میل پتھروں کے درمیان


محبی نیر مصطفیٰ کا واٹس ایپ پر صوتی پیغام ملا کہ آتی جمعرات کو ملتان آرٹس کونسل میں اس کے اعزاز میں ایک تقریب ہے آپ ضرور آئیے گا۔ ملتان آرٹس کونسل کا نام سنتے ہی ریزیڈنٹ ڈائریکٹر محمد علی واسطی اور وہ سینہ زور رقاصائیں یاد آ گئیں جن کے دم سے آرٹس کونسل آباد تھی۔ بچارے نثر نگار تو اردو اکادمی یا ملتان آرٹس فورم تک ہی پر مار سکتے تھے۔ پھر اچانک ذہن میں آیا کہ ادھر تو وہ اپنا یار مرنجان مرنج سلیم قیصر ہو گا۔ اور سلیم قیصر کے ساتھ ہی ریڈیو کا زمانہ یاد آیا۔ مگر یہ چیٹ جی۔ پی۔ ٹی کا زمانہ ہے، یہ میٹا آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا زمانہ ہے اور یہ چاہت فتح علی خان کا زمانہ ہے۔ بدو بدی موقع ملے کدی کدی۔

فوراً واپسی صوتی پیغام ارسال کیا کہ میں آؤں گا۔ مصطفیٰ بڑا زیرک ہے۔ کہنے لگا گفتگو کریں گے آپ؟ کہا نہیں۔ کیونکہ مجھے سدا سے سوشل انگزائٹی ڈس آرڈر ہے، جیسے منور آکاش سرخ پوش کا چہرہ، گلاب ہو جاتا ہے ویسے ہی ناچیز کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سن ہاتھوں سے روئی دھن رہا ہوں۔ اپنے بارے میں بھی کچھ الٹا سیدھا سنوں گے اور گردونواح سے منگوائے اپنے سابقہ ادیبوں پر بھی جملے کرواؤ گے۔ بہتر یہی ہے کہ مجھے لکھا ہوا ہی پڑھنے دو۔ معاملہ فہم تو وہ ہے ہی، بولا لکھو بھائی، کھلا لکھو۔ مجھے چھوڑو تمہارا لکھنا زیادہ اہم ہے۔ شاید مصطفیٰ مجھے نسیم حجازی سمجھتا ہے کہ میں وہ آخری قلم کار ہوں جو غزوہِ ہند کا احوال لکھ کر اپنی اور اس کی بخشش کا سبب بنوں گا۔ حالانکہ نیر مصطفیٰ وہ میل پتھر ہے جس کے آگے اور پیچھے اس کے سارے دوست آتے ہیں۔ وہ ایک ایسا مسلسل متغیرہ ہے جو ہر اکائی کو چھو کر آگے بڑھتا ہے۔ نیر نے بڑے بڑے خواب دیکھے اور دوستوں کو بھی بڑے بڑے خواب آنکھوں میں سجانے کا فن سکھایا اور سچ بھی یہی ہے کہ یہ خواب اور امیدیں ہی ہیں جو حیاتی کی ریل گاڑی کا ایندھن ہیں۔ ورنہ ہمارا جیون ڈبہ کٹ کر کسی چھوٹے سے اسٹیشن پر دن گنتا رہے اور ایک دن سکریپ یارڈ پہنچا دیا جائے۔

نیر نے کبھی ہار نہیں مانی، اگر چہ میری ایک کلاس فیلو بالکل نہ مانی، کہنے لگی نیر! تم دیوتا ہو، بدھا ہو، تجھ میں رب دِکھتا ہے، ولیکن شادی تم سے نہ کروں گی۔ یہ مصطفیٰ بھائی کا دوسرا میجر عشق تھا جو گوتم بدھ کے افکار کی بھینٹ چڑھ گیا۔

’ میرے عزیزو تمام دکھ ہے۔ ”
اب تو اسلم انصاری صاحب بوڑھے ہوچکے ہیں لیکن جوانی میں بھی انہوں یہی لکھا کہ،
”جدائی تو خیر آپ دکھ ہے، یہ ملاپ دکھ ہے،“

نیر کا پہلا عشق بھی ایک دوست کی نذر ہوا جس کے لئے انہوں نے کراچی کا سفر بھی کیا جو غالب کا سفرِ کلکتہ ثابت ہوا۔

”مرے عزیزو تمام دکھ ہے۔“

مگر حقیقت میں معاملہ اس کے بر عکس ہے نیر نے فراوانی سے عشق کیے اور جملہ وظائف کے ساتھ کیے، ساحر شفیق کی طرح نہیں کہ جس نے اپنی، ڈیرہ عشقیہ کہانی، چائے خانوں پر دوستوں کو پکڑ پکڑ کر سنائی کہ جیسے،

اوچھے کے ہاتھ تیتر
باہر باندھے کہ بھیتر

نیر تحریر و تقریر میں کچھ بیان نہیں کرتا بلکہ عشق چھپاتا ہے۔ یہ کسی کامل ولی کی طرح محبت کو ایک کرامت گردانتا ہے اور اسے پوشیدہ رکھتا ہے۔

نیر نے ادب اور آرٹ کا سفر بچپن سے ہی شروع کر دیا جب حضرت کے شجاع آباد والے گھر کے قریب ایک سینما ہوا کرتا تھا، کچی ٹاکی سینما۔ سینما کے سامنے کھلے گراؤنڈ پر شام کے قریب پانی کا چھڑکاؤ کر کے کرسیاں لگائی جاتیں اور آس پاس کے بزرگ چائے اور گفتگو کے بہانے آ بیٹھتے۔ نیر مصطفیٰ کے نانا جان بھی یہاں دوستوں سے گفتگو کرنے آتے اور ننھا نیر ساتھ ہو لیتا۔ نیر وہیں فلمی پوسٹر دیکھتا رہتا۔ اس کے سامنے ریل (Reel) ایک پہیے سے دوسرے پہیے پر منتقل ہوتی، قینچی سے + 18 سین سینسر کیے جاتے۔

یہیں سے نیر نے فلم بینی، ایڈیٹنگ، سینسر شپ اور ڈائریکشن کے رموز سیکھے۔ کچی ٹاکی سے نیر بمبے ٹاکیز دیکھنے لگا اور نتیجتاً اس نے دو فلمیں، ایک نشتر میڈیکل کالج میں اور دوسری بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں ایم اے کے دوران، بنانے کی بھرپور کوشش کی۔

آج کل ”ہیرا منڈی“ ان (In) ہے اور میں، ہم، تم سنجے لیلا بھنسالی کا نام لے رہے ہیں، مگر مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایم۔ اے ماس کام کے دوران پروفیسر شہزاد صاحب نے کوئی اسائنمنٹ دی تو صاحب اگلے دن سنجے لیلا بھنسالی کا ورچوئل کم لائیو انٹرویو لکھ لائے۔ یہ سنجے لیلا کا پرانا عاشق ہے۔

نیر نے افسانہ لکھنا میڈیکل کالج میں شروع کر دیا۔ ملتان میں جب نیر افسانہ لکھ رہا تھا تب پورے ملتان کیا، نواح میں بھی کوئی افسانہ نہیں لکھ رہا تھا۔ خالد سعید اور علی تنہا اپنا سفر مکمل کر چکے تھے۔ کہانی تھی مگر علامتی انداز۔ انوار احمد کے پاس بیانیہ تھا، کہانی نہ تھی بلکہ واقعات اور ملتانی تکیوں کے قصے تھے اور مزاح کا الھڑ تڑکا۔

احمد ندیم تونسوی کے ہاں کہانی تھی، زبان تھی، بیان تھا، ٹریٹمنٹ تھی، سب تھا مگر وہ بھی اپنا کام یعنی کم لکھا، مگر کمال لکھا کے مصداق، مکمل کر چکا تھا۔

ایسے میں نیر مصطفیٰ شاعرانہ اسلوب کی نثر میں گندھی، گلی محلے کی کہانی اٹھائے، وارد ہوا اور لکھتا چلا گیا۔

