موقف کی تلاش
”موقف کی تلاش“ ڈاکٹر محمد خاور نوازش کی تازہ تصنیف ہے جو بہت عمدہ اور دیدہ زیب گیٹ اپ کے ساتھ عکس پبلیکیشنز، لاہور سے شائع ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایک وسیع مطالعہ رکھنے والے استاد، ایک محنتی محقق اور ایک صاحب رائے لکھاری ہیں۔ ”موقف کی تلاش“ سے قبل وہ ”مشاہیر ادب: خارزار سیاست میں“ ، ”ادب زندگی اور سیاست“ ، ”عطا الحق قاسمی کی تحریریں سیاسی و سماجی تناظر میں“ ، ”ارمغان روبینہ ترین“ ، ”اردو ہندی وحدت /ثنویت“ اردو ”افسانے کا دوسرا جنم“ جیسی وقیع اور عمدہ کتب سے اردو زبان و ادب اور تحقیق و تنقید کے میدان کو ثروت مند کر چکے ہیں اور 2016 میں ہائر ایجوکیشن کمیشن سے بہترین نوجوان محقق کا ایوارڈ بھی حاصل کر چکے ہیں۔
”موقف کی تلاش“ خاور نوازش کے مضامین کا مجموعہ ہے جو وقتاً فوقتاً ادبی اور تحقیقی مجلات میں شائع ہوئے۔ دیگر کتب کے علاوہ ”موقف کی تلاش“ کے مضامین کی فہرست مصنف کی ترقی پسند فکر سے وابستگی کو ظاہر کرتی ہے۔ ”ادب کی نظریاتی اساس“ ، ”ادب یا تعمیری ادب“ ، ”ترقی پسند نظریے کی بلند آہنگی“ ، ”مطالعہ فیض نئے پیراڈائم کی تلاش“ ، ”مذہب اور کلچر کا رشتہ ( اقبال اور فیض کے نظریات کی روشنی میں )“ ، ”سر سید اور اقبال کا تصور تہذیب“ ، ”سر سید احمد خان کی انگریز دوستی اور مسلم مفادات (مابعد نو آبادیاتی تناظر )“ چند ایسے ہی مضامین ہیں۔
مصنف نے اس کتاب میں ان مضامین کی جمع آوری کی ہے جو نئی تنقید اور عالمگیریت کے مقابلے میں مقامیت کے حامی نظر آتے ہیں ان کا موقف ہے کہ ہمارے معاشرے کا عمومی طرز استدلال یا علاقائیت ہی ہماری بنیادی شناخت ہے اور ہمیں اسی پہچان کے ساتھ نئے ادبی و تنقیدی مباحث کو دیکھنا اور پرکھنا ہے۔ اس کتاب میں وہ بہت اہم سوالات اٹھاتے ہیں جیسا کہ ہمارا قومی موقف کیا ہے؟ قومی و مقامی موقف موجود بھی ہے یا ہم لا موقف ہیں؟ ہمارا موقف نو آبادیاتی حکمران چرا کر تو نہیں لے گئے؟ یا وہ حکمران ہمارے موقف پر ہمارا ایمان متزلزل تو نہیں کر گئے؟ یہ اور اس طرح کے تمام سوالات ہماری بقا کے لیے نہایت ضروری ہیں، بنیادی مسئلہ سوال پیدا کرنے ہی کا ہے سوال سامنے آ جائیں تو جوابات کی جانب بڑھا جا سکتا ہے۔
مذکورہ کتاب کے مضامین کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مصنف تشکیک، عقل اور منطق کے حد درجہ حامی ہیں۔ ان کے مطابق:
”آئیڈیالوجی اپنی نوعیت کے اعتبار سے اس وقت کسی بھی فرد کے لیے قوت اور طاقت کا منبع ہوتی ہے جب تک کہ اس میں ارتقا پذیری کے لیے لچک موجود رہے۔ اگر آئیڈیالوجی ایک عقیدے کا روپ دھار لے تو انحطاط پذیری کی طرف بھی لے جا سکتی ہے کیونکہ عقیدے کے فلسفے میں عقل کا کوئی دخل نہیں اور اس کا تانا بانا عقلی بنیادوں پر تیار نہیں ہوتا۔“ (ادب کی نظریاتی اساس، ص 13)
وہ ترقی پسندوں کے موقف کے حامی بھی اس لیے نظر آتے ہیں کیونکہ یہ سائنسی عقلیت پسندی کی حمایت کرتے ہیں اور بے بنیاد تصور پرستی اور رجعت پرستی کے خلاف ہیں ان کا کہنا ہے کہ ادیب اور لکھاری معاشرے کے ساتھ جڑ کر ہی زندگی پا سکتا ہے۔ ان کے مطابق:
”ہماری نئی نسلوں کو آج بھی اسی ادیب کی ضرورت ہے کہ وہ معاشرے کی حقیقتوں اور اس کے مزاج کی طرف لوٹے، اپنے پرانے بے معنی سفر کے لاحاصلات کا احوال ایک سفر نامے میں قلم بند کرے، چاہے اس میں ہمارے جیسوں کو ’نوخیزیے‘ یا ’نوفکریے‘ کہہ کر اپنی بھڑاس بھی نکال لے لیکن اس تعمیر نوکا نقشہ ترتیب دے جس کی موجودہ سماج کو سخت ضرورت ہے“ ( ادب یا تعمیری ادب، ص 30)
وہ گلوبلائزیشن کو سرمایہ دارانہ نظام کی توسیع قرار دیتے ہیں جس کا اصل مقصد ایک عالمی منڈی کی تشکیل ہے جہاں پر کارپوریٹ کلچر کا راج ہو دوسرے لفظوں میں یہ امریکنائزیشن ہے۔ اور ہم وہ بد نصیب ہیں جنہیں برطانوی نو آبادیاتی حکمرانوں سے نجات کے فوراً بعد امریکنائزیشن درپیش ہے۔ دوسرا ستم یہ کہ ہمارے ہاں عالمگیریت کی ضد علاقائیت کو سمجھا جاتا ہے اس لیے گزشتہ کچھ عرصے سے مقامی زبانوں اور تہواروں کو بہت زیادہ شدت سے اپنایا اور منایا جانے لگا ہے مصنف اس صورتحال پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں :
”ہم نے گلوبلائزیشن کے ثقافتی ایجنڈے اور بالخصوص اس کے لسانی پہلو کو سمجھنے کے لیے یہ سوچنا ہو گا کہ مقامیت کے نام پر ایک دفعہ پھر سے اسی طرح کی سیاست فروغ دینے پر کام تو نہیں ہو رہا جو نو آبادیاتی ہندوستان میں برتی گئی تھی یعنی مقامی زبانوں کے پرچار کے ذریعے ان زبانوں کی Celebration کے پردے میں اردو کے خلاف نفرت کو بڑھایا جائے“ (ص 66)
ہمارے ہاں حقیقی لسانی استعماریت تو انگریزی زبان کی ہے نہ کہ اردو کی۔ مصنف کے مطابق گلوبلائزیشن کی لسانی استعماریت کو اس خطے کی دو بڑی زبانیں اردو اور ہندی مل کر چیلنج کر سکتے ہیں۔ مصنف قارئین کو ناصر کاظمی، فیض احمد فیض اور علامہ اقبال کی ایک اور انداز میں پڑھت پر آمادہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ناصر کاظمی کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ناصر کو رومانوی اور یاد کا شاعر سمجھا جاتا ہے حالانکہ انہوں نے ہجرت کوایک حقیقت کے طور پر بہت پہلے تسلیم کر لیا تھا لیکن وہ اس بات کو ماننے کے لیے آخری دم تک تیار نہیں تھا کہ غلامی سے نجات کے بعد کی زندگی جو اپنے ساتھ ایک نئی دنیا کا تصور اس کے ذہن میں ابھار رہی تھی پہلی زندگی سے زیادہ تلخ ہو۔ غیروں کی غلامی سے نکل کر اپنوں کی غلامی میں آنے کا دکھ ایک زندہ اور سچے تخلیق کار کی طرح ناصر کو بھی ہمیشہ اداس کرتا رہا اور جب وہ کہتا ہے کہ:
چلے دل سے امیدوں کے مسافر
یہ نگری آج خالی ہو رہی ہے
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
وہ فیض احمد فیض کی شخصیت کے رومان سے نکل کر اس کے کلام پر زیادہ توجہ مذکور کرنے پر بھی زور دیتے ہیں۔ ہمارے عصری مسائل میں ایک اہم سوال ثقافتی شناخت کا بھی ہے جس پہ بہت کچھ لکھا اور بولا جا رہا ہے، مصنف ثقافتی شناخت کے بارے میں کہتے ہیں :
”عصری تناظر میں دیکھا جائے تو اس ثقافتی شناخت میں مذہب کے علاوہ دیگر زندہ عناصر سے یکسر انکار کا رویہ نظر آتا ہے۔ خیال پر پہرے ہیں۔ برداشت کا عنصر ختم ہو رہا ہے۔ حقیقی تاریخ کے بجائے ایسی تاریخ پڑھائی جا رہی ہے جس میں ماضی کی مخصوص تشکیل کی گئی ہو۔ ایسے میں مذہب اور کلچر کے رشتے کی تزئین جب تک قریب اور دور کی نظر کا عدسہ ایک ہی عینک میں لگا کر ازسر نو نہیں کی جائے گی نوع انسانی کو جہنم کا ایندھن قرار دینے والے طبقے سے فکری جنگ لڑنا آسان نہیں“ (مذہب اور کلچر کا رشتہ، اقبال اور فیض کے نظریات کی روشنی میں، ص 117)
اس سلسلے میں وہ سر سید احمد خان اور علامہ اقبال کے تصورات کی بازیافت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
”عصری تناظر میں سر سید احمد خان اور علامہ اقبال کے تصورات تہذیب کے مطالعات ایک مثبت بیانیے کا منبع بننے کی پوری توانائی رکھتے ہیں۔ ان تصورات کی روشنی میں وحشیانہ پن اور انسانیت میں تمیز، سلطنت اور مذہب کی انفرادی زندگی کی کو چوانی کا کل اختیار نہ دینا اور احترام آدمیت ہی وہ بنیادی نکات ہیں جو موجودہ کارپوریٹ کلچر میں ہر انسان اور اس کے عمل کو کموڈٹی کی طرح تولنے والوں کی طرف مزاحمت کی اساس بن کر ہمارے تہذیبی عروج کا سرچشمہ بن سکتے ہیں“ (ص131)
اردو ہندی تنازع کے حوالے سے مصنف نے جس طرح تاریخی حقائق پیش کر کے اس لسانی تنازع کا للو لال کوی سے زیادہ گل کرسٹ کو ذمہ دار ٹھہرایا اور نوآبادیاتی حکمرانوں کی Divide and Ruleپالیسی کو بے نقاب کیا ہے، وہ قابل ستائش ہے۔ اردو ہندی تنازع پر اردو زبان میں اس طرح کی مدلل اور منطقی تحریر بہت کم دیکھنے میں آئی ہے جو اس لسانی تنازع کو روایتی انداز میں بیان کرنے کی بجائے دونوں طرف کے دانشوروں کر اس تنازع کو ایک بار پھر مابعد نوآبادیاتی تناظر میں دیکھنے پر اکساتی ہے۔ آخری مضمون ”آریاؤں کی ہندوستان آمد (یلغار) ؟ مجہول لسانی تناظر اور خام محاکات تحقیق“ میں وہ معروف ماہر لسانیات فریڈرک میکس ملر کی تھیوری Aryan Invasion Theoryکو چیلنج کرتے ہوئے اس پر اثر انداز میں مضمون کا اختتام کرتے ہیں :
”اگر لسانی محققین، ماہرین آثار قدیمہ اور مورخین کی ہم سے پچھلی نسل نے یا ان سے بھی پچھلی نسل نے کچھ محاکات کو خام صورت میں ہی آگے منتقل کر دیا یا کچھ مفروضے وراثت میں چھوڑ دیے تو ضروری نہیں کہ ان مفروضوں کو ہم“ پوری ایمانداری ”کے ساتھ بغیر سوچے سمجھے اگلی نسلوں کو منتقل کرتے رہیں۔“ (ص 197 )
مجموعی طور پر اس کتاب میں جدیدیت، گلو بلائزیشن، مقامیت اور استعماریت کے روایتی اور رائج الوقت تصورات کی رد تشکیل کی گئی ہے، فکری انحطاط اور نقالی کے اس دور میں زبان، ادب، لسانیات، تہذیب اور ثقافت جیسے پیچیدہ اور ادق موضوعات کے متعلق اس کتاب میں ایک واضح موقف پیش کیا گیا ہے۔ یہ موقف غلط ہے یا درست یہ فیصلہ کرنا بعد کی بات ہے۔ ایک موقف رکھنا اور اس کا برملا، منتظم اور منطقی انداز میں اظہار ایک بڑا کٹھن کام ہے جو مصنف نے اس تصنیف میں بخوبی انجام دیا ہے۔
- ناول ”سیاہ اور سفید میں لکیر“ : چند تاثرات - 01/11/2024
- عہد ظلمات – برصغیر میں برطانوی سلطنت - 25/07/2024
- سفید پرندے کا نوحہ: جنگ اور موت کی نظمیں - 09/07/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).