رائے ونڈ کا کھمبا اور سرگودھا کا ’نذیر مسیح‘
3 جون کو لاہور میں دن بھر درجہ حرارت 43 ڈگری سینٹی گریڈ کے آس پاس رہا۔ شام ڈھلے گرد و غبار کے ساتھ درمیانے درجے کی آندھی چلی۔ کچھ چھینٹے بھی پڑے۔ بجلی چلی گئی۔ خیال تھا کہ واپڈا نے حسب معمول بادل کا ٹکڑا دیکھتے ہی احتیاطاً بجلی منقطع کر دی ہو گی۔ کئی گھنٹے گزر گئے۔ نصف شب کے بعد معلوم ہوا کہ رائے ونڈ روڈ پر ایک کھمبا آندھی کی تاب نہ لاتے ہوئے زمین بوس ہو گیا ہے۔ اب اسے دوبارہ نصب کر کے بجلی بحال ہو سکے گی۔ چھت تلے گرمی اور حبس کو ناقابل برداشت پا کر صحن میں آن بیٹھا اور وقت گزارنے کے لیے موبائل فون پر خبریں پڑھنے لگا۔ ایک خبر پڑھ کر میں نے سامنے والی کرسی پر اونگھتی تنویر جہاں سے کہا کہ سرگودھا کا ’نذیر مسیح‘ مر گیا۔ تجربہ بتاتا ہے کہ سرگودھا میں اشتعال فروش ملاﺅں اور کندہ ناتراش یوتھ کے ہاتھوں گھنٹوں تک اینٹوں، ڈنڈوں اور لوہے کی سلاخوں سے مضروب ہونے والا نذیر مسیح غالباً کئی روز پہلے پنڈی ہسپتال میں دم توڑ چکا تھا۔ اب معاملہ ٹھنڈا ہونے کے بعد موت ظاہر کر دی گئی ہے۔ صبح کے اخبار میں یہ خبر اندر کے صفحات میں شائع کر کے خانہ پری کر دی جائے گی۔ ’یہ خون خاک نشیناں تھا، رزق خاک ہوا‘۔ فیض صاحب نے یہ نظم 4 جنوری 1965 کو گوہر ایوب اور اس کے حواری غنڈوں کے ہاتھوں کراچی میں مرنے والے بے چہرہ عوام کے لیے لکھی تھی جن پر فاطمہ جناح کو ووٹ دینے کا شبہ تھا۔
میرا گمان درست نکلا۔ صبح کے اخبار میں خبر کا متن میرے خدشات کے عین مطابق تھا۔ یک کالمی خبر کا متن کچھ یوں تھا۔ ’سرگودھا مجاہد کالونی میں 25 مئی کو توہین مذہب کے بعد مشتعل مظاہرین کی طرف سے تشدد کا نشانہ بننے والا 72 سالہ نذیر مسیح راولپنڈی کے اسپتال میں دم توڑ گیا، نذیر مسیح کی لاش ڈی ایچ کیو ٹیچنگ اسپتال سرگودھا لائی گئی جہاں اس کا پوسٹ مارٹم کیا گیا اور لاش ورثا کے حوالے کی گئی۔ پولیس کی سخت سکیورٹی میں نذیر مسیح کی مذہبی رسومات ادا کرنے کے بعد اسے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے‘۔ قصہ ختم۔ اتفاق سے اخبار کے صفحہ اول پر پاکستانی شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کے ذمہ دار وزیر داخلہ محسن نقوی کی ویٹی کن میں پوپ فرانسس سے ملاقات کی خبر کا متن بھی قابل توجہ ہے۔ ’ویٹی کن میں وزیر داخلہ محسن نقوی نے مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس سے ملاقات کی ہے۔ پوپ فرانسس نے سانحہ جڑانوالہ کے بعد گرجا گھروں کی فوری تعمیر و مرمت کے کام کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے عوام کے لیے میرا پیغام امن کا ہے۔ محسن نقوی نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے، پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی قوم اور افواج کی قربانیوں کی نظیر نہیں ملتی‘۔ اس خبر کو پڑھتے ہوئے مجھ کم نصیب کو اپنا ’زمانہ انقلاب‘ یاد آیا۔ ماسکو نیوز اور چین باتصویر میں قیمہ کرنے کی مشین سے نکلی ہوئی یکسانیت اور یبوست سے معمور تحریریں یاد آئیں۔ عوام پر ریاست کی بالادستی کا اظہار وہ رستا ہوا زخم ہے جس پر کمپنی بہادر کا ’وفادار‘ صحافی پردہ نہیں ڈال سکتا۔ میں آپ کو 25 مئی 2024 کو سرگودھا میں پیش آنے والے واقعے کے کچھ حقائق عرض کر دوں۔ میں نے دانستہ واقعہ لکھا ہے۔ سانحے کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ ظلم کو سانحہ لکھنے سے میرے ضمیر کا میل دھل نہیں سکتا۔
سرگودھا کے لازار مسیح کی عمر 73 برس تھی۔ یہ تو آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ پاکستان کے مسیحی شہری عام طور پر ڈیوڈ، جارج یا سٹیفن کی بجائے اکرم، نذیر یا عرفان جیسے نام کیوں اختیار کرتے ہیں؟ لازار مسیح عرف نذیر مسیح نے کئی برس تک خلیجی ممالک میں محنت مشقت سے چند پیسے کما لیے اور چھ برس پہلے پاکستان واپس آکر جوتے بنانے کا کاروبار شروع کیا۔ لازار مسیح کا بڑا بیٹا متحدہ عرب امارات میں ہوتا ہے جبکہ چھوٹا بیٹا ماں باپ کے ساتھ رہتا ہے۔ مجاہد کالونی میں مسلم اور مسیحی شہری آباد ہیں تاہم جس گلی میں وقوعہ پیش آیا وہاں صرف تین مسیحی گھرانے رہتے ہیں۔ لازار مسیح کے گھر میں دو وقت کی روٹی پکنے لگی تو آس پاس کے گھرانوں میں حسد بھی نمودار ہوا۔ لازار مسیح کے دو پوتے کچھ عرصہ قبل ہمسائیوں سے لڑ پڑے تھے۔ یہی چپقلش چند ہفتے قبل پھر نمودار ہوئی۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کی حد تک محسن نقوی صاحب کا بیان درست ہے۔ جیسے کندہ ناتراش اکثریتی گروہ کے نوجوان ہیں، ویسی ہی شہریت کے اصولوں سے نابلد اقلیتی نوجوان آبادی ہے۔
جھگڑے سے چند روز بعد لازار مسیح کی فیکٹری کے باہر وہی مخلوق نمودار ہوئی جو گوجرہ، جوزف کالونی اور جڑانوالہ میں مسجد کے لاﺅڈ سپیکر پر اشتعال پھیلاتی ہے اور پھر امن کمیٹی میں بیٹھ کر مذہبی ہم آہنگی پر بھاشن دیتی ہے۔ سرگودھا میں بوجوہ شہر بانو نقوی جیسی کوئی پولیس افسر نہیں تاہم مقامی پولیس نے لازار مسیح کے اہل خانہ کو بحفاظت نکال لیا اور مبینہ طور پر لازار مسیح کو ہجوم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ ابتدائی خبروں کے مطابق سرگودھا میں ’متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے لیکن کوئی مسیحی شہری زخمی نہیں ہوا تھا‘۔ اب لازار مسیح کی نعش اس خبر کی ’تصدیق‘ کر رہی ہے۔ دشت صحافت کی ’روسیاہی‘ میں عمر گزری ہے۔ ابھی سے بتائے دیتا ہوں کہ 44 نامزد اور 450 نامعلوم افراد میں سے کسی کو سزا نہیں ہو سکے گی۔ پولیس ٹھیک سے جانتی ہے کہ اپریل 2021 میں اپنا فرض منصبی ادا کرتے ہوئے مرنے والے پولیس اہلکاروں کا نام بھی کسی کو یاد نہیں۔ عدالت عظمیٰ کے سربراہ فیض آباد دھرنے پر اپنے ہی فیصلے کی بھول بھلیوں میں الجھے ہیں۔ ایسے میں مجھے اشتعال فروش مولویوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ میرا سوال صرف یہ ہے کہ مرنے والے کو لازار مسیح لکھوں یا نذیر مسیح لکھوں؟
- ڈی چوک میں لال گلاب کا تختہ - 09/10/2024
- کوئی سکھ دا سنیہا آیا؟ - 06/10/2024
- ان دیکھی منجدھاریں اور انجان مانجھی - 28/09/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).