اینا کریننا پر اظہارِ رائے سورج کو چراغ دِکھانا


Shahzad Hussain Bhatti Lahore

ایسا ناول جس کے مطالعہ کے لیے عزم بھی درکار ہے اور استقلال بھی۔ ہم نے اینا کریننا کا زمانہ طالب علمی میں بھی مطالعہ کیا تھا اور اب ایک عرصے بعد جب اس پر تبصرہ لکھنے کو من چاہا تو دوبارہ کھول لیا۔ یہ ایک ایسا ناول ہے جسے پڑھنے کے لیے اُسی طرح کے اہتمام کی ضرورت ہے جیسے محبوب کو ملنے کی غرض سے وقت نکالا جاتا ہے۔ پھر اس کے مطالعہ سے جو مزہ آئے گا وہ شاید معشوق سے مُلاقات میں بھی میسر نہ ہو۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہوں تو آپ بالکل درست ہیں، یقیناً ایسا ہی ہے کیوں کہ اینا کریننا کو زیب دیتا ہے کہ اس کی ایسی ستائش کی جائے ۔

ناول کا زمانہ تحریر 1873 تا 1877 ہے۔ اوائل میں یہ روس کے ایک معروف ادبی مجلے کی زینت بنا۔ 1878 میں اسے باقاعدہ کتابی شکل میں شائع کیا گیا۔ 1944 میں یہ نیویارک سے انگریزی میں چھپا۔ تقی حیدر نے 1986 میں اس کا اردو ترجمہ کیا۔ ہم نے اس کے جس اردو ایڈیشن کا مطالعہ کر رکھا ہے اس کے 766 صفحات ہیں اور یہ آٹھ حصوں پر مشتمل ہے۔

اینا کریننا ایک روسی کلاسیکی ناول ہے جو عالمی شہرت یافتہ ادیب لیو ٹالسٹائی کا عظیم کارنامہ ہے۔ محبت کی اس عظیم داستان کو “ٹائم میگزین” تاریخ انسانی کے دس بہترین ناولوں میں شمار کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا سماجی کام ہے جسے اس زمانے کے روس کے اعلیٰ طبقے کے رہن سہن کی متوازن کہانی تصور کیا جاتا ہے۔ اس میں ازدواجی زندگی سے بغاوت، معاشقوں، دھوکہ دہی اور معاشرتی دباؤ کی مبہم تصویر پیش کی گئی ہے۔ بنیادی طور پر اس میں دو اہم کہانیاں ہیں جو ایک ساتھ آگے بڑھتی ہیں، جن میں سے ایک اینا اور ورونسکی کی ہے اور دوسری لیوین اور کیٹی کی ہے۔

سب سے پہلے ناول کے اہم اور قابل ذکر کرداروں پر بات کرتے ہیں۔

اینا کریننا، ناول کا مرکزی کردار جو ایک خوب صورت اور معتبر خاتون ہے، ورونسکی کے ساتھ پُر جوش تعلقات میں الجھ کر سماجی تنزلی کا شکار ہے۔

الیکسی کیرنین، اینا کا شوہر، اعلیٰ سرکاری عہدے دار جو اپنی سماجی حیثیت اور بہترین رکھ دکھاؤ کی وجہ سے واضح پہچان قائم کیے ہوئے ہے۔

الیکسی ورونسکی، ایک پرکشش اور کرشماتی خوبیوں کا مالک فوجی افسر جو اینا سے محبت کرتا ہے اور نتائج کی پروا کیے بغیر اس سے تعلقات استوار کرتا ہے۔

کانسٹنٹین لیوین، ایک پُرامید زمیندار جو اپنے وجودی عقائد میں الجھا ہوا ہے اور مقصدِ حیات کو دانشورانہ انداز سے سمجھنے کے لیے کوشاں ہے، کیٹی اُس کی محبت ہے جسے وہ کئی پریشانیوں کے بعد حاصل کر ہی لیتا ہے۔

کیٹی شیرپاٹسکایا، اعلی طبقے کی حسین دوشیزہ جو پہلے ورونسکی کی محبت میں گرفتار ہوتی ہے مگر رد کیے جانے پر لیوین سے شادی پر رضامند ہو جاتی ہے۔

ابلونسکی اسیٹوا، اینا کا بھائی مگر غیر ذمہ دار رئیس جو اپنی بیوی کو دھوکہ دیتا ہے اور اپنے بچوں کی گورنس کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کر لیتا ہے۔

ڈولی، ابلونسکی کی بیوی خاوند کی بے وفائی کے باوجود اپنی نند اینا کے مشورے پر خاندان کو ٹوٹنے نہیں دیتی اور خاوند کو دوسرا موقع فراہم کرتی ہے۔

