انتخابات، احتساب اور معیشت


ایک دفعہ پھر آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ انتخابات سے پہلے احتساب ہونا چاہیے اور معیشت کو ٹھیک کرنا چاہیے۔ جب کہ صدر مملکت کی طرف سے ایک خط جاری ہوا ہے جس میں انتخابات کی تاریخ دینے کی بجائے الیکشن کمیشن کو ایک ممکنہ تاریخ کی تجویز دی گئی ہے اور ساتھ سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا مشورہ دے دیا گیا ہے مگر اس بن مانگے اور ناپسندیدہ مشوروں سے معاملات مزید الجھنے کا امکان کھڑا ہو گیا ہے اگرچہ پاکستان تحریک انصاف ایسے ظاہر کر رہی ہے کہ صدر مملکت نے انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے مگر صدر عارف علوی کو نہ صرف اپنی پارٹی کے پریشر کا سامنا ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں اپنے لیڈر کے ساتھ کھڑے ہوں یا کم ازکم ان کی مشکلات کم کرنے کے لئے اپنا کوئی کردار ادا کریں بلکہ ان کو اپنی عہد صدارت کے پانچ سال پورے کرنے کے بعد اس عبوری دور میں اپنا عہدہ بچانے کا چیلنج بھی درپیش ہے۔

اگرچہ آئینی طور پر نئے صدر کے انتخابات تک ان کو ہی اس عالیشان عہدے پر بیٹھنا ہے مگر وہ اگر اپنی پارٹی کئی مکمل لائن لیتے ہیں تو ان کی جانبداری کی وجہ سے ان پر یہ عہدہ چھوڑنے کا پریشر بن سکتا ہے جیسا کہ ابھی سے مسلم لیگ نون کے ترجمان ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوتے ہیں اور ان کے انتخابات کے حوالے سے اقدامات کو ایک سازش قرار دے دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں نوے دن کے اندر الیکشن کروانا ملکی معیشت کے استحکام کے خلاف سازش ہو گی۔

اس سے پہلے اسی جماعت کے سابقہ وزیراعظم شہباز شریف صاحب مردم شماری کو نوٹیفائی کروا کر اپنی دانست میں انتخابات کے التوا کا جواز مہیا کر چکے ہیں اور الیکشن کمیشن نے بھی نئی حد بندیوں کا اعلان کیا ہوا ہے اور انتخابات کو ان حد بندیوں کے بعد منعقد کروانے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ الیکشن کمیشن ریاستی سربراہ کے خطوط کو خاطر میں نہیں لا رہا اور مکمل اطمینان کے ساتھ حد بندیاں کروا رہا ہے اس طرح پنجاب جیسے صوبے میں محسن نقوی صاحب جو بظاہر نوے دن کے لئے آئے تھا اب ان کو ایک سال ہونے والا ہے اور وہ سوائے الیکشن کروانے کے باقی تمام کام کیے جا رہے ہیں۔

صوبے میں ٹرانسفر پوسٹنگ وزیر اعلی ہاؤس، چیف الیکشن کمشنر اور بیوروکریسی مل جل کر کر رہے ہیں اور پنجاب کی حد تک مسلم لیگ نون بھی اپنے کام نکلوا رہی ہے۔ اس لئے الیکشن کروانے کی جلدی کسی مقتدر حلقے کو نہیں ہے۔ انتخابات کروانے کی صورت میں مسلم لیگ نون کو تو یہ خدشہ ہے کہ شاید وہ پاکستان تحریک انصاف سے ہار نہ جائیں کم ازکم عوام میں یہی تاثر بن چکا ہے۔ پی ڈی ایم کی سابقہ روح رواں پیپلز پارٹی بھی شاید اسٹیبلشمنٹ سے کچھ یقین دہانیاں چاہتی ہے جو اس کو ابھی تک نہیں مل سکی ہیں اور اس لیے انھوں نے بھی نوے دن کی آئینی میعاد کے اندر الیکشن کروانے پر زور دینا شروع کیا ہوا ہے مگر اس معاملے پر آصف زرداری ابھی بھی انتظار کرو کی پالیسی پر گامزن لگتے ہیں۔

آصف زرداری نے انتخابات سے زیادہ معیشت کو اہم قرار دے دیا ہے جبکہ ان کے ہونہار سپوت بلاول بھٹو ان کے برعکس کچھ جارحانہ پالیسی اپنانے کا ارادہ ظاہر کر رہے ہیں اور اس بات کا برملا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ عمران خان کا متبادل ہیں اور وزارت عظمی کے مضبوط امیدوار کے طور پر اپنی الیکشن کمپین چلانا چاہتے ہیں۔ ادھر بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے بعد مہنگائی کا طوفان سا کھڑا ہو چکا ہے۔ بجلی کے بلوں کے خلاف تاجروں اور شہریوں نے سخت رد عمل دیا ہے۔

کئی روز تک مختلف شہروں میں احتجاج ہوتا رہا۔ نگران حکومت نے اس حوالے سے کئی اجلاس بھی کیے مگر وہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے ہوتے کوئی بڑا ریلیف دینے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اسی ہفتے ڈالر کی سمگلنگ کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کے بعد ڈالر کی اڑان کو روک دیا گیا ہے اور اب ڈالر کی مارکیٹ میں دستیابی میں بھی بہتری آئی ہے اور اس کی مارکیٹ میں ویلیو پہلی دفعہ انٹر بنک ریٹ سے بھی کم ہوئی ہے۔ اس طرح چینی کی قیمتوں میں اچانک اضافے کے بعد ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن شروع ہوا ہے۔

مگر ان اقدامات سے عوام کو کتنا ریلیف ملتا ہے یہ چند دن بعد ہی واضح ہو گا کیونکہ پہلے بھی ڈالر کی قیمت کم ہو کر پھر دوبارہ بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس طرح ڈالر کی انٹر بنک قیمتوں میں ابھی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ اس لئے اشیا اور سروسز کی قیمتوں میں کمی کے لئے صرف کریک ڈاؤن ضروری نہیں ہے اس کے لئے مہنگائی کے اصل محرکات پر قابو پانا ہو گا۔ ماضی میں آئی پی پی ایز کے ساتھ جس طرح کے معاہدے کیے گئے اس وجہ سے عوام کو مہنگی بجلی خریدنا پڑ رہی ہے۔

خطے کے باقی ممالک کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ہندوستان زرعی بجلی کسانوں کو سستے داموں دے رہا ہے اس طرح بنگلہ دیش میں کارخانوں کو نسبتاً سستی بجلی دی جا رہی ہے ان ممالک نے ڈالر کو بھی لگام ڈالی ہوئی ہے اور اپنی برآمدات میں شاندار اضافہ کیا ہے۔ ہمارے ہاں کسانوں اور کارخانہ دانوں کو مہنگی بجلی دے کر ہم اپنی پیداوار کو بڑھانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اور سیاسی استحکام لانے کے لئے آخرکار سب کو ایک ٹیبل پر آنا ہو گا۔ بعض اطلاعات ہیں کہ بزرگ رہنما محمد علی درانی اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان کسی قسم کی مفاہمت پر کام کر رہے ہیں۔ مگر حالات بظاہر ایسے نہیں کہ جلدی کوئی مفاہمت کی راہ نکل آئے۔ مگر ملک کا مفاد اسی میں ہے کہ سب مل کر بیٹھیں اور سیاسی ڈیڈ لاک کا خاتمہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments