مذہب اور سماج کے بندھن توڑ کر شادی کرنے والی منیشا اور ڈمپل: ’زندگی میں سیکس ہی سب کچھ نہیں بلکہ اہم محبت ہوتی ہے‘
گگندیپ سنگھ جسوال - بی بی سی نیوز
اس رشتے کے لیے ڈمپل اور منیشا دونوں کے خاندانوں کی رضامندی اس شادی کو منفرد بناتی ہے کیونکہ خاندان عموماً اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
ڈمپل انڈین پنجاب کے مانسا ضلع کی رہائشی ہیں اور منیشا ضلع بھٹنڈہ میں رہتی ہیں۔
ڈمپل اور منیشا کی شادی 18 ستمبر 2023 کو بھٹنڈہ شہر کے ایک گرودوارے میں سکھ رسومات کے مطابق ہوئی۔
ایک اور سماجی رکاوٹ کو توڑتے ہوئے، ان دو لڑکیوں نے مذہب اور ذات کے فرق کی بھی پرواہ کیے بغیر یہ شادی کی۔
ڈمپل کے مطابق ان کا تعلق اونچی ذات کے جاٹ سکھ خاندان سے ہے جبکہ منیشا کا تعلق دلت ہندو برادری سے ہے۔
ڈمپل کا اصرار ہے کہ ان کی محبت میں ذات اور مذہب کا کوئی اثر نہیں تاہم اب اس شادی پر تنازع کھڑا ہو گیا ہے اور سکھ مذہبی رہنماؤں نے اس پر شدید تنقید کی ہے۔
بی بی سی پنجابی نے مانسا میں ڈمپل اور منیشا سے بات کی ہے۔
خاندان کو کیسے منایا؟
ڈمپل کے بال چھوٹے ہیں اور جب ہماری ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے شرٹ اور پینٹ پہن رکھی تھی۔
ڈمپل یاد کرتی ہیں کہ جب انھوں نے اپنے والدین سے کہا کہ وہ لڑکوں میں نہیں، صرف لڑکیوں میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
ان کے والدین نے ان کی خوشی میں اپنی خوشی شامل کرتے ہوئے ان کا ساتھ دیا ہے۔
منیشا کہتی ہیں کہ ’میں نے ڈمپل سے شادی کی خواہش اپنی ماں کو بتائی لیکن انھوں نے شروع میں انکار کر دیا۔ آخر کار میں نے انھیں اس پر راضی کر لیا۔ بعد میں میری والدہ نے میرے والد سے اس پر بات کی، جو بالآخر شادی کے لیے راضی ہو گئے‘۔
انڈیا میں ہم جنس پرست شادیوں کو ابھی تک سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے اس سال ہم جنس پرست شادیوں کو قانونی حیثیت دینے سے متعلق 21 درخواستوں پر سماعت کی اور اس پر جلد فیصلہ متوقع ہے۔
سنہ 2012 میں انڈین حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں ہم جنس پرستوں کی کل تعداد 25 لاکھ تک بنتی ہے۔
ڈمپل اور منیشا کی محبت کی کہانی کا آغاز
ڈمپل نے 12ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بچپن سے ہی وہ لڑکوں کی بجائے لڑکیوں کی جانب کشش محسوس کرتے تھے۔ ان کے والدین نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ کبھی لڑکوں کی طرف راغب نہیں ہوئے۔
ڈمپل کپڑے کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سنہ ’2017 میں مجھے پنجاب کے دارالحکومت چندی گڑھ سے 12 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر زیرک پور میں ملازمت ملی۔‘
ان کے مطابق ’وہاں مجھے ہم خیال دوست ملے جو میرے حالات کو سمجھتے تھے اور پھر ایسے ہم جنس تعلقات سے متعلق میں نے ویڈیو دیکھ کر بھی معلومات حاصل کیں‘۔
ڈمپل اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہیں۔ ڈمپل نے ایک بار جنس تبدیل کرنے سے متعلق سوچا اور ڈاکٹر سے مشورہ طلب کیا تاہم ان کے والدین اس فیصلے کے خلاف تھے کیونکہ وہ ملک میں ایسی شادی کے ردعمل سے متعلق پریشان تھے۔
ڈمپل نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں پانچ سال تک ایک لڑکی کے ساتھ تعلقات میں رہی۔ سنہ 2023 میں ہمارا رشتہ ٹوٹ گیا کیونکہ ہمارے درمیان بہت زیادہ جھگڑا ہوتا تھا۔ میں تین سے چار ماہ تک ایک اور لڑکی کے ساتھ تعلقات میں رہا لیکن وہ بھی زیادہ دیر تک نہ چل سکا۔‘
ڈمپل نے بتایا کہ منیشا ان کے ساتھ کام کرتی تھیں۔ ’جب بھی میرا اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ کوئی اختلاف ہوا تو منیشا نے ہمیشہ مداخلت کی اور مسئلہ حل کرایا۔‘
ڈمپل کا کہنا ہے کہ ’اس وقت مجھے احساس ہوا کہ منیشا میرے لیے بہتر پارٹنر ہو سکتی ہیں۔ وہ بھی میری کمپنی سے لطف اندوز ہوئیں اور ہماری طویل گفتگو ہوئی، جس سے ہم مزید قریب ہو گئے۔‘
منیشا نے بی اے تک تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈمپل نے انھیں فون پر پروپوز کیا تھا، جسے انھوں نے قبول کر لیا۔
منیشا نے مزید کہا کہ ’ایک لڑکی کو ایسے جیون ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے سمجھے، اس کی عزت کرے، اس سے پیار کرے اور اس کے ساتھ ایک بچے کی طرح برتاؤ کرے‘۔
شادی کی بات کیسے شروع ہوئی؟
ڈمپل شادی کی روایتی رسومات کے مطابق منیشا سے شادی کرنے کے لیے اپنی بارات کو بھٹنڈہ لے آئے۔
ڈمپل اور منیشا نے بتایا کہ ان کی شادی کی تقریب میں تقریباً 70 رشتہ داروں اور دوستوں نے شرکت کی۔
شادی سے پہلے ڈمپل نے اپنے والدین کو منیشا کے بارے میں آگاہ کیا اور اسی طرح منیشا نے بھی اپنے والدین کو ڈمپل کے بارے میں معلومات دیں۔
منیشا بتاتی ہیں کہ ’ہمارے والدین مانسا اور بھٹنڈہ شہروں میں ایک دوسرے کے گھروں میں گئے اور شادی کی تاریخ کو حتمی شکل دی۔ شادی کی تاریخ 18 ستمبر طے پائی۔‘
ڈمپل کے والد جگتار سنگھ اور والدہ کلدیپ کور نے ان کے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم نے کبھی اپنی بیٹی کو اس کی مرضی کے خلاف لڑکے سے شادی کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ ان کا ماننا ہے کہ ایسا ’میچ‘ ضرور کامیاب ہو گا۔
سکھ خاندان سے ہونے کی وجہ سے ڈمپل سکھ رسم و رواج کے مطابق شادی کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے اپنی شناخت چھپائے بغیر گرودوارہ صاحب کے گرنتھی سے رابطہ کیا۔
شادی کے موقع پر ڈمپل نے سکھ دولہے کی طرح پگڑی اور کرتا پاجامہ پہنا ہوا تھا۔
ڈمپل کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ دونوں لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ کیا کریں گی۔
’زندگی میں سیکس ہی سب کچھ نہیں بلکہ محبت اہم ہوتی ہے۔ ہم بچہ پیدا کرنے یا گود لینے کے لیے دیگر ذرائع پر غور کریں گے۔‘
شادی کے بعد تنازع
کچھ مذہبی رہنماؤں نے ڈمپل اور منیشا کی شادی پر اعتراض کیا اور گرودوارے کے گرنتھی ہردیو سنگھ کو ہم جنس پرست شادی کروانے پر معافی مانگنے پر مجبور کیا۔ بعد میں ہردیو سنگھ کو ان کے منصب سے ہٹا دیا گیا۔
گرنتھی ہردیو سنگھ کا کہنا ہے کہ وہ یہ پہچاننے میں ناکام رہے کہ دونوں لڑکیاں تھیں کیونکہ ایک لڑکی نے پگڑی پہنی ہوئی تھی۔
ڈمپل نے دعویٰ کیا کہ ان کی شادی سے کسی قسم کی کوئی توہین نہیں ہوئی۔
وہ سوال اٹھاتی ہیں کہ لوگ بیرون ملک جانے کے بہانے گرودوارے میں جھوٹی شادیاں کراتے ہیں، جسے وہ مذہب کی حقیقی بےعزتی سمجھتی ہیں لیکن اس پر احتجاج کیوں نہیں ہوتا۔
ڈمپل کا کہنا ہے کہ ’ہم نے گرودوارہ صاحب میں سب کچھ بتایا اور اپنے شناختی کارڈ بھی دیے۔‘
بٹھنڈہ کے سینیئر پولیس کپتان گلنیت سنگھ کھرانہ نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس میں اس متعلق کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔
دوسری طرف سکھوں کی اعلیٰ مذہبی تنظیم شرومنی گرودوارے پر مذہبی اصولوں کی ممکنہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات کر رہی ہے۔
پنجاب اور ہریانہ ہائیکورٹ کی وکیل تنو بیدی کا کہنا ہے کہ ہم جنس پرست شادیوں کا معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت ہمارے پاس ہندو میرج ایکٹ اور سپیشل میرج ایکٹ موجود ہے۔ جائز نکاح کے لیے شرط یہ ہے کہ ایک شخص کا مرد اور دوسرے کا عورت ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا کوئی بھی قانون ہم جنس پرست شادی کو تسلیم نہیں کرتا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ابھی تک ہم جنس پرست شادی کو قانون کے تحت تسلیم نہیں کیا گیا اور اس وجہ سے وہ اپنے شہری حقوق جیسے کہ شوہر اور بیوی کی ایک دوسرے کے لیے ذمہ داریاں یا جائیداد کے حقوق سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔‘
تنو بیدی کا کہنا ہے کہ ’چونکہ دستاویزات میں شادی کو تسلیم نہیں کیا گیا، اس لیے کسی ناچاقی یا تنازع کی صورت میں وہ ایسا کچھ نہیں کر سکتے جو ایک قانونی شوہر اور بیوی کر سکتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے لیونگ ریلیشن شپ (بغیر شادی کے ساتھ رہنا) کو تسلیم کیا اور کچھ حقوق بھی دیے ہیں، جیسے دیکھ بھال کے اخراجات اور دیگر ذمہ داریوں کی ادائیگی۔
’ہم جنس پرست شادی شدہ جوڑے بھی اسی طرح کے حقوق حاصل کر سکتے ہیں اگر وہ قانونی انتظامات کریں۔‘
سری اکال تخت صاحب کے جتھیدار گیانی رگھوبیر سنگھ نے بھٹنڈہ کی کنال کالونی میں واقع گرودوارے میں ڈمپل اور منیشا کی شادی کو اخلاقی اور مذہبی تعلیمات کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
رگھوبیر سنگھ نے کہا کہ دو لڑکیوں کی شادی نہ صرف سکھ اخلاقیات کے منافی ہے بلکہ غیر فطری بھی ہے۔
انھوں نے پوری دنیا میں گرودواروں کی انتظامی کمیٹیوں، گرانتھیوں، راگیوں اور مبلغین کو بھی اس رجحان کو ذہن میں رکھتے ہوئے چوکنا رہنے کا حکم دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ دنیا بھر کے سکھوں کو اپنے تمام کام سکھ اخلاقیات کے مطابق کرنے چاہیں۔
- پیرس کے لگژری ہوٹل سے گم ہونے والی انگوٹھی کی گتھی جو دو دن بعد سلجھی - 11/12/2023
- ’مطالبے نہ مانے تو غزہ سے کوئی یرغمالی زندہ نہیں بچے گا‘ حماس کی تنبیہ، نتن یاہو کا جنگجوؤں کے سرنڈر کا دعویٰ - 11/12/2023
- سابق افغان فوجیوں کو پناہ نہ ملنے پر برطانوی جنرل مایوس: 'ہم بحیثیت قوم دوغلے یا نااہل ہیں' - 11/12/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).