صلیبیں اپنی اپنی (8)
”میں تمہیں ایک نیا حکم دیتا ہوں کہ ایک دوسرے سے محبت رکھو کہ جیسے میں نے تم سے محبت رکھی تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔ اگر آپس میں محبت رکھو گے تو سب جانیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو۔“ یُوحناّ 13 : 34۔ 35
میں جیسے ہی انکل شاہد کی گلی میں مڑا، ان کے گھر سے شور کی آواز سنائی دی۔ جوں جوں میں نزدیک پہنچا، شور بڑھتا گیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ بہت سے لوگ ایک ساتھ بول رہے ہیں۔ دروازے پر پہنچ کر میں نے زنجیر بجائی مگر اس شور میں کس کو سنائی دیتی۔ میں نے آگے بڑھ کر دروازے میں لٹکی ہوئی رلّی کو ایک طرف سے ہٹا کر اندر جھانکا۔ برآمدے اور صحن میں کم از کم چالیس پچاس لڑکیاں لڑکے جمع تھے اور میں کسی سے واقف نہیں تھا۔ البتہ دور کونے میں پیٹر کچھ لوگوں کے ساتھ محو گفتگو تھے۔
پیٹر سے میری ملاقات چرچ میں ان کی بچی کے بپتِسمہ کے موقع پر ہوئی تھی اور وہ بھی سرسری سی۔ ممکن ہے کہ وہ مجھے پہچانیں بھی نا۔ لوگ تین تین چار چار کی ٹولیوں میں بٹے ہوئے تھے اور سب ایک ساتھ چیخ چیخ کر بول رہے تھے۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ زیادہ تر لوگوں کے ہاتھوں میں پاکولا کی بوتل تھی۔ میں دروازے کے پاس کھڑا سوچتا رہا کہ واپس چلا جاؤں کیوں کہ اس پارٹی میں بِن بلایا مہمان نہیں بننا چاہتا تھا۔
سامنے ہی باورچی خانے میں آنٹی نے کڑھائی چڑھا رکھی تھی اور میٹھی پوریاں تل رہی تھیں۔ میں نے انہیں سلام کیا تو بولیں، ”سوری سر، کل اتوار تھا اس لیے ہم لوگ آپ کو مطلع نہیں کرسکے۔ مریم اچانک پہنچ گئی اور آج اس کے دوستوں نے دھاوا بول دیا۔ بچے بھی ادھر ادھر ہو گئے ہیں۔“
”کوئی بات نہیں آنٹی، میں بھی مریم سے مل لوں گا۔“
”لیں، وہ خود ہی آ گئی،“ انہوں نے کہا۔
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک دبلی پتلی لڑکی ہاتھ میں خالی ٹرے لیے ہوئے، سامنے کھڑی مجھے اپنی چھوٹی چھوٹی گول آنکھوں سے گھور رہی تھی۔ اس کی مسکراہٹ میں شرارت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اس نے میرے سراپا کا کئی بار جائزہ لیا اور بولی، ”اچھا، تو یہ آپ ہیں،“ اس نے ”آپ“ پر خاصا زور دیا۔
”جی، یہ میں ہی ہوں،“ میں نے بھی ”میں“ پر اتنا ہی زور دیا۔
پھر وہ دو قدم پیچھے ہٹی اور ایک بار پھر مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا۔
”آپ تو اس طرح میرا معائنہ کر رہی ہیں جیسے قصائی گائے خریدتے وقت کرتا ہے،“ میں نے کہا۔
”اونہہ ہونہہ! مجھے اندازہ نہیں تھا کہ آپ میں حِس مزاح کا فقدان ہے،“ اس نے برا سا منہ بنا کر کہا، ”میں تو اس طرح آپ کا جائزہ لے رہی تھی جیسے آرٹ گیلری میں کسی بیش بہا پینٹنگ کا معائنہ کیا جاتا ہے۔“
”اوہ، آپ کو اندازہ نہیں کہ آپ کی یہ مدح سرائی مجھے کتنے دن ساتویں آسمان پر رکھے گی“ میں نے بھی تُرکی بہ تُرکی جواب دیا۔
”میرے بہن بھائی تو یہی سمجھتے ہیں کہ آپ ہر روز ساتویں آسمان سے صرف انہیں پڑھانے کے لیے اترتے ہیں،“ مریم نے کہا۔
”اچھا ہے، سمجھنے دیں۔ جب وہ میری شاگردی سے نکلیں گے تو میں خود ان پر یہ راز کھول دوں گا کہ میرا گوشت پوست بھی اسی مٹی کا ہے۔“
”شعر بھی کہہ لیتے ہیں؟“
”نہیں، لیکن اگر مقابل کا مزاج شاعرانہ ہو تو شعر خود بخود نازل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔“
مجھے اپنی پشت پر آنٹی کا قہقہہ سنائی دیا، ”معلوم ہوتا ہے کہ تم لوگ اتنے بڑے بڑے الفاظ بول کر ایک دوسرے پر رعب ڈالنے کی کوشش کر رہے ہو۔“
”نہیں آنٹی، میں تو صرف آپ کی بھتیجی کا ساتھ دے رہا ہوں۔“
”اچھا، تو اب آپ میری تعریف کر کے مجھے رام کریں گے،“ مریم نے کہا اور خالی ٹرے آنٹی کی طرف بڑھا دی۔ انہوں نے گرم گرم پوریوں سے بھر کر اسے دے دی۔
ایک لڑکی مریم کے پیچھے کھڑی ہوئی ہماری گفتگو ختم ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔ جب اس سے صبر نہیں ہوا تو اس نے مریم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا، ”آ جاؤ بھئی تمہارا انتظار ہو رہا ہے۔“
”اوہ، یہ فرخندہ ہے،“ مریم نے کہا۔
”جی، میرا نام پرویز ہے،“ میں نے خفیف سا جھک کر اپنا تعارف کرایا۔
”لو، تم یہ پوریاں لے چلو، میں ذرا پرویز صاحب کو پڑھ کر آتی ہوں،“ مریم نے کہا اور فرخندہ پوریوں کی ٹرے لے کر واپس پلٹ گئی۔ ہم دونوں بھی اس کے پیچھے چل دیے۔
”کیا آپ سمجھتی ہیں کہ میں کوئی شارٹ اسٹوری ہوں کہ فٹافٹ پڑھ کر کتاب بند کر دیں گی؟“ میں نے رُک کر پوچھا۔
”نہیں، میں تو آپ کو دیوان شمس تبریزی سمجھتی ہوں جس پر عبور حاصل کرنے کے لیے حیات جاوداں درکار ہے۔“
”اب آپ مجھے اپنی فارسی دانی سے مرعوب کریں گی۔“
”چھی چھی، یہ کیا لفظ استعمال کر دیا،“ مریم نے اپنی ناک کو دباتے ہوئے کہا، ”یہ فارسی دانی کیا کوئی شے از قسم سرمہ دانی ہے جس میں فارسی رکھی جاتی ہے؟“
”آپ، لوگوں کو لا جواب کرنے کے فن میں بھی طاق ہیں، ویسا میرا مشورہ ہے کہ آپ مجھ پر عبور حاصل کرنے کا خیال دل سے نکال دیں کیوں کہ آج تک تو کوئی کامیاب نہیں ہوا۔“
”دس سال ہوئے، سر ایڈمنڈ ہلیری کی مہم سے پہلے ماؤنٹ ایوریسٹ بھی یہی کہتا تھا۔“
”مجھے کچھ شک ہونے لگا ہے کہ آپ میرے ساتھ فلرٹ کر رہی ہیں۔“
”اگر آپ اپنے شک کو یقین میں بدلنا چاہیں تو میری طرف سے اجازت ہے۔“
”تو آپ واقعی فلرٹ کر رہی ہیں؟“
”جی۔“
”مگر کیوں؟“
”کیا حرج ہے؟“
”مقصد؟“
”تفریح۔“
”اور اگر آپ سنجیدہ ہو گئیں تو؟“
”آج تک تو نہیں ہوئی۔“
”اور اگر میں سنجیدہ ہو گیا تو؟“
”تو کون سی قیامت آ جائے گی؟“
”آپ سمجھتی ہیں کہ کچھ ہو گا ہی نہیں؟“
”زیادہ سے زیادہ دل ٹوٹ جائے گا۔“
”اور آپ کے نزدیک دل ٹوٹنے کی کوئی اہمیت نہیں؟“
”دل کوئی شیشہ تھوڑا ہی ہے کہ دوبارہ نہیں جُڑ سکتا۔“
آپ اذیت پسند بھی ہیں۔ ”
”میں حقیقت پسند ہوں، خواہ حقیقت کتنی ہی اذیت ناک ہو۔“
”تو کتنوں کے دل توڑے؟“
”میں کسی کا دل توڑنا گناہ سمجھتی ہوں۔“
”تو پھر؟“
”کچھ لوگوں کے دل ٹافی کی طرح بڑے زود شکن ہوتے ہیں۔ ڈاڑھوں کے ہلکے سے دباؤ سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔“
”اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے ساتھ دوستی کرنے کے لیے لوہے کا دل ہونا چاہیے۔“
”کھونٹے سے بندھ گئے ہیں؟“ اس نے میری بات کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔
”ابھی نہیں۔“
”تھان مل گیا ہے؟“
”جی۔“
”نام کیا ہے؟“
” نجم السحر۔“
”یعنی صبح کا ستارہ؟“
”جی۔“
”اچھی ہے؟“
”جی۔“
”کب سے جانتے ہیں؟“
”ابھی پیدا نہیں ہوئی۔“
”تو پھر نام بدل دیں۔“
”کیوں؟“
”کیوں کہ صبح کا ستارہ تو پَو پھٹتے ہی ڈوب جاتا ہے۔“
”مگر صبحِ نو کا پیغام دے جاتا ہے۔“
مریم میری طرف دیکھ کر مسکرائی مگر کچھ بولی نہیں، معلوم ہوتا تھا کہ جواب سوچ رہی ہو۔
”عشق وشق تو نہیں کرتے؟“ آخر اس نے پوچھا۔
”ارے توبہ کریں،“ میں نے کانوں پر ہاتھ رکھ کر جواب دیا۔
”پھر تو دوستی ہو سکتی ہے،“ اس نے مسکرا کر کہا۔
”میں بھی اسی نتیجے پر پہنچا ہوں۔ “
”چلیں، ایک دوسرے کو مرعوب کرنے کا مرحلہ تو طے ہو گیا،“ اس نے کچھ توقف کے بعد کہا۔
”شکر ہے کہ مجھے پسینہ آنے سے پہلے ہی طے ہو گیا،“ میں نے کہا۔
”میں آپ سے مرعوب ہو گئی اور امید ہے کہ آپ بھی مجھ سے مرعوب ہو گئے ہوں گے۔“
”ایسا ویسا، خصوصاً میں آپ کی اردو سے بے حد مرعوب ہوا ہوں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ کونوینٹ کی پڑھی ہوئی لڑکی کو اردو پر اتنا عبور ہے۔“
”دراصل میں نے اردو میں آنرز کیا ہے اور آگے چل کر میرا ارادہ بائبل کے اردو ترجمے پر تحقیق کرنے کا ہے۔“
”آپ نے بڑا اچھا موضوع چنا ہے۔ میں تو جب بھی بائبل کا مطالعہ کرتا ہوں تو ان لوگوں کی علمیت کا احساس ہوتا ہے جنہوں نے بائبل کا ترجمہ کیا ہے۔“
”مجھے تو آپ سے مل کر بڑی خوشی ہو رہی ہے کہ یہاں کوئی تو ہے جس سے ڈھنگ کی گفتگو ہو سکے گی،“ مریم نے کہا، ”آئیے میں آپ کو اپنے دوستوں سے ملاتی ہوں۔“
”شکریہ مریم، آپ دوستوں کی خاطر کریں، مجھے کہیں اور بھی جانا ہے،“ میں نے کہا۔
”ارے کیوں، ابھی تو آپ سے باتیں کرنی ہیں۔“
”ہماری ملاقات ہوتی رہے گی، آج آپ اپنے مہمانوں کی تواضع کریں۔“
”اب تو میں یہیں آ گئی ہوں، ملاقات ہوتی رہے گی،“ مریم نے کہا۔
”آپ سے مل کر واقعی بڑی خوشی ہوئی۔“
”تو کل تو آپ آرہے ہیں نا؟“ مریم نے پوچھا۔
”نہیں، یہاں کل سے ایک ہفتے کی اسکولوں کی چھٹیاں ہیں۔ میں نے بھی بچوں کو ایک ہفتے کی چھٹی دے دی ہے۔ اگلے پیر کو ملاقات ہوگی۔“
”لیں، اب آپ مجھے ایک ہفتہ انتظار کروائیں گے۔ ابھی تو میں نے آپ کو ڈھنگ سے نہ سونگھا ہے نہ چکھا ہے۔“
”اطمینان سے سونگھ بھی لیجیے گا اور چکھ بھی لیجیے گا۔ اگر جلدی کریں گی تو ممکن ہے کہ ابکائی آ جائے۔“
”اونہہ ہونہہ، پھر وہی بدذوقی کا مظاہرہ!“
”کیوں؟ ابکائی میں کون سی بدذوقی ہے۔ آپ کتنی ہی باذوق کیوں نہ ہوں، اگر ابکائی والی بات ہوگی تو ضرور ابکائی آئے گی۔“
”مگر برسرعام اس کا تذکرہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟“
”میری خواہش تو بس اتنی سی ہے کہ آپ مجھے اطمینان سے چٹخارے لے لے کر چکھیں۔“
”کہیں ہماری گفتگو میں عصمت چغتائی تو داخل نہیں ہو رہی ہیں؟“ مریم نے ذرا پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔
”تماشائی جو نتیجہ چاہے اخذ کر لے مگر تماشے کی حقیقت تو صرف تماشا گر ہی جانتا ہے،“ میں نے جواب دیا۔
”واہ، یہ جملہ تو سونے کے تار سے ریشم پر کاڑھے جانے کے قابل ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اب آپ مجھ پر اپنے فلسفہ کا رعب ڈالیں گے۔“
گزرتے ہوئے میں نے آنٹی کو خداحافظ کہا جو اس وقت بھی باورچی خانے میں بیٹھی پوریاں تل رہی تھیں۔
”کیوں سر، آپ جا رہے ہیں؟“
”جی آنٹی، مجھے ابھی ایک دو کام اور بھی کرنے ہیں۔“
مریم دروازے تک مجھے چھوڑنے کے لیے آئی اور جب میں اسے خداحافظ کہہ کر نکلا تو اطمینان کا سانس لیا۔ بڑی تیز لڑکی تھی اور اسے ہینڈل کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں تھی۔ میں نے سوچا کہ دانی ایک غلط لڑکی پر عاشق ہو گیا ہے۔ میں اسے بتا دوں گا کہ مریم تو اسے چوراہے پر کھڑے کھڑے بیچ ڈالے گی اور اسے پتا بھی نہیں چلے گا۔
(جاری ہے)
- صلیبیں اپنی اپنی، قسط نمبر 36 : بوئنگ707 - 17/03/2025
- صلیبیں اپنی اپنی، قسط نمبر 35 : فرار - 03/03/2025
- صلیبیں اپنی اپنی، قسط نمبر 34 : احساسِ محرومی - 17/02/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).