کیا تم مقتدرہ سے زیادہ جانتے ہو
کچھ برس پہلے کا قصہ ہے جب میں ایک نام نہاد لبرل جامعہ میں پڑھایا کرتا تھا۔ نام نہاد اس لیے کہ وہاں جس کے منہ پر ریش مبارک نہیں تھی، اس کے پیٹ میں تھی، مبرا کوئی نہیں تھا لیکن ٹھپا لبرل جامعہ کا تھا۔
اسی جامعہ میں ایک اسلامک ریوائیول سوسائٹی نامی تنظیم اساتذہ اور طلبا دونوں کی محبوب تھی جو عجیب و غریب موضوعات پر سیمینار کرایا کرتی تھی۔ ایک روز ایسے ہی ایک سیمینار کی دعوت موصول ہوئی جو کیمپس پر موجود سب سے بدنام فیکلٹی ممبر کے بھائی کروا رہے تھے۔ یہ فیکلٹی ممبر بعد میں ایک طالبہ کے ساتھ سکینڈل کے باعث جامعہ سے فارغ ہوئے اور بعد میں ایک اور ملک سے پی ایچ ڈی کرنے چلے گئے جہاں سے ان کے سوشل میڈیا ہینڈلز پر روز کسی نائٹ کلب سے ان کی تصویریں اپلوڈ ہوا کرتی تھیں۔ میں کریٹکل تھنکنگ پڑھاتا تھا جس کے خلاف موصوف نے ایک اور فیکلٹی ممبر کے ساتھ مل کر باقاعدہ مہم چلائی کہ یہ مضمون ”اسلام“ مخالف ہے۔ خیر ان کی منافقت کے قصے پھر کبھی سہی، ابھی ان کے برادر کلاں کا ذکر ہے جو جنوں اور تعویذوں کے موضوع پر سیمینار کرنے یونیورسٹی تشریف لائے۔
حاضرین اس اہم ترین موضوع سے مستفید ہونے کو ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے۔ میں ایسی فضولیات سے دور رہتا تھا پر اس دن کچھ طلباء کے اصرار پر ہال میں چلا گیا کہ دیکھوں تو سہی کہنے کو ہے کیا۔ میرے طلباء اس پر مصر تھے کہ میں کچھ سوال بھی اٹھاؤں تاکہ ان جیسے شعبدہ بازوں کا پول کھلے اور سچ پوچھیے تو میرا بھی کچھ ایسا ہی ارادہ تھا۔
ہال میں داخل ہوا تو موصوف بتا رہے تھے کہ جنات عام طور پر کچرا کنڈیوں، پرانے درختوں اور جوہڑوں کے کنارے ٹھکانا کرتے ہیں اور جب گھروں میں داخل ہو جائیں تو عمومی طور پر ان کا ٹھکانہ باتھ رومز میں اور وہ بھی کموڈ کے پیچھے ہوتا ہے۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ جن گندگی پسند ہوتے ہیں۔ بڑی مشکل سے ہنسی ضبط کی اور ایک سنجیدہ چہرہ بنا کر بیٹھا رہا۔ یہ خرافات کوئی دس بارہ منٹ جاری رہیں پھر حضرت نے ایک وقفہ لیا جس میں ضمنی سوالات کی دعوت تھی۔ پچھلی صفوں میں ایک نوجوان کھڑا ہوا۔ پوچھا کہ جناب یہ جو باتیں آپ نے بتائی ہیں کیا ان کا کوئی ظاہری مشاہدہ، کوئی ویڈیو، کوئی تصویری ثبوت کہیں موجود ہے اور اگر نہیں تو ان کی تصدیق کیسے ہو۔
اس پر یہ برگر ڈسکو مولوی مسکرائے اور جواب دینے سے پہلے مخرج سے ق اور خ پر توجہ رکھتے ہوئے عربی کی دو آیات پڑھیں جو جنوں سے متعلق تھیں۔ اس کے بعد گویا ہوئے
”کیا آپ مسلمان ہیں؟“
اب چار پانسو لوگوں کی نگاہیں اس بچے پر مرکوز ہیں، سب اس کے جواب کے منتظر۔ شومئی قسمت کہ وہ ملک کے دو فی صد لوگوں میں سے نہ تھا اس لیے وہی جواب آیا جو آنا چاہیے تھا
”جی سر، الحمد للّٰہ“
اس کے بعد اگلا پانسہ پھینکا گیا
”پھر تو آپ اللہ پر ایمان رکھتے ہوں گے“
”جی سر“ ۔ اب اس کے سوا کیا جواب ممکن تھا
”اور رسول اللہ پر بھی“
”جی سر“ بچے نے بے چارگی سے کہا
” قرآن میں شک تو نہیں؟“
”نہیں سر“
”حدیث کا انکار تو نہیں کرتے“
اب بچہ کیا کہتا، ایک دفعہ پھر ”نہیں سر“
اب برگر مولوی صاحب نے آخری پینترا کھیلا۔
”یہ جو آیت میں نے پڑھی، یہ قرآن کی ہے، اگر اس میں جنوں کا ذکر ہے تو جن ہیں، اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں۔ میں ابھی دس حدیثیں بھی سنا دوں گا جو جنوں سے متعلق ہیں۔ یہ جن اس حد تک طاقتور ہیں کہ ان کے ہاتھ صحابہ تک شہید ہوئے۔ یہ کہاں رہتے ہیں، کیا کھاتے ہیں، ان کا چلن کیسا ہے جیسی ساری باتیں ان کتابوں میں صراحت سے لکھی ہوئی ہیں جن پر شک کرنا ایمان کھونے کے برابر ہے۔ پھر کتنے ہی ولی، صاحب نظر اور ثقہ لوگ ہیں جن کا جنوں سے معاملہ رہا ہے۔ اب یہ ایک پوشیدہ مخلوق ہے تو ہر ایک کی ان تک پہنچ نہیں ہے۔ ہمارے پاس ان ولیوں کو جھٹلانے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے۔ آپ سائنس دانوں کی باتوں پر آنکھیں بند کر کے ایمان لے آتے ہیں لیکن قرآن، حدیث اور ولیوں پر شک کرتے ہیں، سوچیے یہ کیسا طرز عمل ہے۔ اگر آپ کا ایمان مضبوط ہے، خدا پر یقین ہے اور قرآن کو اللہ کا سچا کلام مانتے ہیں تو جنوں پر یقین بھی لازمی ہے۔ بات سمجھ آئی۔ مسلمان کے لیے سب سے پہلے کیا ہے، ایمان“
بچے کو سمجھ آئی یا نہیں، یہ تو کہا نہیں جا سکتا لیکن ہال میں بجنے والی تالیوں کے شور میں اسے سر ہلا کر بیٹھتے ہی بنی۔
یہ احوال دیکھ کر میں نے اپنے سوال لپیٹ کر اپنے کھیسے میں رکھے اور ہال سے باہر نکل آیا۔
اسی طرح کا ایک اور مکالمہ کچھ برس بعد اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی میں درپیش ہوا جہاں ایک طرف میں اور فرنود عالم تھے اور دوسری طرف جماعت اسلامی کے شاہ نواز فاروقی اور زبیر صفدر۔ اس کی مکمل وڈیو فیس بک کے مختلف پیجز پر موجود ہے۔ مکالمہ گو سیکولر ازم اور مذہب کے موضوع پر تھا لیکن ہمارے جماعت اسلامی کے دوستوں نے اسے جلد ہی حق اور باطل کی جنگ میں بدل دیا۔ شاہ نواز فاروقی کا آغاز ہی سیکولر ازم کو اسلام دشمن اور خدا دشمن قرار دینا تھا۔ ظاہر ہے اس کے بعد مکالمہ خاک ہونا تھا۔
مکالمہ بحث میں ڈھلا تو زبیر صاحب اور شاہ نواز صاحب نے بھی ایمانیات کا سہارا لیا۔ آیات اور احادیث کے سہارے موقف آگے بڑھایا کہ ان کے نظریے کی مخالفت گویا خدا اور رسول کی مخالفت ثابت ہو۔ ان کے اس طرز عمل کی نشان دہی اسی سٹیج پر اس حد تک ہماری طرف سے کر دی گئی جس پر کوئی مقدمہ قائم نہ ہو سکتا ہو۔ گرچہ اس مکالمے کے اگلے دن ہی زبیر صاحب جو کسی زمانے میں جمعیت کے ناظم تھے، نے اپنی فیس بک وال پر میرے پڑھائے جانے والے کورسز سے منسوب کر کے مجھ پر ایسے بے سروپا الزامات عائد کیے کہ اگر وہ ایک فی صد بھی سچ ہوتے تو آج خادم کسی زندان میں ہوتا۔ جھوٹ اور سچ کے معاملے میں ان کا ایمان غالباً اس وقت سالانہ چھٹیوں پر تھا۔
ان دونوں واقعات کو سنانے کا ایک خاص مقصد ہے۔ حال ہی میں ایسی جو بھی بحث کہیں چھڑی جس میں کچھ لوگوں کے اوہام، عقائد یا دینی سمجھ بوجھ پر سوال کھڑے ہوئے، خاص طور پر ہمارے معاشرے میں عورتوں پر عائد پابندیوں کے حوالے سے، وہاں پہلا ہتھیار یہی استعمال ہوا کہ کیا ہم جیسے معترضین ان کے خدا سے زیادہ جانتے ہیں۔
منطق کا کوئی ابتدائی سبق بھی ہو تو اس میں منطقی مغالطے یا لوجیکل فیلاسیز ضرور شامل ہوتی ہیں تاکہ بتایا جا سکے کہ کن مغالطوں پر مبنی بات اپنا منطقی وزن کھو دیتی ہے۔ ان میں ایک مشہور مغالطہ ”اپیل ٹو اتھارٹی“ کہلاتا ہے۔ اپیل ٹو اتھارٹی کا کوئی مستند ترجمہ تو دست یاب نہیں لیکن میرے خیال میں ہم اسے ”مقتدرہ کی دہائی“ کہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ اس منطقی مغالطے کی دو مثالیں میں نے پہلے ہی آپ کے سامنے رکھ دی ہیں۔
مزید سمجھنا چاہیں تو اس مغالطے کے تحت بات کرنے والا کسی بات کی حقانیت پر محض اس لیے اصرار کرتا ہے کہ اس کی دانست میں یہ بات کسی ایک شخص یا مقتدرہ کی جانب سے ہے جس کے کہے میں غلطی کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔ اکثر و بیشتر مذہبی قانون سازی اسی منطقی مغالطے کی دین ہوتی ہے۔ یہ منطق کی دنیا میں غلط اس لیے ہے کہ کسی بات کو الہام کا درجہ دینے کے لیے کوئی سائنٹیفک شہادت میسر نہیں ہے۔ یہ محض عقیدے کی بات ہے اور دنیا میں چار ہزار عقائد کے الگ الگ پشتاروں کو دلیل کے ترازو میں رکھنا بے سود ہے اور رکھ بھی دیا جائے تو کسی نیوٹرل سٹیج پر ان کی اہمیت صفر ہو گی۔ دلیل یا حقیقت کو ثابت کرنے کے وہی پیمانے استعمال ہو سکتے ہیں جو آفاقی ہوں اور شعور انسانی جنہیں سائنسی، سماجی، عمرانی یا معاشی پیمانوں پر پرکھنے کے قابل ہو۔
مثال کے طور پر آپ صرف ایک جنس کے انسانی چہرے کے پردے کے لیے ایک درجن دلائل رکھ سکتے ہیں اور ان پر بحث بھی ممکن ہے لیکن جیسے ہی آپ یہ کہیں گے کہ یہ کسی مافوق الفطرت قوت کا حکم ہے یا اسے اس لیے مانا جائے کہ یہ کسی مذہبی پیشوا کا فرمان ہے یا پھر کسی سیاسی رہ نما کا یا کسی فلسفی کا یا کسی ماہر عمرانیات کا تو آپ کا مقدمہ منطق کی کسوٹی پر وہیں فوت ہو جائے گا۔ کیونکہ آپ کی دلیل اب ایک مقتدرہ کی دہائی پر منحصر ہے اور اس سے صرف یہ ثابت ہو رہا ہے کہ آپ کے پاس اس کو ثابت کرنے کے لیے کوئی معروضی سہارا نہیں بچا۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ایک عظیم تر شعور کے کسی بھی فرمان کی حکمت بہت واضح ہونی چاہیے اور دلیل سے بھرپور، اس قدر کہ اس کے پیش کرنے والوں کو زبردستی کی اپیل ٹو اتھارٹی کا سہارا نہ لینا پڑے۔ اگر وہ یہ سہارا لے رہے ہیں تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ یہ لوگ خود اس معاملے میں مغالطے کا شکار ہیں۔ یا تو وہ اس کی تشریح غلط کر رہے ہیں، یا اس کے اطلاق میں کسی کجی کا شکار ہیں یا پھر وہ سرے سے اس کا سیاق و سباق ہی نہیں سمجھتے۔ ایسے مواقع پر یہ طعنہ دینا کہ کیا دوسرا کسی اتھارٹی سے زیادہ جانتا ہے، اپنی اصل میں یہ دعوی ہے کہ طعنہ دینے والے خود کو عقل کل سمجھ رہے ہیں اور یہ بھی کہ وہ اپنی دانست میں اس مقتدرہ سے زیادہ جانتے ہیں۔
ایسے معاشرے جہاں جہالت کا دور دورہ ہو، جبر روز کی کرنسی ہو، فاشزم ہو، انسانی اقدار کو پاؤں تلے روندنا معمول ہو، جمہوری قبا میں آمریت جلوہ گر ہو، گروہی تعصب اپنے عروج پر ہو، روشن خیالی ایک گالی ہو۔ ایسے تمام معاشرے منطقی مغالطوں کے سر پر آئینی تشکیل کرتے ہیں۔ ان کے قوانین انسانوں کے تحفظ کے لیے نہیں، مرتے ہوئے عقائد کی رکھوالی کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ان کا بیانیہ ترقی معکوس کا نقیب ہوتا ہے۔ اور ایسے معاشروں کے منطقی مغالطوں میں مقتدرہ کی دہائی کا مغالطہ سب سے زیادہ مستعمل ہوتا ہے۔
آج کی جدید دنیا میں، معلومات کے سیلاب ہیں، انسانی ترقی کے عروج پر۔ ایسے معاشروں کا ہونا کیسی مایوسی ہے۔ کیسی پستی ہے۔ کوئی سمجھائے تو سمجھا نہ سکے
- ست رنگی جھیل کے کنارے سے - 03/01/2024
- میں ڈوب رہا ہوں، ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں - 14/08/2023
- کیا تم مقتدرہ سے زیادہ جانتے ہو - 04/07/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).