گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں جنسی ہراسانی اور ایک نیم پاگل خاتون کے ساتھ گینگ ریپ
گزشتہ دنوں گورنمنٹ کالج کے اسٹاف روم کی ایک ویڈیو نظروں سے گزری جو کہ اب خاصی وائرل ہو چکی ہے۔ جس میں واضح طور پر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک خاتون سٹوڈنٹ ایک پروفیسر پر کتابوں، فائلوں اور تھپڑوں سے حملہ آور ہے اور اس کے بال نوچنے کے علاوہ گالیوں کا بھی بے دریغ استعمال کر رہی ہے۔ اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد عقدہ کھلا کہ پٹنے والا شخص گورنمنٹ کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہے اور فیمیل سٹوڈنٹس کے ساتھ دل پشوری کرنا اس کا مشغلہ ہے اور جنسی طور پر بھی ہراساں کرتا ہے۔ معاملے کی سنگینی اور شدت کے رویے اور چہرے پر نمایاں تھی جس کا اظہار وہ بڑی بے باکی سے کر رہی تھی۔ معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے رئیس جامعہ ڈاکٹر احمد عدنان نے ڈاکٹر فائزہ کی قیادت میں ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو معاملے کی چھان بین کرے گی۔
سنگین واقعات کے بعد معاملے کو طول دینے یا ٹھنڈا کرنے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دینا ہمارا قومی مشغلہ ہے، رپورٹ اس وقت منظر عام پر آتی ہے جب واقعے کی گرد بیٹھ چکی ہوتی ہے۔
دوسرا واقعہ میاں چنوں شہر کے بالکل قریب پل گھراٹ میں پیش آیا، اب تک کی اطلاعات کے مطابق جس کی مزید تصدیق اور پڑتال ابھی جاری ہے۔ ایک نیم پاگل 25 سالہ خاتون کے ساتھ کچھ درندوں نے گینگ ریپ کیا اور خاتون زخمی حالت میں بے ہوش پائی گئی۔
یہ دونوں دردناک قسم واقعات ہمارے سماج کے نجس اور مکروہ چہرے کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا اس قسم کا سماج ہمارے بچے یا بچیوں کے لیے محفوظ ہو سکتا ہے؟
جنسی ہراسانی اور گینگ ریپ کے درجنوں واقعات سوشل میڈیا کے ذریعے سے سننے اور اخبارات کے توسط سے پڑھنے کو ملتے ہیں اور آخر میں ہوتا کیا ہے؟
انکوائری کمیٹی کا قیام یا والدین کو اپنی بچی کھچی عزت بچانے کے لیے اپنے ہونٹ سی لینے پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ گورنمنٹ کالج کی جس بچی کے ساتھ جنسی ہراسانی کا یہ واقعہ پیش آیا ہے اس نے بڑی بہادری، بے باکی اور اپنی جان کو داؤ پر لگاتے ہوئے اپنی سہیلیوں کی مدد سے اس جنسی درندے کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی۔ ایسا کر کے اس نے ایک طرح سے اسسٹنٹ پروفیسر کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب کیا ہے، جو استاد ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے تعلیم کے نام پر معصوم سٹوڈنٹس کا جنسی استحصال کرتا ہے۔
سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی بدولت خاصی سہولت ہو چکی ہے، خاص طور پر کیمروں کی آنکھ سے بچنا آج کے دور میں خاصا مشکل ہو چکا ہے ورنہ بہت کچھ تاریکی میں ہی رہ جاتا اور یہ کیمرے کا ہی تو کمال ہے جس کے ذریعے سے گورنمنٹ کالج کی بہادر بچی نے ایک شخص کا مکروہ چہرہ بے نقاب کیا۔ نا صرف گورنمنٹ کالج بلکہ ہمارے ملک کی اکثر یونیورسٹی سکول اور کالج میں بھی ایسے جنسی درندے پائے جاتے ہیں جو تعلیم کے نام پر اور اپنی مارکس اتھارٹی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ہماری بچیوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔
لیکن بہت سارے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے، جہاں بچیوں کو پرایا دھن تصور کرتے ہوئے معاشرے کی بھیڑ چال کا ساتھ دینے کی غرض سے مجبوراً یا چار و ناچار پڑھایا جاتا ہو اور بہت ساری بچیوں کو تو والدین یونیورسٹی اور کالج کا منہ تک بھی نہیں دیکھنے دیتے کہ کہیں ہماری بچیوں کو زمانے کی ہوا نہ لگ جائے وہاں بھلا کون سی بچی اپنا منہ کھولے گی؟
کون جرات کرے گی کہ وہ بتا پائے کہ کالج اور یونیورسٹی میں نجانے کس کس طرح سے ان کا جنسی استحصال ہوتا ہے؟ اسے منہ کھولنے کی قیمت کا بڑے اچھے سے پتا ہے، جس کی قیمت اسے تعلیم سے محرومی اور گھر کی چار دیواری میں شادی ہونے تک ایک زندہ لاش کی طرح چکانا پڑے گی۔
بچے جو مرضی کریں کون نظر رکھتا ہے؟ بلکہ اکثر والدین کو تو اپنے بیٹوں کا پہلے سے پتا ہوتا ہے مگر جان بوجھ کر خاموش رہتے ہیں لیکن جیسے ہی ان کی بچی کے ساتھ کوئی ناگوار واقعہ پیش آتا ہے یا قرب و جوار میں کوئی ایسا سانحہ ہو جاتا ہے تو والدین بچی کا حوصلہ بڑھانے یا اس کا بازو بننے کی بجائے اسے تعلیم سے ہی دور کر دیتے ہیں اور اسے گھر بٹھانے پر ترجیح دیتے ہیں۔ جب اس قسم کا رویہ بچیوں کے ساتھ برتا جائے گا تو بچیوں کے پاس آپشن کیا بچتا ہے؟ سوائے خاموش رہتے ہوئے جنسی استحصال کو چار و ناچار جھیلنا اور چند دنوں کے لیے خیرات میں ملی ہوئی آزادی کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اپنی تعلیم کو مکمل کرنا۔
یہ معاشرہ تو اتنا بدبخت ہو چکا ہے جو ایک خاتون کو اپنی کہانی یا کتھا لکھنے کی اجازت تک نہیں دیتا۔ کوئی بچی کیسے لکھے کہ جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو نجانے کتنی زہریلی نگاہیں روزانہ کی بنیاد پر ان کا تعاقب کرتی ہیں؟ نجانے کتنی ہوس ناک نگاہیں انہیں سکول، کالج اور یونیورسٹی تک چھوڑ کے آتی ہیں، یہاں تک کہ دوران سفر بس یا رکشے میں نجانے کس قسم کی حرکات و سکنات انہیں روزانہ جھیلنا پڑتی ہیں۔ جس دن کسی خاتون نے ہمت کر کے اس مکروہ سماج کی کہانی لکھ ڈالی تو یقین کریں کچھ نہیں بچے گا۔
کیسے کیسے معززین سماج ان کا جنسی استحصال کرتے ہیں؟ کیسے ہمیں دیکھتے ہی ان کے عضو تناسل پر کھجلی اور شلوار کا آزار بند ڈھیلا ہو جاتا ہے؟ کیسے حیلے بہانوں سے ہمیں چھونے کی کوشش کرتے ہیں؟ کیسے مجبور و بے بس بچیوں کو اپنا تعلیمی کیریئر بچانے کے لیے کہاں کہاں کمپرومائز کرنا پڑتا ہے؟
ایک سیکولر اور انسان دوست ہونے کی حیثیت سے ہم دنیا بھر کے تمام مذاہب کا برابر احترام کرتے ہیں اور ہمیں مذہب یا مذہبی لوگوں سے کوئی مسئلہ نہیں۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ اس قدر مذہبی و روحانی بندوبست کے باوجود بھی اگر سماج میں اخلاقی گراوٹ بڑھتی چلی جا رہی ہے تو پھر ذمہ دار کون ہے؟ جو معاشرہ تعلیم و مذہب کے نام پر چھوٹے بچے اور بچیوں کا جنسی استحصال کرتا ہو اور ایک نیم پاگل خاتون تک کو نہ چھوڑے تو سوچنا ہوگا نا! کہ خرابی کہاں پہ ہے؟
اب یہ مسئلہ ایسا تو ہے نہیں کہ صرف تبلیغ و تلقین، عبادات و ریاضت یا خانقاہی سلسلوں سے درست ہو سکے اس حوالے سے تو ہم پہلے ہی خاصے خود کفیل ہیں پھر بھی رتی بھر فرق نہیں پڑا۔ تو پھر خداوندان روحانیت کو سر جوڑنا چاہیے کہ ہماری دن رات کی اتنی زیادہ روحانی محنت رائیگاں کیوں جا رہی ہے؟ اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی اگر معاشرے کی اخلاقی سطح بلند نہیں ہو پا رہی تو پھر کہیں تو کچھ ایسا ہے جسے ہم نظر انداز کر رہے ہیں؟
اب تو یہ جواز بھی باقی نہیں رہا کہ دنیاوی اداروں سکول، کالج اور یونیورسٹی میں مبلغین یا تبلیغی لوگ وزٹ نہیں کرتے بلکہ اب تو یونیورسٹیز اور کالجز میں بھی مولانا طارق جمیل ایسے مبلغین کو خاص طور پر اساتذہ اور بچوں کی اصلاح کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی اخلاقی گراف وہیں کا وہیں اٹکا ہوا ہے۔
کڑوی حقیقت تو یہی ہے کہ صحبتوں اور فاصلوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو گورنمنٹ یونیورسٹی سے رائیونڈ زیادہ دور نہیں ہے اور میاں چنوں سے تلمبہ۔ جہاں مولانا طارق جمیل رہتے ہیں اور دن رات دین کے قافلے رواں دواں رہتے ہیں۔ اس کے باوجود نیم پاگل بچی کے ساتھ گینگ ریپ کا جو دردناک واقعہ پیش آیا ہے وہ علاقہ تلمبہ سے ملحقہ ہے۔
Latest posts by عبدالستار (میاں چنوں) (see all)
- اوئے بچی چیک کر ذرا، کیا غضب مال ہے - 13/09/2024
- میاں چنوں کے ایک بزرگ شہری کو خواب میں حضرت داتا گنج بخش کا دیدار - 08/09/2024
- ہمارے سماج کے ”عریاں“ دانش گرد - 05/09/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).