ہم آپ سے سڑکوں پر برہنہ گھومنے کی آزادی نہیں مانگ رہے: ڈاکٹر رامش فاطمہ سے مکالمہ


انٹرویو: اقبال خورشید
۔ ۔
سرخیاں :
کیا ”می ٹو“ اور ”فیمینزم“ پر تنقید کرنے والوں کو ان تحریکوں کا اوریجن پتا ہے؟
جذباتی وابستگی انسانوں سے ہو یا شہروں سے، وہ خراج مانگتی ہیں
ایمرجنسی میں ڈیوٹی کے بعد لگا، جیسے لفظ پر سے اعتبار ہی اٹھ گیا ہو
کیا ہمیں عورت قبول ہے؟

وہ عورت، جو پراعتماد ہے، ہنس سکتی ہے، جو چاہے لکھ سکتی ہے، جہاں چاہے جا سکتی ہے۔ عورت، جو سوال اٹھا سکتی ہے؟

یہی سوال میں رامش فاطمہ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ رامش، الھڑ مٹیار، ایک آزاد روح؛ جسے دیکھ کر پہلا خیال آتا ہے کہ اسے کسی فلم یا ڈرامے کی ہیروئن ہونا چاہیے تھا، یا کم از کم کسی تھیٹر گروپ کی سرگرم رکن۔ اور دوسرا خیال یہ کہ اگر اسے خط لکھا جائے، تو کیسے کیسے رومانی الفاظ کا چناؤ کیا جائے ؛ مگر ایسے تمام خیالات کی تب موت واقع ہو جاتی ہے، جب وہ پلٹ کر اپنے سوالات کی پٹاری کھولتی ہے۔

ڈاکٹر رامش فاطمہ کے پاس کئی سوال ہیں، جو شاید اس سماج کی ہر عورت کے ذہن میں سرسراتے ہیں، مگر انھیں آواز کا روپ رامش فاطمہ ہی کو دینا آیا۔ یہ سوال اس نے اپنے پدر سری معاشرے کے سامنے رکھے۔ مگر محض سوالات پر اکتفا نہیں کیا، ان کے جواب تلاش کرنے کی سعی بھی کی۔

رامش کا ایک حوالہ تو وہ بلاگ اور سوشل میڈیا پوسٹ ہیں، جن میں کہانیاں بھی پوشیدہ ہیں، اور جبر کی شکار عورت کا احتجاج بھی۔ یہاں وہ ایک سوشل ایکٹوسٹ کے طور پر نظر آتی ہیں۔ جس نے ایک واضح راہ چنی۔ دوسرا حوالہ فن و ادب سے ان کا لگاؤ، اور تیسرا حوالہ ملتان۔ بہتوں کے لیے زری اشرف کے خاندان کی سر گرمیاں ملتان کا بنیادی حوالہ ہیں، اور زری اشرف کے زیر تربیت رامش اس خاندان کا جگمگاتا تارہ۔

گزشتہ دنوں ہم نے رامش کے سامنے چند سوالات رکھے۔ یہ سمجھنے کے لیے کہ وہ کیا کچھ سوچتی ہیں۔ جوابات آپ سے شیئر کیے جا رہے ہیں۔

اقبال: پاکستانی خواتین کو درپیش اصل مسئلہ کیا ہے، بس اسٹاپ پر نان اسٹاپ گھورتے لوگ یا شادی کرانے والی پھوپھی اور خالائیں؟ یا پھر یہ مسائل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے؟

رامش: مسائل اگر دو چار ہوں، تو ان کے بیچ چننا خاصا آسان ہو جاتا ہے۔ البتہ ہمارے جیسے معاشرے میں یہ فیصلہ کرنا بہ ہرحال مشکل ہے کہ زیادہ بڑا مسئلہ کون سا ہے۔ اور میری رائے یہی ہے کہ وہ کوئی گاؤں کی بچی ہو یا شہر کی یونیورسٹی کی طالبہ، ان سب کے مسائل یک ساں اہم ہوتے ہیں۔ میل ایلائیز وغیرہ بننے کے چکر میں لوگ جو ہمیں سمجھانے آ جاتے ہیں کہ دیکھیں یہ ہیں اصل مسائل، آپ ان پر فوکس کریں تو واللہ اقبال، آپ کو دوست سمجھتی ہوں، سو بتا رہی ہوں کہ سب سے زیادہ دو نمبری اسی بات سے شروع ہوتی ہے۔

اسکول نہ جا سکنا بھی مسئلہ ہے، تعلیمی ادارے میں ہراساں کیا جانا بھی مسئلہ ہے، سڑک، گلی، محلے میں چھیڑ چھاڑ بھی مسئلہ ہے اور گھروں میں محفوظ نہ ہونا بھی مسئلہ ہے۔ سائنس کا سہارا لے کر جنس کا تعین کروانا اور اس بنیاد پر پیدائش سے پہلے جینے کا حق چھین لینا بھی اتنا ہی بڑا اور اہم مسئلہ ہے، جتنا آٹھویں، دسویں میں شادی کرا دینا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم کسی ایک نفس کو اہمیت دیں اور دیگر مسائل کو نظرانداز کر دیں کہ دیکھو شکر کرو، ”یو آر پریویلجڈ اینف“ پڑھ تو سکتی، وہ پھر کیا ہو گیا، اگر سپروائزر فری ہونا چاہ رہا ہے تو۔

اقبال: عام مشاہدہ ہے کہ ”می ٹو“ کی آوازیں اٹھتے ہی معاشرے کا دفاعی میکینزم متحرک ہوجاتا ہے۔ پڑھے لکھے لوگ بھی اس پر معترض دکھائی دیتے ہیں، معاملہ کیا ہے؟

رامش: یہاں ایک بات، جو اکثر اس بحث کے ساتھ ہمارے اچھے بھلے بہ ظاہر معقول دوست جوڑ دیتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اب تو جی می ٹو سے ڈر لگتا ہے۔ محبت بھی مشکل ہو گئی ہے، اس لیے میں کسی کے ان باکس میں نہیں جاتا۔ یار، ایسی کیا نامعقول بات کرنی ہے آپ نے کسی سے کہ اسے می ٹو کہنا پڑے؟ اور کیوں کرنی ہے ایسی بات؟ اگر آپ کسی کو پسند بھی کرتے ہیں، تو بات شروع کرنے کا کوئی طریقہ ہوتا ہے، تعلق کو کسی نہج پر لے جا کر ہی دو لوگ آپس میں کمفرٹیبل ہو سکتے ہیں، نہ کہ وہ چاہیں تو ود میوچل کانسینٹ جپھیاں پپیاں نیوڈز؛ بھلے جو مرضی بات کریں۔ کہتے ہیں : انٹیلیجنٹ ہونے کا مراد یہ جاننا ہے کہ ہمیں رکنا کہاں ہے۔

اگر فہم و فراست یہی نہیں سکھا سکی، بات کرنے کا طریقہ سلیقہ نہیں، تو پھر می ٹو کا مذاق کیوں اڑانا؟ میں نے ابھی پچھلے دنوں اس کیمپین کا بیک گراؤنڈ پڑھا ہے، ہمارے لوگ پڑھنا ہی نہیں چاہتے۔ آپ پوچھ کر دیکھ لیں، حقوق نسواں، می ٹو، فیمینزم پر تنقید کرنے والوں میں سے کتنے لوگوں نے پڑھا ہے، کھوج لگائی یا انھیں خبر ہے کہ ”می ٹو“ یا ”فیمنزم“ جیسی تحریکوں کا اوریجن کیا ہے؟ پڑھے بغیر جانے بغیر، سمجھے بغیر انہیں تکلیف شروع ہو جاتی ہے۔ جہاں کہیں آزادی، لڑکی، لباس، تعلیم، اظہار یا پیار کا نام آ جائے، وہاں ان کو لگتا ہے اب ہم کپڑے اتار کر ملتان سے کراچی تک برہنہ پھرنا چاہتے ہیں۔ کوئی ذرا زیادہ پڑھا لکھا لگنا چاہے، تو کہہ دے گا کہ دیکھیں تھوڑے دھیمے لہجے میں مناسب انداز میں بات کریں، ہمارا معاشرہ ابھی ریڈی نہیں ہے۔

اقبال: چلیں، تخیل کی دنیا میں چلتے ہیں۔ آگر ”نائیک“ فلم کی طرح ایک دن کے لیے وزیر اعظم بن جائیں، تو پہلا حکم کیا صادر فرمائیں گی؟

رامش: مزے دار بات یہ ہے اقبال کہ وہ ایک دن کا حکم کیا ہو گا، اس سوال کا جواب لینہ حاشر جانتی ہیں۔ آپ تو میرے گھر آئے تھے ناں اپنی بیگم کے ساتھ۔ میرے گھر سے جلال مسجد تک کا فاصلہ دو منٹ کا ہے۔ بچپن سے اب تک میں نے ان ہی رستوں پر عمر گزاری ہے۔ مجھے ایک دن چاہیے جب میں ان سڑکوں پر چلوں، ان راہوں پر چلوں اور ان سب واقعات کے خوف سے آزاد ہوں۔ یہ ڈر نہ ہو کہ کوئی پشت پر ہاتھ پھیرے گا۔ یہ خوف نہ ہو کہ چادر میں لپٹی بھری دوپہر میں اسکول سے واپس آتی بچی کی چھاتی دبوچے گا۔

لڑکی نے سرخی لگائی ہو، گلے میں دوپٹہ ڈالا ہو بال کھلے ہوں، تو اس سے ریٹ پوچھے گا۔ کالے رنگ کے روکو یا ریوو پاس روک کر ساتھ بیٹھنے کو کہے گا۔ اور اتنا خوف دلائے گا کہ آپ بھاگ کر گھر جانے پر مجبور ہو جائیں۔ ہم سڑکوں پر برہنہ گھومنے کی آزادی نہیں مانگ رہے۔ بس، ایک دن پورے لباس میں، پورا دن ان سڑکوں پر پھرنا ہے، جس دن کوئی مرد یہ سب نہ کر رہا ہو۔

اقبال: آپ کے ہر جواب کے پس منظر میں ایک کہانی ہے۔ ڈاکٹر شیر شاہ سید نے اپنے تجربات کو کہانیوں میں ڈھالا، ڈاکٹر رامش کی کہانیاں ہم تک کب پہنچیں گی؟

رامش: جب ہم ڈاکٹر شیر شاہ جتنے قابل ہو جائیں گے، تو باقی کہانیاں بھی شاید لکھ ہی ڈالیں، ہو سکتا ہے، اس سے پہلے ہی شرم آ جائے۔ کتنی بار وجاہت مسعود نے کہا ہے، اگر کچھ شرم باقی ہوتی تو اب تک لکھ رہی ہوتی۔

اقبال: والدہ، زری اشرف ایک معالج، ایک سماجی کارکن، انھوں نے زندگی پر کتنے گہرے اثرات مرتب کیے؟ انھوں نے آپ کو بگاڑا، یا آپ نے انھیں؟

رامش: یہ ایک دل چسپ سوال ہے، اس کا کریڈٹ صرف مجھے نہیں جاتا، اور صرف ان کو بھی نہیں جاتا۔ شی واز ریسیپٹو۔ تھینک فلی۔ گاؤں سے یہاں آئیں۔ پڑھنا چاہتی تھیں، محنتی تھیں، یہاں کے ماحول میں ڈھل گئیں۔ جیسے ان کے ساس سسر نے رکھا، میرے لیے تو امی ابو وہی تھے۔ بہ طور ماں بیٹی ہماری دوستی اس کے بعد ہوئی۔ میرے اور ان کے چیلنجز میں فرق تھا۔ مجھے کتاب کی لت لگی، تو پھر ایک کے بعد ایک نئی سوچ آتی گئی۔ ہم آپس میں الجھے ہزار باتوں پر اختلاف رہا، کئی بار میں جیتی کبھی خاموش رہی، پر میرے لئے اہم یہی تھا کہ علی، لائبہ اور عمر کی زندگی ان کی تعلیم ان کی لائف چوائسز کے ساتھ ساتھ میری اماں کی زندگی بہتر ہو۔ آج وہ مجھ سے کہیں زیادہ سوشل میڈیا پر ایکٹو ہیں، ویسے اکاؤنٹ ان کا میں نے اس لیے بنوایا تھا کہ وہ ہم سے الجھتی رہتی تھیں کہ ہر وقت موبائل میں منہ دے کر کیوں بیٹھے رہتے ہو؟

روٹری کلب جوائن کرنے پر جب کسی کو اعتراض تھا، تو انہوں نے مجھے بتایا، تب میں ہاسٹل میں تھی، آئی سمپلی سیڈ، آپ کرنا چاہتی ہو؟ جانا چاہتی ہو؟ انہوں نے کہا ہاں۔ تو میں نے کہا: جاؤ پھر۔ دنیا سے کس بات کی اپروول لینی ہے؟ دے لی جو قربانی دینی تھی، کافی ہے۔ جیو اب اپنی زندگی۔ اینڈ آئی ایم سٹل پراؤڈ آف آل سچ تھنگز۔ وہ چاہتی تھیں لائبہ ڈاکٹر بنے۔ بھئی جب لائبہ ہی یہ نہیں چاہتی تو کیوں بنے۔ اس روز ماس کمیونیکیشن کی فیس انہوں نے رو کر جمع کرائی تھی۔

میرے بھائی نے مجھے فون پر کہا، میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔ آئی سیڈ، جا نہ کریں۔ آج لائبہ خوش ہے۔ مجھے کسی معافی کی ضرورت ہی نہیں۔ جس بھائی نے یہ کہا وہ کیمسٹری نہیں پڑھنا چاہتا تھا، یہ ضد بھی لڑ جھگڑ کر چھڑوائی، آج فری لانسنگ میں خوش ہے۔ ساتھی کا مطلب صرف شوہر یا بیوی تو نہیں ہوتے، کیا وہ ساتھی نہیں ہو سکتا جو ہر مشکل وقت میں ساتھ ہوتا ہو؟ مشکل فیصلہ کر سکتا ہو آپ کے لیے؟ مجھے واقعی ایک ایسی ہی ماں چاہیے تھی، جو روایتی سے غیر روایتی بن سکتی، جس کے رونے پر مجھے تکلیف ہوتی، پر میں اس کو اپنا آپ کسی پر مزید نہیں قربان کرنے دیتی۔

جو ناچتی ہے گاتی ہے، قہقہہ لگاتی ہے، اب تو کبھی شادی والی بات پر بھی دکھی نہیں ہوتی۔ ہم نے بہت محنت اور محبت سے اس گھر کو بنایا ہے، گھر جس کا تعلق چار دیواری سے نہیں، ان انسانوں سے ہے جو ایک دوسرے کو برابر کا انسان سمجھ رہے ہیں، اور ہر ممکن سپیس دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، اور اب کسی ماں باپ بہن بھائی نما روایتی تعلق کے الجھاؤ میں خراب نہیں کرنا چاہتے اس سب کو۔

آج ہم سب یہ سمجھتے ہیں کہ بچہ جو پڑھنا چاہے، جو فیلڈ پسند کرنا چاہے، اس کی مرضی ہے۔ ہم گائیڈنس دے سکتے ہیں، خواہش کا اظہار کر سکتے ہیں، ساتھ دے سکتے ہیں پر ڈکٹیٹ نہیں کرنا چاہیے۔ ہماری سہیلیاں ہمارے گھر آتی ہیں، یہ ان کے لیے اور ہمارے لیے ایک سیف سپیس بن گئی ہے۔ یہ ہم سب بہن بھائیوں اور ہمارے والدین کی کامیابی ہے کہ معاشی مشکلات کے ایک لمبے دور کے بعد ہم معاشی، شعوری اور نفسیاتی ہر حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ یہ جڑت ضروری ہوتی ہے، گھر ایک ایسی جگہ کا نام ہے، جہاں آپ سب صرف سروائیو نہ کریں، بلکہ گرو بھی کریں، خود مختار ہوں، آزاد ہوں، اور شعوری طور پر ایک دوسرے کا انتخاب کریں۔

اقبال: ماضی میں تو آپ نے تواتر سے کالمز لکھے، اب وقفہ آ گیا ہے۔ کیا یہ پیشہ ورانہ ذمے داریاں ہیں، یا بدلتا مزاج؟

رامش: اصل میں کچھ عرصہ میں خود ایمرجنسی میں ڈیوٹی پر تھی، پھر بعد میں واقعی یوں لگتا تھا، جیسے لفظ پر سے، لکھنے پڑھنے والوں سے اعتبار اٹھ گیا ہو، عجیب بے یقینی اور بے اعتباری کی کیفیت تھی۔ پر اب صورت حال بہتر ہو رہی ہے۔ بھرتی کے کالمز نہ پہلے لکھے نہ اب لکھنے ہیں۔ تب بھی جو دل میں تھا، وہ لکھا، اب بھی وہی لکھنا ہے۔

اقبال: کوئی ایسی کتاب، جو دل کو بھائی؟ اوروں کو پڑھنے کا مشورہ دیا؟ یہ بھی فرمائیں کہ فکشن نگار کون پسند ہے؟

رامش: آج کل تو ریت سمادھی پڑھ رہی ہوں۔ پچھلے برس چاند کو گل کریں تو ہم جانیں پڑھی تھی۔ اس سے پہلے غلام باغ۔ ناول ہی ہوں گے، آپ کا ہو یا کسی اور کا۔ ناول کے معاملے میں آصف فرخی ہوں میں۔ دوسرے نمبر پر خاکے پسند ہیں۔ وہ بھی جیسے منٹو نے چراغ حسن حسرت کا لکھا ہو۔

اقبال: فیس بک مخلص دوست زیادہ دیا، یا اکتا دینے والے عشاق؟

رامش:اجی عشاق کا کیا ہے، ڈھونڈے بغیر ہزار مل جائیں، پر مجھے خاصی سہولت رہی، اچھے بھلے لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں، تو خاص بکواس نہیں کرتے۔ ویسے بھی عاشق تو وہ میسی ہے سالا، جس نے اتنے برس لگا کر اپنی محبوبہ تک رسائی حاصل کی اور تقدیر کو اپنے حق میں کر لیا۔ پوری دنیا کے سامنے چوما اور اپنایا۔ ہمارے عشاق سے وٹس ایپیاں فیس بکیاں کرا لو، ورک آؤٹ ریاضت انتظار محنت لگن کچھ نہیں ہونا ان سے۔

باقی رہا میرا اپنا دل، تو ہاں اس کم بخت نے بھی یہیں لگنا تھا، پھر یہیں سے اٹھنا تھا۔ رہی بات دوستوں کی، تو دوست مجھے واقعی بہت اچھے ملے۔ کل کو رہوں یا نا رہوں، یہی دس بارہ پندرہ لوگ ہیں، جن میں بھرم قائم ہے۔

اقبال: فلمز کا کیا معاملہ ہے، کون سا ہدایت کار پسند، اداکار کون سا اچھا لگا؟

رامش: دیکھیں شاہ رخ خان تو میرا پیار ہے، عشق ہے، بھلے اس کم بخت نے رومینس کا بار اتنا ہائی کر دیا کہ ہر کوئی اس تک پہنچ نہ سکے، پھر بھی کیا ہو سکتا ہے اب۔ باقی کوئی شدید فیورٹ والا سین اب نہیں رہا۔ نئے لونڈے لپاڑے تو بالکل ہی نہیں پسند۔ پرانے تو بہت سے پسند ہیں۔ رہی بات ہدایت کار یا کہانی کار، تو پچھلے کچھ عرصے میں تامل فلمیں بہت دیکھی ہیں میں نے۔ ان کا لیول ہی الگ ہے۔

اقبال: ڈاکٹری کو پیشہ مسیحائی کہا جاتا ہے، اسی تناظر میں ڈاکٹرز کا احتجاج اور ہڑتالوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟

رامش: اصل میں صحت کا بجٹ سیدھا ڈاکٹر کے ہاتھ میں نہیں ہوتا، اس تک تو تن خواہ بھی دیر سے پہنچتی ہے۔ بعض اوقات ہڑتال ہوتی بھی ذاتی مقاصد سے زیادہ ایسے مسائل کے لیے ہے۔ اب بھی ڈاکٹرز کے ورکنگ آورز مناسب نہیں ہیں، اور ٹریننگ اسٹرکچر انتہائی بے ہودہ ہے۔ پاوے ہوں تو مزے میں ہیں، ورنہ ذلیل ہو جائیں۔ ایمرجنسی سروسز البتہ کبھی بند نہیں ہونی چاہئیں، اور اکثر و بیش تر ہڑتال ہوتی بھی او پی ڈی سروسز کی ہے۔ ڈاکٹرز اصل میں چہرہ ہیں ہیلتھ سسٹم کا، گو انہیں بلیم کرنا سب سے آسان ہوتا ہے، ورنہ دواؤں کی عدم دست یابی سے لے کر بیڈز نہ ہونے تک یا ایک بیڈ پر تین مریض ہونے کے ذمہ داروں کا تعین کریں، تو یہ کچھ اور لوگ ہوتے ہیں جو کبھی کسی کتاب میں برے نہیں بنتے۔

اقبال: شہر ملتان رامش فاطمہ کی زندگی میں کیا معنی رکھتا ہے، کیا وجود کا ایک حصہ ہے؟

رامش: ملتان کا کیا ہے، کہیں اور بھی عمر گزاری ہوتی تو انسان اتنی اپنائیت تو محسوس کر ہی سکتا ہے، جتنی کسی شہر سے وابستگی کے نام پر ہو۔ ملتان کی گرمیوں کی عاشق میں کبھی بھی نہیں تھی، پر ایبٹ آباد میں گزرے سالوں نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ اگر برینڈز آنا، لڑکیوں کا پڑھ جانا شہر کے بدلنے کا ثبوت ہے، تو بدل رہا ہے پر اب یہ شہر کراچی جتنا تو نہیں، البتہ کراچی کی طرح پھیلے جا رہا ہے۔ پہلے آپ پندرہ منٹ میں شہر کے ایک سے دورے کونے تک جا سکتے تھے اب پندرہ منٹ ایک یوٹرن پر بھی لگ سکتے ہیں۔ ٹریفک اور سڑکوں کی دگرگوں صورت حال ہے، جہاں درخت تھے، وہاں تاحد نگاہ کنکریٹ کا جنگل ہے۔ کوئی خاص ٹاؤن پلاننگ یا اربن پلاننگ جیسی چیز نظر نہیں آتی۔ کچھ سڑکیں اور علاقے اس حد تک خراب ہیں کہ آپ سہولت سے روز پیدل چلیں، تو روز کوئی نیا چھوٹا موٹا واقعہ سنانے کو ہو سکتا ہے۔

سماجی شعور کے حوالے سے شاید کچھ بہتری ممکن ہو سکے، پر اس میں ابھی کافی دیر ہے۔ میرا آنا جانا لاہور اور واہ کے اسپتال میں رہا، ورکنگ انوائرمنٹ سے لے کر ہر چیز تک میں بہت فرق ہے۔ لوگوں نے آبائی زمینیں بیچ کر ایزی منی کا راستہ اپنایا اس شہر میں۔ آپ کو ہر بڑی نئی سے نئی گاڑی روز نظر آئے گی پر ان میں سے کچھ جب راتوں میں اپنی فیملیز کے بغیر نکلتے ہیں، تو راہ چلتوں کو ستانے کا لیول ہی الگ ہوتا ہے۔ کیا ہر بڑی گاڑی کا ہونا ترقی ناپنے کا پیمانہ ہونا چاہیے؟

یا چائلڈ لیبر کا نہ ہونا اکثریت بچوں کا تعلیم حاصل کرنا یا ہنر مند ہونا؟ اگر اول الذکر بات دیکھیں تو لگتا ہے کہ ہر طرف مزے ہیں۔ مؤخرالذکر پر آئیں تو اتنی اچھی صورت حال نہیں ہے۔ ایسے میں اپنوں کا ہونا ہی سب سے مضبوط حوالہ ہو سکتا ہے کہ اپنے ماں باپ، ایک مکان جسے اپنوں کی وجہ سے گھر کہیں، تو ہاں ریلیٹ کر سکتی ہوں۔ باقی مجھے لگتا ہے اگر آپ بہتر معاشی وسائل کی خاطر موو کرنا چاہیں تو بالکل کرنا چاہیے۔ ہاں، اس کی ایک قیمت ضرور ہوتی ہے، ان لوگوں سے دور ہونا جن کو آپ کی ضرورت ہو تو شاید آپ فوری پہنچ نا سکیں۔ ویسے آپس کی بات ہے جذباتی وابستگی انسانوں سے ہوں یا شہروں سے، وہ کسی نہ کسی صورت خراج بھی مانگتی ہیں۔ انسان ہر جذباتی وابستگی کی قیمت ادا کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).