ملتان میں افسانہ نگاری کی شاہ راہ پر علی تنہا، خالد سعید اور احمد ندیم تونسوی کے بعد نیر مصطفیٰ ایک میل پتھر کی طرح نظر آنے لگا۔ انہی میل پتھروں کے درمیان لیاقت علی ”تین عورتیں تین کہانیاں“ جیسی چسیلی نثر میں شریف کہانیاں لکھ رہا تھا اور ساحر شفیق ادب کی ہر صنف پر، صنف آہن کی طرح ہاتھ پاؤں مارتا غزل، ہائیکو، پابند، آزاد و معری نظم کے بعد افسانہ نگاری کے میدان میں اتر آیا۔ ابھی نثری نظم نگاروں کی کتابیں اس کے سرہانے آہستہ آہستہ سرگوشیاں کر رہی تھیں۔ ساحر نے افسانے لکھے اور عمدہ لکھے مگر وہ سابقہ روایت میں کہیں گم ہو گئے۔ کچھ منٹو تو کچھ غلام عباس، کچھ بیدی تو کچھ کرشن چندر لے گیا۔ باقی جو بچا تھا ”کالے چور“ لے گئے۔

نیر مصطفیٰ نے افسانے لکھے، نثر پارے لکھے اور مسلسل لکھے۔ تنقید و تنقیض بلکہ دوستوں کے مشورے برداشت کیے مگر اپنے اسلوب میں تخلیقی ادب لکھتا چلا گیا۔ پہلی کتاب کی تقریب رونمائی بھی کتنی سادہ تھی، سینٹرل کالج ملتان کی عمارت تھی، گرمیوں کے دنوں کی ایک شام، بجلی نہ تھی، بارش کے بعد کا منظر تھا، برآمدے میں کرسیاں لگائی گئی، عطا الرحمان تمثیل سیکریٹری اور کرسی صدارت پر احمد ندیم تونسوی رحمۃ اللّٰہ علیہ موجود تھے۔ ناچیز نے کتاب پر مضمون پڑھا، کتابیں تقسیم کی گئیں اور واپسی پر گول باغ میں دودھ سوڈا پیا۔ ایک دوسرے کی تعریف کی یا ڈھارس بندھائی، مگر یہ آغازِ سفر تھا۔

آج نیر بڑا نثر نگار ہے اور اسے ایوارڈ مل رہے ہیں۔ اس تقریب کے بعد بھی کوئی بڑی بات نہیں کہ یہ دودھ سوڈا ہی پلائے۔

مگر مصطفیٰ ایک ادبی حریص ہے، جیتے جی ایوارڈ و ستائش پا رہا ہے۔ انگریزی ادب کی وہ خوبصورت پروفیسر صاحبہ جسے ہمارے استادوں سے لے کر ہمارے شاگردوں نے ورچوئل یعنی مجازی محبوبہ بنائے رکھا، وہ نیر کو یو بی ایل ایوارڈ دلوا رہی ہے، اگرچہ درمیان میں ایک باریش ٹی۔ وی آرٹسٹ حائل ہے، اور اس خفگی کا اظہار نیر نے پوری طاقت سے اپنے ہونٹوں کو بھینچ کر کیا ہے اس کے باوجود بھی نیر چاہتا ہے کہ اس کے کام کو آنے والی صدیوں میں بھی سراہا جائے۔

بارہا اظہار کرتا ہے کہ ”یہ ایوارڈ معیار نہیں ہوتے“، بیچ بیچ میں تین ایوارڈ گنوا بھی دیتا ہے، ”آدمی کا کام ہی اسے زندہ رکھتا ہے“ وغیرہ وغیرہ۔

ارے بھلے مانس جو ملا ہے اس پر اکتفا کرو۔ زندگی میں عزت راس نہیں؟ کہ مرنے کے بعد کی فکر کھائے جا رہی ہے تمہیں۔

تم جیو، تم نے ابھی جینا ہے، تم پاکستان میں نثری ادب کے خاتم ہو ’اور تم انتظار حسین کے ”آ خری آدمی“ کی طرح، آخری ادیب ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments