سی پیک کے مساوی منصوبہ


پاکستان کی سونا اگلتی سرزمین سدا آباد رہے۔ اس کے نقشے کو اپنے سامنے رکھئے! ۔ اس میں آبی ذخائر، معدنی وسائل، جنگلات، سیاحت، ہوٹلنگ، کوہ پیمائی، کاروبار، ہنرمند، کاریگر، مزدور، جوان اور بہترین دماغ سب کچھ آپ کو ملے گا۔ اس کے باوجود یہاں امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے اور غریب آئے روز غریب تر۔ عام لوگ قرضوں، فاقوں اور خودکشیوں کے درمیان میں جی رہے ہیں۔ نجانے ہم اگلے کتنے سو سالوں تک ایسے ہی رہیں گے چونکہ اسمگلنگ، بددیانتی، کرپشن اور رشوت کے موجودہ گراف کے ساتھ ہم عوام کو کوئی خوشخبری نہیں سنا سکتے۔

بطور مثال ہماری موجودہ وفاقی کابینہ کے نگران وزیراعظم سمیت چند اہم وزراء اور نئے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی کا تعلق بلوچستان سے ہے، لیکن اس سے بلوچستان کے عوام کو کیا ملے گا؟ یہ وہ سوال ہے جو کبھی عوام کے اذہان میں اٹھتا ہی نہیں۔ ریمدان اور تفتان بارڈر پر زائرین کے ساتھ ہونے والا ناروا سلوک تصویر کا ایک رخ ہے۔ اس ناروا سلوک کی آڑ میں کتنے ہی لوگوں نے تجوریاں بھریں اور کتنے ہی نوجوانوں کو زائرین کے روپ میں عراق پہنچا دیا گیا۔

ہمارے بڑوں نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ ڈنکی کے ذریعے دوسرے ممالک میں روزگار کے لئے جانے والے یہ نوجوان پاکستان کو عزت و سربلندی کے بام عروج تک پہنچا سکتے ہیں۔ یہاں تو ایرانی تیل کی اسمگلنگ سے کسی کو فرصت ملے تو وہ قوم کے جوانوں کے بارے میں سوچے۔ اگر ذاتی تجوریوں کے بجائے ملکی مفاد کسی کو عزیز ہو تو پھر انہی زائرین کے وسیلے سے ملک میں سی پیک سے اگر زیادہ نہیں تو سی پیک کے مساوی اقتصادی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے زائرین کے ساتھ بداخلاقی اور لوٹ مار کے بجائے ہندوستان، مقبوضہ کشمیر اور چین کے لوگوں کو بھی زمینی راستے سے بذریعہ پاکستان زیارات و تجارت و تعلیم و دیگر مشاغل کے لئے ایران و عراق جانے کی اجازت دی جائے۔

حکومت نے فقط قانونی اجازت دینی اور نگرانی کرنی ہے، باقی زائرین کے لئے اس روٹ کو رضاکار تنظیموں اور مخیر حضرات نے حسب ضرورت اپنے بل بوتے پر سنوار دینا ہے۔ پلاننگ اور منصوبہ بندی کی جائے تو سارا سال مسافروں کی آمد و رفت اور خصوصاً محرم الحرام اور اربعین امام حسین علیہ السلام کے موقع پر اس روٹ سے پاکستان کو کھربوں کا منافع حاصل ہو سکتا ہے۔ اس سے پورے ملک کی ٹرانسپورٹیشن میں اضافہ ہو گا، ہوٹلنگ کا کاروبار بڑھے گا، خرید و فروخت اور بازاروں میں رونق بڑھے گی۔

تعلیمی اداروں اور لوگوں کے درمیان سیر و سیاحت اور مطالعاتی دورہ جات کا رجحان بڑھے گا، اشیائے خورد و نوش کا مصرف و گاہک زیادہ ہو گا، پبلک مارکیٹ کو وسعت ملے گی، لوگوں کے درمیان تنگ نظری، علاقائی تعصبات اور مذہبی شدت پسندی کے بجائے تہذیبی تعلق و ثقافتی مکالمہ پروان چڑھے گا۔ اس سے ممالک کے درمیان علاقائی رابطے بڑھیں گے اور مزید رفاہی و فلاحی منصوبوں کا دروازہ کھلے گا۔

سرحدوں پر فوجی تناؤ اور عسکری بجٹ میں اضافے کے بجائے پاکستان کے اندر مختلف کمپنیوں، سوسائٹیز، شخصیات اور سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کا موقع ملے گا۔ یہ اتنا بڑا فلاحی و رفاہی اور اقتصادی منصوبہ ہے کہ اس کی بدولت مختلف میدانوں جیسے زراعت، تعلیم، صحت، صنعت و حرفت وغیرہ۔ میں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعاون کو ناقابل یقین حد تک فروغ ملے گا۔

اب رہی بات ہندوستان سے ہمارے خراب تعلقات کی تو اپنے تعمیر و ترقی کے اس سفر کو جاری رکھنے کے لئے ہندوستان مجبور ہے کہ اگلے چند سالوں میں چین کا ہم سفر بنے یا چین کو اپنا ہم سفر بنائے۔ زمینی حقائق کے مطابق ہمارے ایک طرف اگر ہندوستان ترقی کی منازل طے کر رہا ہے تو دوسری طرف چین بھی تیزی سے ابھر رہا ہے۔ ”ہندوستان اور چین کے خوشگوار تعلقات“ چین کے لئے بھی اتنے ہی ضروری ہیں جتنے کہ ہندوستان کے لئے۔ اگر ہم نے اپنی روایتی و قدیمی سوچ سے ہٹ کر نہیں سوچا تو بہت جلد ہمارے اردگرد کے حالات تبدیل ہو جائیں گے۔ خدا کی طرف سے تفتان و ریمدان کے بارڈرز ہمارے لئے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔ ہم اگر اس سرمائے پر توجہ دیں تو سی پیک کے مساوی ایک اور بڑا اقتصادی پروجیکٹ ہمارا منتظر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments