ملک میں سائنٹفک انکوائری کا ماحول کیوں نہیں؟ (مکمل کالم)
بظاہر یہ ایک معمولی سا واقعہ ہے، اخبارات میں اس کی خبر بھی شائع ہوئی ہے، سوشل میڈیا پر جرثومہ بھی بنا ہے مگر عام لوگوں کی توجہ نہیں حاصل کر پایا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ پشاور یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر شیر علی نے، جن کا تعلق بنوں سے ہے، پچھلے دنوں ایک مذاکرے میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ برقعہ یا عبایہ نہ تو پختون روایات کا حصہ ہے اور نہ ہی اسلام میں اس کا ذکر ہے، انہوں نے کہا کہ طب کے مطابق بلوغت پر انسان تب پہنچتا ہے جب اس کی عقل پختہ ہوتی ہے، لڑکی 12 سال میں بالغ ہو جاتی ہے جبکہ لڑکا 14 سال میں بلوغت پر پہنچتا ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ لڑکی کی عقل پہلے پختہ ہوتی ہے۔ انہوں نے طب کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق کے لئے آئین کی شق 25 اور 26 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شق 25 برابری اور مساوی تحفظ کو یقینی بناتی ہے اور کہتی ہے کہ صرف جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ خبر کے مطابق سیمینار کے انعقاد کے تین ہفتے بعد شیر علی اور ان کے خاندان کو علاقے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لوگوں نے ان سے سماجی تعلقات ختم کر دیے اور انہیں ہراساں کیا جانے لگا۔ جب حالات نے کشیدگی اختیار کر لی تو علاقے کے عمائدین نے ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر شیر علی کو معافی مانگنے پر مجبور کیا اور ان سے ایک حلف نامے پر دستخط کروائے جس میں انہوں نے اپنے نظریات سے اعلان برات کیا اور ساتھ یہ بھی لکھا کہ میں ”شریعت الہیہ کے خلاف جتنی بھی سائنسی و عقلی افکار و نظریات ہیں ان تمام کو باطل سمجھتا ہوں مثلاً ڈارون کا نظریہ ارتقا۔“ خبر ختم ہوئی۔
میں سمجھتا ہوں کہ پروفیسر صاحب خوش قسمت ہیں کہ محض ایک حلف نامے پر دستخط کرنے سے ان کی جان چھوٹ گئی ورنہ یہاں تو یار لوگ کان پہلے کاٹتے ہیں پوچھتے بعد میں ہیں۔ ویسے پروفیسر صاحب گزشتہ برس ایک بم دھماکے میں بھی بال بال بچ گئے تھے، غالب امکان یہی ہے کہ ان کے نظریات ہی اس بم دھماکے کا سبب بنے ہوں گے۔ لوگ اکثر یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں سائنٹفک انکوائری کا ماحول کیوں نہیں ہے، کیا وجہ ہے کہ ہم کوئی ایجاد نہیں کر پاتے اور کسی سائنسی تحقیق میں ہمارا نام کیوں نہیں ہوتا؟ اس سوال کے جواب میں لبرل طبقہ مذہبی تنگ نظری کے خلاف بندوق تان کر کھڑا ہوجاتا ہے اور دلیل دیتا ہے کہ سائنسی تحقیق صرف آزادانہ ماحول میں ممکن ہے جبکہ ہمارے ملک میں ایسی آزادی میسر نہیں، یہاں جب بھی سائنس پر تحقیق ہوگی تو لا محالہ اس کے نتیجے میں مذہبی افکار پر بھی سوال اٹھائے جائیں گے جیسے کہ نظریہ ارتقا کے نتیجے میں مذہبی عقائد پر تشکیک کا سلسلہ شروع ہوا یا جیسے گلیلیو اور کوپر نیکس نے کلیسا کو اپنی سائنسی دریافت کے باعث برہم کر دیا، آج پوری دنیا گلیلیو کو سلام پیش کرتی ہے مگر اس وقت گلیلیو کی جان بھی پادریوں کو ایک قسم کا حلف نامہ دے کر ہی چھوٹی تھی۔ مذہبی طبقہ اس دلیل کو رد کرتا ہے، اس کا کہنا ہے کہ ملک میں یونیورسٹیاں کھلی ہیں جہاں سائنس کی تعلیم دی جاتی ہے، لوگ سائنس میں پی ایچ ڈی کرتے ہیں، لیبارٹریز میں تجربات کرتے ہیں، اس کے علاوہ حکومت نے سائنس کی ترویج کے لیے درجنوں ادارے بنا رکھے ہیں، سپارکو جیسا ادارہ کئی دہائیوں سے کام کر رہا ہے، کیا کبھی مولویوں نے ان اداروں پر ہلہ بول کر مطالبہ کیا کہ یہاں سائنسی تجربات بند کیے جائیں یا کسی میڈیکل کالج میں دھرنا دے کر کہا کہ وہاں کنواری لڑکیوں کو نا محرم برہنہ مردوں کی مدد سے اناٹومی نہ پڑھائی جائے (دھیان رہے مردوں پر پیش ہے زبر نہیں)۔ ظاہر کہ ایسا کبھی نہیں ہوا اور نہ ہی ایسا کرنے کی کوئی وجہ ہے، اس لیے مذہبی طبقے کو اس بات پر مورد الزام ٹھہرانا کہ ملک میں سائنٹفک انکوائری کا ماحول ان کی وجہ سے نہیں بن پاتا، بالکل بے سروپا الزام ہے۔
یہ دونوں نکتہ نظر اپنی اپنی جگہ درست معلوم ہوتے ہیں لیکن اس بات پر مذہبی اور لبرل، دونوں طبقات کا اتفاق لگتا ہے کہ بہرحال ملک میں سائنٹفک انکوائری کا ماحول نہیں ہے۔ سو پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ملک میں کس قسم کا ماحول ہے؟ اس کے لیے آپ کو زیادہ تردد کرنے کی ضرورت نہیں، آپ صرف یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ریاست اور سماج کن باتوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، آزادی اظہار کہاں تک برداشت کی جاتی ہے، ملک میں کس بات کا جشن منایا جاتا ہے، کس بات پر ماتم کیا جاتا ہے، تعلیمی اداروں میں کیا پڑھایا جاتا ہے، نوجوان ڈگریاں حاصل کر کے زندگی میں کیا بننا چاہتے ہیں اور معاشرے کا عمومی رویہ اور رجحان کس قسم کا ہے! سامنے کی بات ہے کہ ہم جن چیزوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ان میں ہم نے کمال بھی حاصل کیا ہوا ہے، مثلاً پوری قوم کرکٹ کی دیوانی ہے، ریاستی سطح پربھی اس کی سرپرستی کی جاتی ہے، ملک جب دیوالیہ ہونے کے قریب تھا تب بھی کرکٹ بورڈ نے پی ایس ایل کروایا، گلی محلے میں کرکٹ کھیلی جاتی ہے، اسکولوں اور کالجوں میں میچ ہوتے ہیں، مذہبی طبقے کی طرف سے بھی کوئی خاص اعتراض نہیں کیا جاتا، یہی وجہ ہے کہ ملک پر زوال آنے کے باوجود ہماری کرکٹ پر وہ زوال نہیں آیا، اب بھی ہم دنیا کی بہترین ٹیموں میں شامل ہیں۔ اسی طرح برصغیر میں مغل بادشاہ شاعری کی سرپرستی کرتے تھے، قلعے میں مشاعرے ہوتے تھے، بڑے بڑے شعرا کو بادشاہ کی طرف سے وظیفہ دیا جاتا تھا، پوری سلطنت کا ماحول شاعری کے لیے سازگار تھا، سو شاعری خوب پروان چڑھی۔ ایک مثال جہاد کی بھی لے لیں، ریاست نے جب اس کی سرپرستی کی اور ہم نے افغانستان میں روس کے خلاف ’جہاد‘ کیا تو سپر پاور کو شکست دے دی، وجہ وہی کہ پورے ملک میں جہادی ماحول تھا، سیمینار ہوتے تھے، مذہبی اور سیاسی دانشور جہاد کے فضائل بیان کرتے تھے، ریاست حوصلہ افزائی کرتی، نتیجہ حسب توقع نکلا۔
جب ہم کہتے ہیں کہ ملک میں سائنٹفک انکوائری کا ماحول نہیں ہے تو اس کی وجہ محض مذہبی تنگ نظری نہیں بلکہ معاشرے اور ریاست کا عمومی رویہ اور رجحان ہے، حکومت اور سماج سائنسی تحقیق کی مخالفت نہیں کرتے مگر اس کی سرپرستی بھی نہیں کرتے۔ اگر ایسا ہوتا تو پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر کو ضلعی انتظامیہ کی موجودگی میں بیان حلفی دے کر اپنے نظریات سے اعلان برات نہ کرنا پڑتا۔ جی ہاں، یہ بات درست ہے کہ کسی مذہبی جتھے نے سائنس کی لیبارٹری پر کبھی دھاوا نہیں بولا، اس کے لیے بے حد شکریہ، مگر کیا محض دھاوا نہ بولنا کافی ہے؟ سائنٹفک انکوائری آزاد ماحول کے بغیر ممکن نہیں اور آزاد ماحول کے لیے ضروری ہے کہ کسی پروفیسر کو اس بات کا ڈر نہ ہو کہ نظریہ ارتقا پڑھانے کی پاداش میں کہیں اس کے ساتھ وہی سلوک نہ کیا جائے جو گلیلیو کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اس آزاد ماحول کو دو طریقوں سے یقینی بنایا جا سکتا ہے، پہلا، حکومتی رٹ قائم کر کے، تاکہ ملک میں سائنسی مکالمہ بغیر کسی خوف اور روک ٹوک کے ممکن ہو سکے۔ دوسرا، اسکول کی سطح سے بچوں میں تنقیدی شعور پروان چڑھا کے، اس وقت ہمارے اسکولوں میں تو کیا یونیورسٹیوں میں بھی تنقیدی شعور کا فقدان ہے، یہ یونیورسٹیاں محض ڈگری چھاپنے کے ادارے ہیں جہاں زیادہ سے زیادہ آزادی اس بات کی ہے کہ وہاں مولانا طارق جمیل کو مدعو کر کے ان سے حوروں کے سراپے سے متعلق سوالات کر لیے جائیں۔ ایسے ماحول میں سائنس تحقیق تو ممکن نہیں ہوگی البتہ جنت میں حوروں کے ساتھ وقت گزارنے کے طریقوں پر ضرور کوئی مقالہ لکھا جا سکے گا۔ اگر کسی نے یہ مقالہ نہیں لکھا تو اب خاکسار یہ کام کرے گا، ویسے بھی مجھے پی ایچ ڈی کرنے کا بہت شوق ہے!
(عرض مدیر: مجھے برادر محترم یاسر پیرزادہ کے ہر لفظ سے اتفاق ہے۔ تاہم، محض ریکارڈ کی درستی کے لئے، یاد دلانا چاہتا ہوں کہ 20 جنوری 2016 کو باچا خان یونیورسٹی چارسدہ پر دہشت گردوں کے حملے میں کم از کم 22 افراد شہید ہوئے تھے۔ اس وقت یونیورسٹی میں کیمسٹری کے جواں سال اسسٹنٹ پروفیسر سید حامد حسین نے طالب علموں کی حفاظت کرتے ہوئے دہشت گردوں کا باقاعدہ مسلح مقابلہ کر کے جان جان آفریں کے سپرد کی تھی۔ چنانچہ یہ رائے درست نہیں کہ مذہبی انتہا پسندوں نے ہمارے ملک میں کبھی سائنس، ادب، تاریخ اور فنون عالیہ کے اساتذہ سے اعراض نہیں کیا۔ پاکستان کے اس بہادر بیٹے کی تصویر آنے والی نسلوں کی امانت کے طور پر لف کر رہا ہوں۔)
- لاہور، جو ایک محبوب تھا ۔ مکمل کالم - 10/11/2024
- آرٹ پر ایک مکالمہ – مکمل کالم - 03/11/2024
- ہمیں ایک میگنا کارٹا کی ضرورت ہے (مکمل کالم) - 30/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).