ایک واٹس ایپ گروپ جس نے عمان میں پھنسی 50 سے زائد افریقی گھریلوں ملازماؤں کو آزادی دلوائی
فلورنس پھیری اور تماثین فورڈ - بی بی سی لندن اور لیلونگوے
جارجینا نے اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے عمان کی طرف رختِ سفر باندھا تھا لیکن انھیں نہیں معلوم تھا کہ یہ ان کی زندگی کا کرب ناک ترین فیصلہ ثابت ہوگا۔
بتیس برس کی جارجینا کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے جب وہ عمان میں خود پر بیتنے والی قیامت کی کہانی سُنا رہی تھیں جہاں وہ بطور گھریلو ملازمہ کام کر رہی تھیں۔
جارجینا انسانی سمگلنگ جیسے سنگین جُرم کا نشانہ بننے والی ان 50 سے زائد خواتین میں سے ایک ہیں جنھیں مشرقی افریقہ کے ملک ملاوی سے روشن مسقتبل کے خواب دِکھا کر عمان لے جایا گیا تھا۔ انھیں بتایا گیا تھا کہ انھیں عمان میں بطور ڈرائیور ملازمت دی جائے گی۔
بی بی سی کو انٹرویو دینے والی دیگر خواتین کی طرح جارجینا بھی قارئین کو صرف اپنے نام کا پہلا حصہ بتانا چاہتی ہیں۔
جارجینا ملاوی کے دارالحکومت لیلونگوے میں اپنا چھوٹا سا کاروبار چلا رہی تھیں جب انھیں ایک ایجنٹ نے رابطہ کرکے بتایا کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں زیادہ پیسہ کما سکتی ہیں۔
جب ان کا جہاز عمان کے دارالحکومت مسقط میں اُترا تو انھیں اندازہ ہوا کہ ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے اور اب وہ ایک مقامی خاندان کے چُنگل میں پھنس چکی ہیں جہاں ان سے ہفتے کے ساتوں دن کام لیا جائے گا۔
جارجینا کا کہنا ہے کہ وہ صرف دن میں دو گھنٹے کی نیند لے پاتی تھیں۔ انھوں بی بی سی کو بتایا کہ ’میں اس نہج پر پہنچ چکی تھی جہاں آپ سے کچھ بھی برداشت نہیں ہوتا۔‘
ابھی جارجینا کو وہاں پہنچے ہوئے زیادہ عرصے نہیں ہوا تھا کہ ان کے مالک نے ان پر سیکس کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کردیا اور انھیں دھمکی دی کہ اگر کسی کو اس حوالے سے بتایا تو وہ انھیں گولی مار دے گا۔
ملاوی کی 32 سالہ خاتون کا کہنا تھا کہ ’وہ یہ اکیلے نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے دوستوں کو بھی ساتھ لایا کرتے تھے جن سے وہ پیسے لیا کرتے تھے۔‘
یہ بتاتے ہوئے ان کی آنکھیں بھر آئیں کہ ایک بار دوران سیکس وہ بُری طرح زخمی بھی ہو گئی تھیں۔
ایک اندازے کے مطابق مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک میں تقریباً 20 لاکھ خواتین گھریلو ملازمائیں کام کر رہی ہیں۔
پناہ گزینوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے اداراے ’ڈو بولڈ‘ نے 2023 میں ایک سروے کروایا تھا جس میں عمان میں رہائش پذیر 400 خواتین نے حصہ لیا تھا۔
ان 400 ملازماؤں میں سے تقریباً تمام ہی خواتین ایسی تھیں جو انسانی سمگلنگ کا شکار ہوئی تھیں۔
ان میں سے ایک تہائی خواتین کا کہنا تھا کہ انھیں ریپ کیا گیا جبکہ ان میں سے آدھی خواتین کا کہنا تھا کہ انھیں دوران ملازمت جسمانی تشدد بھی برداشت کرنا پڑا ہے۔
مسقط پہنچنے کے کئی ہفتوں بعد جارجینا کے لیے حالات ناقابلِ برداشت ہوگئے تھے۔ اسی لیے انھوں نے فیس بُک پر ایک پوسٹ لگائی اور تقریباً گِڑگِڑانے کے انداز میں مدد کی اپیل کی۔
ملاوی سے تعلق رکھنے والی 38 سالہ انسانی حقوق کی کارکن پیلیلانی مومبے نیونی مسقط سے ہزاروں میل دور امریکی ریاست نیو ہیمپشائر میں بیٹھی تھیں اور ان کی نگاہوں کے سامنے جارجینا کی فیس بُک پوسٹ آگئی اور انھوں نے اس معاملے کی تحقیق کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔
انھوں نے جارجینا سے رابطہ کیا اور ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے فیس بُک سے مدد کی اپیل بھی حذف کروا دی۔ انھوں نے جارجینا کو اپنا ذاتی واٹس ایپ نمبر دیا جو جلد ہی عمان بھر میں پھیل گیا۔
پیلیلانی کو جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ یہ کوئی ایک کیس نہیں بلکہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پیلیلانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جارجینا پہلی متاثرہ خاتون تھیں، پھر اس کے بعد ایک اور لڑکی، پھر دوسری اور پھر تیسری لڑکی سامنے آگئی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے سوچا کہ ’مجھے ایک واٹس ایپ گروپ بنا لینا چاہیے کیونکہ یہ انسانی سمگلنگ کا معاملہ لگ رہا ہے۔‘
جلد ہی عمان میں مقیم ملاوی سے تعلق رکھنے والی 50 سے زائد خواتین نے یہ واٹس ایپ گروپ جوائن کرلیا۔
جلد ہی یہ واٹس ایپ گروپ وائس نوٹس اور ویڈیوز سے بھر گیا جن سے خواتین کو درپیش خوفناک صورتحال کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ ان میں سے متعدد خواتین کے پاسپورٹ بھی عمان پہنچتے ہی چھین لیے گئے تھے تاکہ وہ واپس نہ جا پائیں۔
ان میں سے کچھ خواتین کا کہنا ہے کہ انھیں واٹس ایپ پیغامات بھیجنے کے لیے بھی ٹوائلٹ میں چھپنا پڑا۔
واٹس ایپ گروپ میں ایک خاتون نے لکھا کہ ’مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے میں ایک قید خانے میں ہوں اور ہم کبھی یہاں سے نکل نہیں پائیں گے۔‘
ایک اور خاتون نے لکھا کہ ’میری زندگی کو خطرہ ہے۔‘
پیلیلانی نے جلد ہی انسانی سمگلنگ کے خلاف کام کرنے والے اداروں سے رابطے کرنا شروع کردیے تاکہ عمان میں پھنسی خواتین کی مدد کی جا سکے اور اسی دوران ان کا تعارف یونان میں مقیم ’ڈو بولڈ‘ کی شریک بانی ایکترینا پورس سے ہوا۔
’ڈو بولڈ‘ ایک فلاحی ادارہ ہے جو کہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں تاریکینِ وطن کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے تاکہ انسانی سمگلنگ اور جبری مشقت کا شکار افراد کی نشاندہی ہوسکے اور ان افراد کے مالکان سے مذاکرات کے ذریعے مشکلات میں پھنسے ان افراد کو رہائی دلوائی جا سکے۔
ایکترینا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مالکان ملازمائیں فراہم کرنے کے لیے ایجنٹس کو پیسے دیتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں سب سے بڑا مسئلہ تب پیش آتا ہے جب آجر یا ایجنٹ کہتا ہے: مجھے اپنے پیسے واپس چاہییں، اس کے بعد یہ گھر جا سکتی تھیں۔‘
’عمان میں جو قوانین نافذ ہیں وہ گھریلو ملازمہ کو آجر کا گھر چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتے۔ نہ وہ نوکری تبدیل کر سکتی ہے اور نہ ہی ملک چھوڑ سکتی ہے، چاہے ان کے ساتھ کیسا بھی برتاؤ کیا جا رہا ہو۔‘
مشرقِ وسطیٰ میں اسے ’نظامِ کفالہ‘ کہتے ہیں جو کہ ملازم کو پابند کرتی ہے کہ وہ کنٹریکٹ کی معیاد ختم ہونے تک آجر کے ساتھ رہیں۔
عمان کے قومی ادارہ برائے انسدادِ انسانی سمگنگ نے بی بی سی کو بتایا کہ گھریلو ملازم اور آجر کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوتے ہیں اور کسی بھی مسئلے کی صورت میں وہ ایک ہفتے کے اندر عدالت سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
اس ادارے کا مزید کہنا تھا کہ آجر کو اس بات کی اجازت نہیں ہوتی کہ وہ ملازم سے جبری مشقت لے سکے اور نہ ہی وہ تحریری اجازت کے بغیر ملازم کا پاسپورٹ یا دیگر نجی دستاویزات اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔
مسقط میں تقریباً تین مہینے گزارنے کے بعد جارجینا، پیلیلانی اور عمان میں کسی ایک اور شخص کی مدد سے جون 2021 میں ملاوی واپس آنے میں کامیاب ہوگئیں۔
پیلیلانی کہتی ہیں کہ ’جارجینا کی مدد کرنے کے بعد بھی میں پاگل ہو رہی تھی اور مجھے شدید غصہ آ رہا تھا۔‘
جارجینا کے کیس سے انھیں موقع ملا کہ وہ ملاوی میں اس حوالے سے آواز اُٹھائیں اور پھر جلد ہی ملاوی کی حکومت پر بھی اس مسئلے کا سدِباب کرنے کے لیے دباؤ بڑھنے لگا۔
ملاوی کے فلاحی ادارے ’سی ڈی ای ڈی آئی‘ نے عمان سے ملاوی سے تعلق رکھنے والی خواتین کو ریسکیو کرنے کے مشن کا آغاز کیا۔
بلیسنگز ایک اور خاتون ہیں جو پیلیلانی کے بنائے گئے واٹس ایپ میں شامل تھیں۔ 39 سالہ خاتون اپنے چار بچوں کو اپنی بہن سٹیویلیا کے پاس لیلونگوے چھوڑ کر مسقط گئیں تھیں۔
بلیسنگز کام کرتے ہوئے کچن میں بُری طرح جھلس گئیں تھیں لیکن پھر بھی ان کے آجر نے انھیں واپس ملاوی جانے کی اجازت نہیں دی۔
سٹیویلیا بتاتی ہیں کہ ’یقین کیجیے جس قسم کے انھیں زخم آئے تھے، میں اپنے سامنے اپنی بہن کی جان نکلتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔‘
سٹیویلیا کہتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے میری بہن نے مجھے کہا تھا کہ میں یہاں بہتر زندگی کے لیے آئی تھی لیکن اگر میں مرجاتی ہوں تو برائے مہربانی میرے بچوں کا خیال رکھنا۔‘
اس کے بعد سٹیویلیا نے اپنی بہن کو واپس لانے کی کوششیں شروع کردیں۔ پہلے پہل تو ایجنٹ نے کہا کہ بلیسنگز مر چکی ہیں لیکن یہ سچ نہیں تھا۔ ملاوی کی حکومت کی کوششوں کے طفیل گذشتہ برس اکتوبر میں بلیسنگز اپنے گھر واپس آنے میں کامیاب ہوگئیں۔
بلیسنگز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک ایسا بھی وقت آئے گا جب میں اپنے خاندان اور اپنے بچوں کو دیکھ سکوں گی۔‘
’مجھے اندازہ بھی نہیں تھا کہ دُنیا میں ایسے بھی لوگ موجود ہیں جو دوسروں کے ساتھ غلاموں جیسا برتاؤ کرتے ہیں۔‘
ملاوی حکومت، جس نے اس دوران ’ڈو بولڈ‘ کے ساتھ مل کر بھی کام کیا، کا کہنا ہے کہ انھوں نے عمان سے 54 خواتین کو واپس لانے کے لیے ایک لاکھ 60 ہزار ڈالرز خرچ کیے۔
لیکن 23 برس کی ایڈا چیوالو ان بدقسمت لوگوں میں سے تھیں جو اپنے گھر تابوت میں لوٹیں۔ عمان میں ان کی موت کے بعد نہ کوئی تحقیقات ہوئیں اور نہ ہی کوئی پوسٹ مارٹم۔
عمان کے حکام کا کہنا ہے کہ 2022 میں ان کی لیبر منسٹری کو ملاوی کے کسی گھریلو ملازم کی جانب سے کوئی شکایت نہیں موصول ہوئی، جبکہ 2023 میں ایک شکایت موصول ہوئی تھی جسے حل کرلیا گیا تھا۔
’ڈو بولڈ‘ کی شریک بانی ایکترینا کہتی ہیں کہ ’ان خواتین کی اکثریت کو اس لیے رہائی ملی کیونکہ ان کی رہائی کے لیے ان کے آجروں کو ایک ہزار سے دو ہزار ڈالر کی رقم دی گئی تھی۔‘
’تو ان کی آزادی خریدی گئی تھی۔ یہ میرے لیے پریشان کُن ہے۔ آپ کیسے کسی اور کی آزادی خرید سکتے ہیں؟‘
ملاوی کی حکومت کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ نئے قوانین بنا رہے ہیں جس سے ملاوی کے تاریکینِ وطن کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے اور ان کے خاندانوں کو بھی فائدہ پہنچایا جا سکے۔
اس حوالے سے پیلیلانی کا کہنا ہے کہ ان کا واٹس ایپ صرف ایک سپورٹ فورم ہے جس سے اس معاملے کو اُجاگر کیا جا سکتا ہے، تاہم اصل مسئلہ ملاوی میں بےروزگاری اور غربت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ملاوی میں نوجوان لڑکیوں کو روزگار مل رہا ہو تو وہ کبھی بھی اس طرح کے چُنگل میں نہ پھنسیں۔ ہمیں اپنے ملک کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بھی ایسے دلدل میں نہ پھنسے۔‘
عمان سے واپس آنے والی جارجینا کہتی ہیں کہ ماضی میں جو ان کے ساتھ ہوا وہ بُھلانا مشکل ہے لیکن وہ ملاوی جھیل جاتی ہیں اور پانی کو دیکھ کر اپنے دل میں سکون اُترتا ہوا محسوس کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں لہروں کو دیکھتی ہوں تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ کبھی بھی زندگی ایک جیسی نہیں رہتی۔ ایک دن سب کچھ تاریخ کا حصہ بن کر رہ جائے گا۔‘
’میں سکون کی تلاش میں ہوں اور اپنی حوصلہ افزائی کرتی ہوں کہ میں پہلے جسی آزاد جارجینا دوبارہ بن جاؤں گی۔‘
- عمان کا ایک گاؤں جسے ’عرب کا ناروے‘ کہا جاتا ہے
- جنوبی افریقہ کی کچی بستی سے عمان میں قید تک: کافی پر خوبصورت ڈیزائینوں سے شروع ہونے والی ایک کہانی
- سعودی عرب کا قدیم خانہ بدوش بدو گروہ سے ملک بننے تک کا سفر
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).