سریوزا کرینن، اینا اور کرینن کا بیٹا جو اپنے والدین کی ہنگامہ خیز ازدواجی زندگی کی نظر ہو کر بچپن میں ہی ہیجان میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

ناول کا آغاز ابلونسکی اور اس کی شریک حیات ڈولی کی مضطرب ازدواجی زندگی سے ہوتا ہے۔ ابلونسکی کی بے وفائی کی وجہ سے اُن کے خاندان میں ایک بُحران پیدا ہو جاتا ہے۔ اینا اپنے بھائی اور بھابھی کے درمیان معاملات کو ٹھیک کروانے کی غرض سے سینٹ پیٹرز برگ سے ماسکو پہنچتی ہے۔ جب کہ اینا کی خود کی شادی شدہ زندگی شدید مسائل کا شکار ہے۔ اس کا خاوند اعلیٰ سرکاری عہدے دار ہے اور اُن کا دس سال کا ایک بیٹا بھی ہے۔ مگر جب وہ بھائی کی صلح کروانے کے بعد واپس جانے کے لیے ریلوے اسٹیشن پہنچتی ہے تو وہاں اس کی ملاقات خوب صورت کاؤنٹ ورونسکی سے ہو جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہی محبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

جلد ہی اینا اور ورونسکی کا افیئر منظرِ عام پر آ جاتا ہے جس کی وجہ سے اینا سماجی حیثیت میں گراوٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔ اُس کا خاوند بھی اُس سے گہری محبت کرتا ہے اور وہ اُسے طلاق دینے پر راضی نہیں ہوتا۔ معاشرتی دباؤ سے بچنے کے لیے اینا ورونسکی کے ساتھ پردیس چلی جاتی ہے اور وہ کچھ عرصہ وہیں قیام کرتے ہیں۔ مگر جب واپس لوٹتے ہیں تو سماجی دباؤ اور ذاتی تحفظات کی بنیاد پر اُن کا تعلق جسے معاشرہ کی قبولیت حاصل نہیں کشیدگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسی کشمکش میں ہی وہ ورونسکی کی بیٹی کو پیدا کرتی ہے۔

کچھ عرصہ بعد اینا تنہائی کا شکار ہو جاتی ہے اور اُس میں مایوسی سرائیت کرنے لگتی ہے۔ وہ ورونسکی کو بھی شک کی نظر سے دیکھتی ہے اور فرض کر لیتی ہے کہ ورونسکی اب اس سے محبت نہیں کرتا حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ وہ اپنے بیٹے سے علیحدگی کا عذاب بھی سہتی ہے۔ نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے نا اُمیدی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ وہ خود پر قابو نہیں رکھ پاتی اور ٹرین کے آگے کود کر خود کُشی کر لیتی ہے۔ اینا کی موت کے بعد ورونسکی کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔ وہ خود کو مصروف رکھنے کے لیے سربیا کے جنگی محاذ پر چلا جاتا ہے۔

ناول کی دوسری اہم کہانی زمیندار لیوین اور شہزادی کیٹی کے گرد گھومتی ہے۔ یہ کہانی بھی اینا اور ورونسکی کے زیر اثر ہے۔ کیٹی اپنی والدہ کی رضا سے لیوین کی شادی کی پیش کش کو ٹھکرا کر ورونسکی کی طرف مائل ہے۔ آغاز میں ورونسکی بھی کیٹی سے شادی کا خواہاں ہے اور اسی وجہ سے کیٹی لیوین کو انکار کر دیتی ہے۔ مگر اینا کی قُربت ورونسکی کو کیٹی سے جدا کر دیتی ہے۔ رد کیے جانے پر کیٹی بیمار ہو کر جرمنی چلی جاتی ہے جب کہ لیوین اپنی جاگیر پر واپس لوٹ آتا ہے۔ وہ وہاں زرعی اصلاحات کرنے کا خواہاں ہے اور زندگی کو فلسفیانہ انداز سے دیکھنے لگتا ہے۔

کچھ عرصہ بعد کیٹی صحت یاب ہو کر واپس لوٹ آتی ہے۔ وہ زندگی اور معاشرے کو ایک نئے ڈھنگ سے دیکھنے لگتی ہے۔ لیوین رد کیے جانے پر رنجیدہ ہے مگر جب اُسے کیٹی کی واپسی کی اطلاع ملتی ہے تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اُس کے پاس جا پہنچتا ہے اور شادی کی تجویز دوبارہ پیش کرتا ہے۔ اس بار وہ لیوین کو بخوشی قبول کر لیتی ہے۔ وہ شادی کر کے جاگیر پر منتقل ہو جاتے ہیں جہاں انہیں نئے چیلنجوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیوین وجودی بُحران کا شکار ہو جاتا ہے اور مذہب کے بارے میں بھی اُس کے تصورات سماجی حدود سے متجاوز ہونے لگتے ہیں۔ مگر کئی رکاوٹوں کے باوجود اُن کی شادی شدہ زندگی کامیابی سے آگے بڑھتی رہتی ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد لیوین خودشناسی کے بعد روحانی طور پر بھی بیدار ہو جاتا ہے اور اُس کی زندگی پُر سکون ہو جاتی ہے۔

اینا کریننا خالصتاً محبت کی داستان ہے مگر ٹالسٹائی کی خوبی ہے کہ وہ عام سی بات کو بھی کئی زاویے فراہم کر دیتا ہے جس سے اس کی تحریروں میں وسعت آ جاتی ہے اور وہ کئی موضوعات کو ایک ساتھ چھوتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے۔ اینا کریننا کے ساتھ بھی موصوف نے ایسا ہی برتاؤ کیا ہے۔ یہ محبت کی سطحی کہانی نہیں بل کہ ٹالسٹائی نے اس میں ایسے موضوعات چھیڑے ہیں کہ جن کی مدد سے وہ انیسویں صدی کے روس کی معاشرت کو جھنجوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ یہ ایسی توضیحات ہیں کہ جن کا بیان کیا جانا مضمون کو وسعت فراہم کرتا ہے۔

اشرافیہ معاشرے کا لازمی جزو ہے مگر اس موضوع کو چھیڑنے سے پہلے یہ بتانا ناگزیر ہے کہ ٹالسٹائی کے اس پہلو کو بھی مدِ نظر رکھ لیا جائے کہ وہ خود بھی ایک بڑا زمیندار تھا اور اُس کا روس کی اشرافیہ سے براہ راست تعلق تھا اس لیے وہ جو بیان کرتا ہے وہ حقیقت نگاری پر مبنی فکشن بن جاتا ہے۔

آئیے سب سے پہلے روس کی معاشرت و اشرافیہ پر بات کرتے ہیں۔ وہ وسیع النظری سے ایک ایسے معاشرے کی تصویر پیش کرتا ہے جو صنعت کاری اور سماجی بدلاؤ کی وجہ سے اقدار میں پستی کی جانب گامزن ہے۔ یہ وہ دور ہے جس میں روس یورپ کی تہذیب کے زیر اثر نظر آتا ہے۔ یہ جدیدیت کا دور ہے۔ یورپ سے ٹرین کی شکل میں جہاں ٹیکنالوجی منتقل ہوتی ہے وہیں روس میں یورپ کا اثر بھی بڑھنے لگتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ روس کی اشرافیہ میں سب سے پہلے جدید بدلاؤ آنا شروع ہوتے ہیں۔ وہ چھٹیاں گزارنے یورپ کا رُخ کرتے ہیں، علاج کے لیے بھی یورپی ڈاکٹروں کا انتخاب کرتے ہیں، ان کے بچوں کی تربیت کے لیے تعلیم یافتہ گورنس بھی یورپ وغیرہ سے ہی منگوائی جاتی ہیں۔ اشرافیہ جرمن، فرنچ، انگریزی سمیت دیگر زُبانیں بھی سیکھنے لگتی ہے۔

لوگ اعلیٰ طبقے میں اپنا درجہ برقرار رکھنے کے لیے اخراجات میں اضافہ کرتے ہیں اور پھر جب خرچہ پورا نہیں ہوتا تو قرض اٹھاتے ہیں یا پھر وسائل بیچتے ہیں اور مزید مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ٹالسٹائی نے سویلین، عسکری حکام اور حکومتی اہلکاروں کے درمیان تعلقات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ وہ اشرافیہ کے مشاغل کو تفصیل سے بیان کرتا ہے۔ جہاں وہ شراب و شباب کی محفلوں کی بات کرتا ہے وہیں بال روم کی رونقوں اور کیسینوز میں ہارنے اور جیتنے کے قصے بھی دُہراتا ہے۔ اس کے علاوہ ریس کورس کے کھیلوں کا ذکر بھی موجود ہے۔ ایک باب میں اُس نے بڑے ہلکے پھلکے انداز میں ملکی سیاست اور انتخابی عمل کی وضاحت بھی کر دی ہے۔

ٹالسٹائی اُس دو میں زار کی جانب سے کی گئی اصلاحات کی بات بھی کرتا ہے اور خاص طور پر غلامی کے خاتمہ کو بھی شہ سرخی بناتا ہے۔ علاوہ ازیں وہ کسانوں کے مسائل کے بارے میں اپنا نقطہ نظر پیش کرتا ہے اور اُن کے حل کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ وہ روس کی زراعت کا موازنہ یورپ کے ملکوں سے کرتا ہے اور یورپ میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے جو بہتری آئی ہے اس کی تفصیل بھی بتلاتا ہے۔ اُس نے شہری و دیہاتی زندگی کا بھی موازنہ پیش کیا ہے جس میں وہ گاؤں کے سادہ افراد کو اشرافیہ پر ترجیح دیتا ہے۔

ناول میں ٹالسٹائی نے انیسویں صدی کے روسی معاشرے میں خاندان کے نظام کو بھی موضوع سُخن بنایا ہے۔ وہ اس تبدیلی کے دور میں خاندان کے ادارے کی مضبوطی کا خواہاں ہے اور اُن حقائق سے پردہ اٹھاتا ہے جو اس پر قدغن کا باعث ہیں۔ وہ شادی شدہ زندگی، غیر ازدواجی تعلقات اور طلاق جیسے نجی معاملات پر گفتگو کرتا ہے اور ناول کا پلاٹ بھی انہیں موضوعات سے بندھا ہوا ہے۔ وہ چرچ کے سماج پر اثرات اور نجی زندگیوں میں دخل کی وضاحت بھی کرتا ہے۔ وہ بتلاتا ہے کہ مسیحیت میں طلاق کا تصور موجود نہیں ہے اور چرچ اس کا شدید مخالف ہے۔ اسی کے تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ اینا کا خاوند نا چاہتے ہوئے بھی اُسے طلاق دینے کے لیے راضی ہو جاتا ہے مگر قانون میں اس کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ صرف ایک ہی صورت باقی ہے کہ وہ اپنی بیوی کو بدکردار ثابت کرے اور دو گواہان بھی چرچ میں پیش کرے، مگر وہ ایسا نہیں کر پاتا۔

ٹالسٹائی نے ناول میں حقوق نسواں کی بات بھی کی ہے۔ وہ پدرانہ سماج میں عورت پر عائد دوہرے معیارات اور حدود کو بھی ہدف تنقید بناتا ہے۔ ناجائز تعلقات مرد کے لیے جائز ہیں لیکن اگر عورت سے سرزد ہو جائیں تو سوسائٹی اُس کے خلاف کھڑی نظر آتی ہے۔ وہ یہ بھی باور کرواتا ہے کہ اُس دور میں روسی معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی بندوبست موجود نہیں ہے۔ وہ بڑی خوب صورتی سے مردوں کی بیٹھک میں مباحثے کے ذریعے اس موضوع پر گفتگو کرتا ہے۔ وہ یورپ میں خواتین کو میسر آزادی کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے۔

ٹالسٹائی نے لیوین کے کردار کے ذریعے زندگی کے معنی کی تلاش پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ وہ مذہب جیسے نازک موضوع کو بھی بھرپور انداز میں پیش کرتا ہے۔ آخری ابواب میں وہ لیوین کی مذہب کی جانب رغبت اور روحانی سفر کو بھی خوش اسلوبی کے ساتھ بیان کرتا ہے۔

ایک جیسے ناموں اور بے شمار کرداروں، اور بعض پیچیدگیوں کے باوجود یہ ناول بہت ہی شان دار ہے۔ آغاز میں مطالعہ میں دشواری پیش آ سکتی ہے مگر مستقل مزاجی سے آگے بڑھتے رہیں تو یہ قاری پر اپنا رنگ چڑھانا شروع کر دیتا ہے۔ بعض جگہوں پر ایک ہی کردار کو مختلف ناموں سے پیش کیا گیا ہے جس کی وجہ سے قاری کشمکش کا شکار ہو جاتا ہے۔ کبھی اُسے خاندانی نام سے تو کبھی اس کے اصل نام سے یا پھر عرفی نام سے پکارا گیا ہے۔ اگر ترجمہ کرتے وقت اول تا آخر ایک ہی نام کا استعمال کیا جاتا تو روانی برقرار رہتی۔

ٹالسٹائی جس سطر سے ناول کا آغاز کرتا ہے ہم اسی سے تبصرے کا اختتام کرتے ہیں ”سارے سکھی گھرانے ایک جیسے ہوتے ہیں، مگر ہر دکھی گھرانا دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔“ اینا کریننا میں ٹالسٹائی نے انسانی جذبات اور باہمی تعلقات کے احساسات کو بخوبی واضح کیا ہے۔ وہ توجہ مبذول کرواتا ہے کہ محبت، خواہش یا وفاداری گہری خوشی یا شدید غم کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ وہ ذاتی خوشی اور سماجی استحکام کے حصول کے لیے محبت اور احترام کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ اس میں دو کہانیاں ہیں۔ دونوں شادی شدہ زندگی کے بارے میں ہیں۔ ایک مسائل کا شکار ہو کر ٹوٹ جاتی ہے جب کہ دوسری میں لیوین اور کیٹی بھی الجھنوں کا شکار ہوتے ہیں مگر وہ ثابت قدم رہتے ہیں اور آخر میں کامیاب خاندان کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments