ڈاکٹر خالد سہیل اور ان کے ”آدرش“


ڈاکٹر خالد سہیل سے میرا تعارف اپنی پیاری تخلیق کار دوست دعا عظیمی کی بدولت ہوا۔ وہ مجھے اکثر ہی ان کی شخصیت، ان کے فلسفے اور ان کے افکار و نظریات کے گن گاتی نظر آتی تھی اور میں یہ بھی جانتی تھی کہ دعا کو بے وجہ کسی کی تعریف کرنے کی عادت نہیں ہے۔ سو اس تجسس میں، میں نے ڈاکٹر خالد سہیل کے بارے میں پڑھنے کی کوشش کی۔ یہ سلسلہ جاری تھا کہ ان کی کینیڈا سے پاکستان آنے کی خبر سنی۔ پہلے پہل پنجاب یونیورسٹی کے کتاب میلے میں بک کارنر شو روم جہلم کے سٹال پر ان سے سرسری سی ملاقات ہوئی۔

میرے تعارف پر ان کے چہرے پر بڑی اپنایت بھری مسکراہٹ نے چھب دکھلائی۔ پھر پتہ چلا کہ یہ مسکراہٹ ان کی ذات کا اٹوٹ حصہ ہے۔ میں نے بعد ازاں ان کی پانچ کتابوں کی تقریب رونمائی میں شرکت کی تو ان کی شخصیت کے کئی بھید کھلے۔ بڑے بڑے لوگوں کو ان کی شخصیت، قابلیت اور ان کی تحریروں کا اسیر پایا یہ محبت یہ اسیری بے وجہ نہیں تھی۔ دو ڈھائی گھنٹوں کی اس تقریب میں میں نے ان کی ذات سے منعکس ہونے والی روشنی کی شعاعیں اپنے ذہن و دل پر پڑتی محسوس کیں۔

گو شدید خواہش کے باوجود ان سے تفصیلی بات چیت نہ ہو پائی۔ لیکن میں دعا عظیمی کا دیا گیا ان کے کالموں کا مجموعہ ”آدرش“ اپنے ساتھ گھر لے آئی۔ آدرش جس کا مطلب بلند ترین مقصد، نصب العین یا انسان کی آخری منزل ہے۔ مشہور فلسفیوں نے انسان کے تین آدرش بتائے ہیں۔ صداقت، حسن اور نیکی۔ اور یہ کالم ان سب خوبیوں کا مظہر ہیں۔

اس کتاب نے مجھے ان کے بارے میں کافی کچھ جاننے کا موقع دیا کہ زندگی کی تمام تر مشکلات کے باوجود وہ کیسے اپنی مثبت سوچ اور اس سے پیدا ہونے والی انرجی سے بہت سی کٹھنائیوں سے نبرد آزما ہوتے آئے ہیں۔ یہ کٹھنائیاں نہ صرف ذاتی نوعیت کی تھیں بلکہ ان مریضوں کی زندگی میں بھی۔ جن کے لیے انہوں نے مسیحائی کی۔

یہ سچ ہے کہ ہم میں سے کسی کو بھی زندگی کی تصویر اپنی خواہشوں، خوابوں اور آرزوؤں کے مطابق نہیں ملتی۔
کسی تصویر میں قوس قزح کے رنگ ہوتے ہیں
تو کسی کی تصویر میں
اندھیروں کا تسلط۔
کسی کی تصویر پھیکے رنگوں کی ہوتی ہے۔
تو کوئی شوخ رنگوں سے مزین۔
کسی میں رنگ ہی نہیں ہوتے
اور کسی میں رنگوں کی بہتات۔

غرض یہ کہ پرفیکشن تو کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ مگر ڈاکٹر خالد سہیل اس قدر روشن خیال اور مثبت سوچ کے حامل ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ اپنی زندگی کی تصویر میں ہم چاہیں تو۔

تیرگی کم کر سکتے ہیں۔
دیے کی لو بڑھا سکتے ہیں۔
پھیکے رنگوں کو
شوخ رنگوں میں ڈھال سکتے ہیں۔
بس برش اور کینوس کو برتنے کا ہنر آنا چاہیے۔

”آدرش“ میں تحریر کردہ سارے کالم بہت خوبصورت اور مدلل ہیں۔ یہ نفسیاتی، ادبی، فلسفیانہ اور سیاسی کالموں پر مشتمل کتاب ہے۔ ان میں سے ہر ایک کالم پڑھنے کے لائق ہے۔ ڈاکٹر خالد سہیل کے مشاہدات و تجربات بڑے وسیع ہیں۔ وہ انسانوں کی فلاح اور ذہنی صحت کے لیے ستر کی دہائی سے مصروف عمل ہیں۔ مجھے ان کی گرین زون تھراپی نے بھی بہت متاثر کیا۔ جس کے مطابق ہم اپنی ذاتی کوشش سے اپنے پسندیدہ کام کر کے ٹینشن اور سٹریس سے بچ سکتے ہیں۔

آج کے دور ابتلاء میں ہر انسان کسی نہ کسی ذہنی عارضے اور دکھ میں مبتلا ہے۔ اسے کسی مسیحا کی تلاش ہے۔ جو اس کے دکھوں کا مداوا کر سکے۔

بقول غالب۔
ابن مریم ہوا کرے کوئی
اس درد کی دوا کرے کوئی

تو ڈاکٹر خالد سہیل سے مل کر آپ کو احساس ہوتا ہے کہ جس مسیحا کی تلاش میں ہم سرگرداں تھے وہ ہمیں مل گیا ہے۔ ان کے اخلاص اور انسانیت سے محبت کے عمل نے انہیں ”دست شفا“ عطا کر دیا ہے۔

بقول وجاہت مسعود ”ہم مقہور لوگ خطہ اشتعال کے باشندے ہیں۔ خیر گزری کہ ڈاکٹر صاحب موت کے کنویں سے ہمیشہ وہی دھیمی مسکراہٹ سجائے برآمد ہوئے جس سے ہم ایسوں کی متزلزل انسانیت کو قرار آ جاتا ہے“

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments