گود لیے گئے بچے کی اسلامی حیثیت


کیمبرج ڈکشنری کے مطابق ”ایک گود لینے والے بچے کو قانونی طور پر دوسرے خاندان نے اپنے بچے کے طور پر سنبھالنے کے لیے لے لیا ہے۔“

گود لینے والا بچہ دو زمروں میں آتا ہے ؛
1) خون کا رشتہ (محرم)
2) دوسرا: نامحرم

اگر کوئی باپ/ماں اپنی بھانجی/بھتیجے کو گود لے۔ اس صورت میں باپ/بچہ یا ماں /بچہ ایک دوسرے کے محرم ہیں۔

دوسری صورت میں محرم کا جزو غائب ہے۔
حقوق و حدود

1) تمام گود لیے ہوئے بچوں کے یکساں حقوق ہیں۔ مثال کے طور پر وہ اچھے اور صحت مند ماحول، اپنے بچے کی طرح تعلیم کے حقدار ہیں لیکن وہ قرآن پاک کی روشنی میں گود لینے والے باپ کا نام نہیں لے سکتے ( 33 : 4۔ 5 ) ۔ جیسا کہ وہ گود لیا ہوا بچہ ہے اور نہ ہی حیاتیاتی بیٹا ہے۔

2) جائیداد کا حق

گود لینے والے بچے کو ان کے گود لینے والے والدین کی جائیداد میں حق نہیں ہے۔ سوائے محرم کے بچے کے معاملے میں، جب گود لینے والے والدین بے اولاد ہوں اور اس کی موت کے بعد اگر جائیداد شریعت میں اس کے بھائی/ بہنوں کو مل رہی ہے اگر اس کا کوئی اولاد نہیں تھا، تو اس بچے کو اس کے والدین کے توسل سے کچھ مل سکتا ہے۔

تاہم پالنے والا اپنی زندگی میں 1 / 3 پوری ملکیت سے گفٹ (حبہ ) گود لیے بچے کے لیے وصیت کر سکتا ہے، اس پر کوئی ممانعت نہ شریعت میں اور نہ قانون میں ہے۔

جب بات نامحرم کی آ جائے تو اس بچے اور پالنے والے کے درمیان پردہ کا اطلاق ہو گا۔

پاکستان میں یہ روایت دیکھی گئی ہے کہ ایک بچہ جو گود لیا جاتا ہے اس بچے کے شناختی کارڈ اور بے فارم پر گود لینے والے باپ کا نام لکھوایا جاتا ہے جو کہ اسلامی قوانین کے خلاف ہے۔

بچے کو گود لیتے وقت کچھ اہم قوانین کو مد نظر رکھنا چاہیے، جیسا کہ بچہ یا بچی کیسے ایک نامحرم ہے ساتھ رہ سکتے ہیں اگر گود لینے والا، بچے کے لیے نامحرم ہو، فرض کریں ایک پھپھو ایک بچی کو گود لیتی ہے تو پھپھو کا شوہر اس بچی ہے لیے نامحرم ہو گا۔ اور نامحرم کے ساتھ رہنے کی اسلام میں ممانعت ہے۔

چونکہ پاکستان ایک اسلامک ملک ہے، اور ہمارا آئین پاکستان اسلامی رو سے زندگی گزارنے حکم دیتا ہے، اور مسلمان کی حیثیت سے پاکستانی قوم کو قرآن و سنت پر عمل پیرا ہونے کے پابند ہیں۔

جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اس کے پیدائش کے ساتھ اس کے حقوق بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ اسلامی ممالک میں کچھ ممالک کے اپنے قوانین یا رسومات ہوتی ہیں، جیسا کہ عرب میں اسلام آنے سے پہلے روایت تھی کہ بچے کو پیدا ہوتے ہی دائیاں کچھ عرصے کے لیے بچے کی دیکھ بھال کرتی تھی اور بچوں کو معاوضے کے عیوض عربی اور کچھ اسکلز سکھاتی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دائی بیبی حلیمہ تھی وہ آپ ﷺ کی رضاعی والدہ تھی اور رضاعیت سے

نامحرم والا عناصر ختم ہوجاتا ہے۔

تاہم پاکستان میں یہ روایت پائی جاتی ہے کہ جب بچے کو گود لینے کا ارادہ کیا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ بچہ اس کا ہوا، فلان بندہ اس کو پالے گا۔

قطعی نظر اس کے کہ اگر بیٹی ہے تو کیسے نامحرم کے ساتھ رہ سکتی ہے۔

اگر لے پالک لڑکا ہے اور پالنے والی، اس لڑکی کے رشتے میں ماں کی بہن یعنی ( خالہ) یا پھپھو ہیں تو وہ لڑکا بڑا ہو کر ان عورتوں کے لیے نامحرم نہیں ہو گا، اور لے پالک چاچی اور ممانی کے پالنے کی صورت میں نامحرم رہے گا۔

اور لڑکی کو اگر پالنے والی ممانی یا چاچی ہیں تو ان کے شوہر لڑکی کے چاچا اور ماما لڑکی کے محرم ہیں، ان کے ساتھ وہ بچی رہ سکتی ہے لیکن وہ بھی بچی کے سرپرست رہیں گے ان کا نام بچے کے باپ کے طور پر نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس کی قرآن پاک میں ممانعت ہے۔

سورت احزاب پارہ نمبر 21
قرآن پاک میں ہے ؛

مَّا جَعَلَ ٱللَّھُ لِرَجُلٍۢ مِّن قَلْبَیْنِ فِى جَوْفِھِۦ ۚ وَمَا جَعَلَ اَزْوَٰجَکُمُ ٱلَّ۔ ٰٓ۔ ِٔى تُظَ۔ ٰھِرُونَ مِنْھُنَّ اُمَّھَ۔ ٰتِکُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ اَدْعِیَآءَکُمْ اَبْنَآءَکُمْ ۚ ذَٰلِکُمْ قَوْلُکُم بِاَفْوَٰھِکُمْ ۖ وَٱللَّھُ یَقُولُ ٱلْحَقَّ وَھُوَ یَھْدِى ٱلسَّبِیلَ

ٱدْعُوھُمْ لِ۔ َٔابَآئِھِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِندَ ٱللَّھِ ۚ فَاِن لَّمْ تَعْلَمُوٓا۟ ءَابَآءَھُمْ فَاِخْوَٰنُکُمْ فِى ٱلدِّینِ وَمَوَٰلِیکُمْ ۚ وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌۭ فِیمَآ اَخْطَاْتُم بِھِۦ وَلَ۔ ٰکِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُکُمْ ۚ وَکَانَ ٱللَّھُ غَفُورًۭا رَّحِیماً 5

ٱلنَّبِىُّ اَوْلَىٰ بِٱلْمُؤْمِنِینَ مِنْ اَنفُسِھِمْ ۖ وَاَزْوَٰجُھُۥٓ اُمَّھَ۔ ٰتُھُمْ ۗ وَاُو۟لُوا۟ ٱلْاَرْحَامِ بَعْضُھُمْ اَوْلَىٰ بِبَعْضٍۢ فِى کِتَ۔ ٰبِ ٱللَّھِ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِینَ وَٱلْمُھَ۔ ٰجِرِینَ اِلَّآ اَن تَفْعَلُوٓا۟ اِلَىٰٓ اَوْلِیَآئِکُم مَّعْرُوفًۭا ۚ کَانَ ذَٰلِکَ فِى ٱلْکِتَ۔ ٰبِ مَسْطُورًۭا

اللہ کسی کے سینے میں دو دل نہیں رکھتا۔ نہ ہی وہ تمہاری بیویوں کو تمہاری حقیقی ماؤں کی طرح تمہارے لیے حرام سمجھتا ہے، یہاں تک کہ اگر تم کہتے ہو کہ وہ ہیں۔ لیکن اللہ حق کا اعلان کرتا ہے، اور وہ اکیلا ہی سیدھی راہ دکھاتا ہے۔

اپنے گود لیے ہوئے بچوں کو ان کے خاندانی نام رکھنے دیں۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ جائز ہے۔ لیکن اگر تم ان کے باپوں کو نہیں جانتے تو وہ صرف تمہارے ہم خیال اور قریبی ساتھی ہیں۔ آپ جو غلطی سے کرتے ہیں اس میں آپ پر کوئی الزام نہیں ہے، لیکن صرف اس کے لئے جو آپ جان بوجھ کر کرتے ہیں۔ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

نبی کا مومنوں کے ساتھ اپنی نسبت زیادہ مضبوط تعلق ہے۔ اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔ جیسا کہ اللہ کا حکم ہے، خون کے رشتہ دار دوسرے مومنوں اور مہاجرین کے مقابلے میں وراثت کے زیادہ حقدار ہیں، الا یہ کہ آپ وصیت کے ذریعے اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیں

وراثت

کوئی بھی مسلمان جو کہ ملکیت کا حقیقی وارث ہو وہ اپنی ملکیت سے 1 / 3 ملکیت کسی کو بھی حبہ کر سکتا ہے، اس صورت میں گود کیے بچے کو ملکیت حبہ کی جا سکتی ہے، تاہم وراثت کا حقدار گود کیا بچہ نہیں۔

سرپرست یا باپ

گود لیا بچے کو اس کے حقیقی والد سے بلایا جانا چاہیے، اگر پالنے والا اپنا نام لے پالک بچے کو دیتے ہیں تو یہ اسلامی قوانین کے خلاف ہے، اور حضرت زید کا قصہ بھی مشہور ہے، جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیٹا بولا تھا لیکن قرآن پاک میں حکم آیا کہ حضرت زید حقیقتی بیٹا نہیں۔

تو جو بھی مسلمان کسی بچی کو گود لینے کا سوچ رہے ہیں ان کو یہ اسلامی روایات مدنظر رکھنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments