انہوں نے کہاں سے لیا ہے ؟

ارے نصیر صاحب یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے ، سارا نظام اسلام سے لیا ہوا ہے ۔ آج ہم نے تعلیمات پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے تو پیچھے رہ گئے ہیں ۔

جمیل بھائی ہمارے ایک مولانا ہیں ان سے آپ کو ملواﺅ ںگا۔ ماشاءاللہ ، علم کے چشمے بہہ رہے ہیں اور کسی پر کوئی پابندی نہیں، ہر کوئی اپنے ظرف کے مطابق سیراب ہوتا ہے ۔ یورپ میں بھی تبلیغ کے لیے جاتے ہیں اور نہ جانے کتنے لوگ ان کے مقدس ہاتھوں سے مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں۔ چہرہ ایسا خوبصورت کہ نظر ہٹانے کو دل نہ کرے ۔ اور بات کریں تو اتنی محبت سے بات کرتے ہیں کہ بس انسان سنتا ہی رہے ۔

ابھی پچھلے جمعہ کو ہی انہوں نے بڑا کمال نکتہ پیش کیا، کہنے لگے ہم خواہ مخواہ مغرب اور جاپان کوریا سے مرعوب ہوتے ہیں۔ میں وہاں جاتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ ہر وقت کتنی محنت کر رہے ہیں میں سوچتا ہوں کہ آخر وہ اتنی محنت کس لیے کر رہے ہیں،

بس ایک دن اسی تفکر میں ڈوبا ہوا تھا کہ راہنمائی ہوگئی۔ اور راہنمائی کیا؟

بڑا باریک نکتہ ہے اہل ایمان ، بڑا ہی باریک نکتہ ہے…. بس یوں جانئے کہ کسی مقرب بندے کو وہ ذات سمجھانا چاہے تو سمجھا دیوے، غور و فکر سے یہ موتی ہاتھ آنے والا نہیں….

پھر جمیل بھائی انہوں نے نکتہ بیان کیا۔ نکتہ بیان کرنا تھا کہ پوری مسجد نعروں سے گونج اٹھی۔

نکتہ کیا تھا نصیر بھائی؟

نکتہ یہ تھا کہ مولانا صاحب فرمانے لگے کہ جب یورپ اور جاپان کوریا جیسے ممالک میں تبلیغ کے بعد واپس اپنے وطن لوٹتا ہوں تو یہاں گاڑیوں اور الیکٹرانکس کی ریل پیل دیکھتا ہوں۔ اور کبھی ذہن میں یہ سوچ نہیں آئی کہ محنت کوئی کر رہا اور اس کا ثمر رب کریم اپنی سب سے محبوب قوم کو بغیر محنت کیے پہنچا رہا ہے ۔ سوچیے کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا جیسے یہود و نصاریٰ کو مسلمانوں کی خدمت پر مامور کر دیا گیا ہو۔ کہ کم بختو ہر وقت تحقیق کرو، محنت کرو اور میری محبوب قوم کے لئے دنیا میں آسانیاں پیدا کرو۔ آخرت میں تو ان کے لیے آسانی ہے ہی ، دنیا میں بھی ان کے لیے آسائشیں پیدا کرو ۔ اس طرح ان کافروں کو دنیا میں بھی عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے اور آخرت میں تو ان کے لیے عذاب ہے ہی….

واہ واہ نصیر صاحب کیا کہنے ۔دماغ سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا۔ یہ تو بڑی زبردست بات ہے۔ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں بلکہ بچوں کو بھی ملوانا چاہتا ہوں جو کبھی کبھی اوٹ پٹانگ سوالات پوچھتے ہیں ۔

پس نوشت: پریشانی منافقت پر نہیں…. الجھن اس بات کی ہے کہ منافقت کے اس حجم کے ساتھ آپ زندہ کیسے ہیں؟ زندہ اور باقاعدہ خوش و خرم…. صاحب آپ کو متلی نہیں ہوتی؟

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments