جناب وجاہت مسعود صاحب قرارداد مقاصد کا کیا قصور؟


وجاہت مسعود صاحب جمہوری روایات، انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ وجاہت مسعود صاحب ان چند لکھاریوں میں شامل ہیں جن کے شاگردوں میں نام لکھوانا درویش اپنے لیے باعث فخر خیال کرتا ہے۔ جناب نہایت خوبصورتی سے اپنی بات بیان فرماتے ہیں میری حسرت ہے کہ مہلت نفس میں ان جیسی ایک تحریر ہی قلم سے برآمد ہو جائے۔ شاید فہم کی کمزوری ہے کہ استاد محترم کی گزشتہ تحریر سے کچھ الجھن پیدا ہوئی، امید ہے کہ جناب درویش کی جسارت کو گستاخی سمجھنے کی بجائے الجھن دور فرمائیں گے۔

یہ درست ہے کہ ستتر برس قبل ہمارے اجداد ایک قطعہ ارض حاصل کرنے میں کامیاب تو ہو گئے لیکن زمین کا یہ ٹکڑا پون صدی گزرنے کے بعد بھی گھر بن سکا نہ اسے حاصل کرنے والے ایک خاندان۔ ہمارے ساتھ ہی ہندوستان نے آزادی حاصل کی۔ وہاں پہلے روز ہی چند بنیادی باتوں پر اتفاق ہو گیا اور آج تک وہ اسی سمت گامزن ہیں۔ افسوس ہمارے ساتھ اس کے بر عکس معاملہ ہوا اور ہماری تاریخ حادثات اور اتفاقات سے دوچار ہوتی رہی۔ اس میں کیا شک ہے کہ بر صغیر کا بٹوارہ خالصتاً مذہبی بنیاد پر ہوا تھا۔

اب تک مگر قیام پاکستان کے مقصد کے بارے شکوک و شبہات ختم نہیں ہو رہے۔ قائداعظم نے 13 جنوری 1948 کو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے فرمایا تھا کہ ”ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کی خاطر نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصول آزما سکیں“ ۔ اس کے باوجود کبھی قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کے چند جملوں کو بنیاد بنا کر بحث چھیڑ دی جاتی ہے تو کبھی قرارداد مقاصد پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ قائد اعظم نے گیارہ اگست کی تقریر میں کہا تھا ”پاکستان میں نہ کوئی مسلم ہے، نہ ہندو نہ سکھ نہ پارسی یا عیسائی، مذہبی حوالے سے نہیں بلکہ سیاسی حوالے سے، سب پاکستانی ہیں۔ لیکن اس تقریر میں انہوں نے یہ کب کہا کہ وہ ایک سیکولر ریاست چاہتے ہیں؟ بانیان پاکستان کے پیش نظر اگر ریاست کو سیکولر بنانا ہی مقصد تھا تو پھر اس قدر خوں خرابے کی کیا ضرورت تھی؟

ہندو نمائندہ جماعت کانگریس کا موقف شروع سے یہ تھا کہ قومیں وطن سے بنتی ہیں۔ یعنی ایک جغرافیے میں رہنے والے لوگ خواہ کسی کا عقیدہ کچھ بھی ہو، ایک قوم ہوتے ہیں۔ ہندوستان کے اندر رہنے والا ہر شخص بلا تفریق مذہب ہندوستانی ہے۔ ہندوستانی ریاست سیکولر ہو گی اور ہر فرد برابر کے حقوق کا حق دار ہو گا۔ سیکولر کی تعریف یہ بیان کی جاتی ہے کہ مذہب ہر شخص کا ذاتی مسئلہ ہے اور وہ اسے خود تک محدود رکھے۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ کاروبار میں مذہبی نقطہ نظر سے بالکل بیگانہ رہے اور کسی بھی مذہبی وابستگی سے بالاتر ہو کر نظام چلائے۔

مسلم لیگ کا اصرار تھا مسلمان جداگانہ تہذیبی، ثقافتی اور سماجی تشخص رکھتے ہیں۔ ان کی مذہبی تعلیمات اجتماعی نظم و نسق کا تقاضا کرتی ہیں اور اس کی حفاظت ان کا بنیادی حق ہے۔ اس دلیل کو بنیاد بنا کر یہ مطالبہ پیش ہوا کہ جہاں جہاں مسلم اکثریت ہے، انہیں مکمل علیحدگی دی جائے یا پھر انہیں واضح خود مختاری حاصل ہو تاکہ وہ آزادانہ اپنی مذہبی تعلیمات سے اپنی اجتماعی زندگی کو مطابقت دے سکیں۔

متحدہ ہندوستان میں 1946 ء کے انتخابات میں کانگریس اور مسلم لیگ دونوں بڑی جماعتیں بن کر ابھریں۔ مسلم لیگ کے پاس مسلمان ووٹروں کی نمائندگی کا مینڈیٹ تھا اور مسلمانوں کے لئے مختص نشستوں کی بڑی تعداد اس نے حاصل کر لی تھی۔ یاد رہے کہ یہ نمائندگی مسلمانوں کے لئے مذہبی بنیادوں پر الگ ریاست کے حصول کی جد و جہد کے وعدے پر ہی حاصل کی گئی تھی۔ اس انتخاب کے بعد دونوں بڑی جماعتوں اور برطانوی حکومت کے نمائندوں کے درمیان بات چیت ہوئی جس میں برصغیر کے تصفیے کے لیے مختلف آپشن زیر غور آئے۔

بعد ازاں طے پایا کہ برصغیر کو ہندو اور مسلم اکثریت کے علاقوں میں تقسیم کر کے، دو الگ الگ ریاستیں بنا دی جائیں۔ بٹوارے سے قبل کی تاریخ سے قطع نظر صرف اس تقسیم کے نتیجے میں ہونے والی ہجرت کی خونچکاں داستان ہی مد نظر رکھی جائے تو سمجھنا مشکل نہیں کہ یہ انتظامی یا سیاسی تقسیم ہرگز نہیں تھی بلکہ یہ خالصتاً مذہبی بنیادوں پر تقسیم تھی جس کے تحت وجود میں آنی والی دو ریاستوں میں سے ایک ریاست پاکستان کا مقصد ہی مسلمان قوم کو اپنی مذہبی اقدار کے تحفظ کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا تھا۔ لیکن بد قسمتی سے اس قول سے انحراف کے نتیجے میں خواجہ ناظم الدین کے دور میں فسادات برپا ہو گئے۔ اس کے باوجود صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرنے کے بجائے سازشی عناصر نے اپنے مقاصد کے لیے دانستہ شورش کو طول دیا جس کے سبب پہلے مارشل لاء کی راہ ہموار ہوئی۔

اسی طرح پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد منظور کی جس کا کہنا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے، اور عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے اسے بروئے کار لایا جائے گا۔ یعنی یہ بھی اتفاق تھا کہ اس مملکت میں طاقت کا اصل سر چشمہ عوام ہوں گے۔ انہیں ہمیشہ یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ جسے چاہیں خود پر حکمرانی کا حق عطا کریں۔ اسی دوران بھارتی دستوریہ نے بھی اپنی ضرورت کے مطابق ایک قرارداد منظور کی۔ جس کے مطابق نظریاتی اعتبار سے ہندوستان سیکولر ریاست قرار پائی اور وہاں بھی حکمرانی کے لیے پارلیمانی جمہوری نظام چنا گیا۔

ہماری اور ان کی تاریخ بھی یکساں ہے۔ ان کے اور ہمارے مسائل و وسائل میں بھی زیادہ فرق نہیں۔ حالات و واقعات کی یکسانیت کے باوجود لیکن اپنے عہد و قرار کی پاسداری کی وجہ سے آج تک نہ تو وہاں نظام مملکت کی گاڑی پٹڑی سے اتری اور نہ ہی وہاں کوئی آپسی کشمکش نظر آئی۔ دنیا بھی اسی وجہ سے آج ان کی بات کو زیادہ اہمیت اور ہمارے بیانیے کو شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ ہمارے ہاں اگر آج تک جمہور کو حق حکمرانی نہیں ملا اور بار بار جمہوری نظام پٹری سے اترتا رہا تو اس میں قرارداد مقاصد کا کیا قصور ہے؟

دنیا کی واحد نظریاتی ریاست دولخت ہوئی تو اس کی وجہ بھی نظریاتی بحران نہیں بلکہ جمہوری رویوں کا فقدان تھا؟ کوئی بتلائے کہ گھر کے اندر اتفاق رائے پیدا کرنے سے آج تک ہمیں قرار داد مقاصد نے کس طرح روکا ہوا ہے؟ یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ جمہوری روایات اور سوچ یہاں نا پنپنے کی ذمہ دار قرارداد مقاصد نہیں بلکہ وطن عزیز پر ازل سے قابض قوتیں ہیں۔ مغرب میں بھی ہولوکاسٹ، ایل جی بی ٹی اور بہت سی چیزوں پر حساسیت پائی جاتی ہے تو پھر ہمیں چند مذہبی عقائد پر حساسیت کا حق دینے میں کیا امر مانع ہے؟

ستانوے فیصد اکثریتی آبادی کے لیے حساسیت کے حامل عقائد کی تضحیک کر کے کس طرح جمہوریت یا آزادی رائے کی خدمت ہو سکتی ہے بتلا دیا جائے۔ ہم اگر اکثریتی رائے کا احترام کرنے اور عوام کے منتخب نمائندوں کو اختیار دینے کے روادار نہیں ہوئے تو ہمیں قرارداد مقاصد سے نہیں بلکہ جمہوریت کی راہ میں اصل رکاوٹ قوت سے شکوہ کرنا ہو گا۔ خدا کو حاضر ناظر جان کر سوچیے ہمارا وجود دولخت ہونے اور چار مارشل لاء لگنے کی وجہ قرارداد مقاصد تھی؟ بانیان پاکستان نے بلا شبہ بہت مقدس خواب دیکھا تھا، مگر یہ خواب حقیقت نہیں بن سکا تو قرارداد مقاصد ذمہ دار ہے نہ وہ مقدس خواب۔ آج اگر ہم راندہ درگاہ ہیں تو اس میں بانیان پاکستان کی سوچ، نظریہ پاکستان یا نظام مملکت اسلامی بنانے کی خواہش کا کوئی دوش نہیں بلکہ قصور ہماری گروہوں میں بٹی سوچ کا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments