زندگی کا مزا تو کھانے میں ہے


ایسا لگتا ہے کہ یہ جملہ پاکستان کی مختصر ترین تاریخ بیان کرتا ہے۔ یہ ہر صاحب حیثیت اور صاحب اقتدار کا مستقل بیانیہ بھی ہے۔ میری بات بات پہ یقین نہ آئے تو بڑے بڑے گدی نشینوں سے پوچھ لیں یا پھر ہر پانچ کلومیٹر کے فاصلے پہ بنے دربار کے متولی سے پوچھ لیں، دینی یا عصری ادارے کے مہتمم حضرات سے پوچھ لیں، سرکاری با اختیار افسران و اہل کاران سے پوچھ لیں، پرائیویٹ سکولوں کے مالکان سے پوچھ لیں، پرائیویٹ کالج اور یونیورسٹی بنانے والوں سے پوچھ لیں، سرکاری یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی ڈاکٹران سے پوچھ لیں، امتحانی پرچے چیک کرنے والوں سے پوچھ لیں، تعلیمی بورڈ کے کنٹرولرز، سیکریٹری اور چیئرمینوں سے پوچھ لیں، سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹروں اور پرائیویٹ ہسپتال کے مالکان سے پوچھ لیں، واپڈا کے بے شک میٹر ریڈر ہی سے پوچھ لیں اوپر والے تو ویسے ہی جنت ارضی میں رہتے ہیں جن کی نعمتوں کا شمار نیب سے بھی نہ ممکن ہے۔

الیکشن کے دنوں میں ووٹرز سے پوچھ لیں جو ایک ڈبے بریانی کے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کی کوشش کر رہا ہو تا ہے، اور جو الیکشن کے انعقاد کے بعد بس دھکے ہی کھاتے ہیں۔ الیکشن میں انویسٹمنٹ کرنے والے سپورٹر سے پوچھ لیں، سیلاب اور آفات سماوی کے دوران چندہ اکٹھی کرنے والی خیر خواہ انجمنوں اور این جی اوز سے پوچھ لیں، سابقہ وزراء اعظموں سے پوچھ لیں، سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں سے پوچھ لیں جو کروڑوں لے کر ٹکٹ دیتے ہیں، اداروں کے بڑوں سے پوچھ لیں کہ کھانے میں کتنا مزا ہے۔

ڈیم کی چوکیداری کرنے والے سے پوچھ لیں، گڈ ٹوسی یو کہنے والوں سے پوچھ لیں، توشہ خانے والوں سے سے پوچھ لیں، رئیل اسٹیٹ کے ڈانوں سے پوچھ لیں (مگر یہاں پر معاملہ دونوں طرف لگی آگ والا ہے کہ کھانے سے پہلے کھلانا بھی پڑتا ہے ) ذخیرہ اندوزوں سے پوچھ لیں اور ان کی سرپرستی کرنے والے سیاستدانوں سے پوچھ لیں۔ بلوچستان کے ایک سابقہ بیوروکریٹ سے پوچھ لیں جس کے گھر سے نکلے نوٹ مشینیں کئی دن تک گنتی رہی۔ جسے سزا تو نہ ہو سکی مگر ایک پارٹی کا ٹکٹ مل گیا کہ وہ اس پارٹی کو بھی اتنا کھانے اور پھر ہضم کرنے کا طریقہ کار بھی بتائے، ان پولیس اہلکاروں سے پوچھ لیں جن کے چنگل سے بڑے بڑے قاتل چھوٹ جاتے ہیں اور کمزور بے بس پھانسی کے پھندے تک پہنچ جاتے ہیں۔

ان یو ٹیوبرز سے پوچھ لیں جو ہمیشہ جھوٹ بول کر ہی کھاتے ہیں، اپنے کام کو چھوڑ کر دوسروں کے کام میں ٹانگ اڑانے والے انجنیئر سے پوچھ لیں، مائکروفون میں دم کر کے کھانے والوں سے پوچھ لیں، ممبر پر بیٹھ کر مزاح اور تفریح کا سامان کرنے والوں سے پوچھ لیں۔ لہک لہک کر سیاست دان کو پروموٹ کرنے والے ملاں سے پوچھ لیں، ، جوا لگانے والے کھلاڑیوں اور ان کے بکیوں سے پوچھ لیں، نام نہاد پاکستانی صحافیوں سے پوچھ لیں جو مینیج ہو کر کوے کو سفید ثابت کر کے ہی خوش ہوتے ہیں۔

، ٹی وی چینلز کے مالکان سے پوچھ لیں، اخبار کے مالکان سے پوچھ لیں جو پرانی سائیکل پہ اخبار بیچنے سے شروع کرتے اور جہاز سازی کے ادارے تک پہنچ جاتے ہیں، ریلوے، پی آئی اے سٹیل ملز کے سربراہوں سے پوچھ لیں، بیرون ملک جزیرے خریدنے والوں سے پوچھ لیں، نوکری مکمل کر کے بیرون ملک ڈیرے جمانے والوں سے پوچھ لیں، وہ سب آپ کو یک زبان یک جان ہو کر ببانگ دہل یہی جواب دیں گے کہ جی واقعی زندگی کا مزہ تو کھانے میں ہے۔ اگر ان کی بات پر یقین نہ آئے تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سے پوچھ لیں یا کسی بھی عالمی اعداد و شمار دینے والے ادارے سے پوچھ لیں۔ ورلڈ جسٹس پراجیکٹ سے پوچھ لیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں سے پوچھ لیں تو سب کچھ واضح ہو جائے گا کہ زندگی کا مزہ تو کھانے میں ہی ہے۔

ایک پاکستان اور اتنے سارے مزے لینے والے پھر مزے کی بات کہ یہ سب پاکستان کو کھا کے زندگی کے مزے تو لوٹ رہے ہیں مگر اس ملک کو کچھ دینے کو تیار نہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ جنہیں کھانے کا موقع ہی نہیں ملتا! وہ بیچارے تو بس نیک اور نیک عنوان بننے کا دکھاوا کرتے کرتے ہی اس جہاں فانی سے، دار فانی سے حسرتیں بے شمار لے کر جہان باقی رحلت فرما کر ثواب دارین حاصل کر لیتے ہیں۔ ہاں کچھ ایسے ضرور ہیں جو ایسے موقع سے بھی فائدہ نہیں اٹھاتے اور بے وقوف محب الوطن بنے رہتے ہیں۔ نہ وہ خود کھانے کا مزہ لیتے ہیں اور نہ ہی وہ دوسروں کو مزے لینے دیتے ہیں۔ ایسے لوگ پاکستان میں کیوں پیدا ہو جاتے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments