ملک نمائشی کاموں سے نہیں چلتا


دنیا بھر کے ممالک میں ٹھوس بنیادوں پر منصوبہ بندی کر کے ملک چلائے جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا کے تمام ممالک کی حالیہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ان کی کامیابی کے پیچھے یہی عوامل کارفرما ملیں گے کہ انہوں نے اپنے وسائل اور مسائل دونوں کا بروقت ادراک کیا اور ان کے حل اور تقسیم کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی اور اس منصوبہ بندی پر مسلسل عمل پیرا رہے۔ امریکہ میں تعلیم سے لے کر تجارت تک کے لیے علمی تحقیق کی جاتی ہے اور ان کے ہر کام کے لیے تھنک ٹینک ہوتے ہیں جو حکومت کو اور تجارت کرنے والوں کو کامیابی کی سمت درست کر کے دیتے ہیں۔

اس لیے وہ کامیاب ہیں، یہی سب کچھ جاپان نے کیا تھا اور پھر چین نے اس پر عمل کیا۔ اب انڈیا اور بنگلہ دیش اس پر عمل کر رہے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں سارے کام نمائشی ہوتے ہیں۔ اس وقت آپ بنگلہ دیش کا دس سالہ ترقیاتی پلان دیکھیں اور سعودی عرب اور قطر کا دس سالہ ترقیاتی منصوبہ دیکھیں جس کے ایک ایک جزو پر ان کے ماہرین نے کام کیا ہے اور اسے دستاویزی شکل دی ہے اور ان منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے وہ مسلسل جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی معیشت مضبوط ہو رہی اور ان ممالک کی شہریوں کی زندگی میں خوشحالی کا انقلاب آ رہا ہے۔

ان کے مقابلے میں ہمارے ہاں دیکھیں صرف ایک ہی مد میں ہم نے ترقی کی ہے اور وہ ہے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جسے اس سے پہلی والی حکومت نے احساس کا نام دیا تھا، یعنی ہم نے اس پروگرام کو چند ارب روپے سے شروع کیا تھا اور اب اسے چھ سو ارب روپے تک پہنچا دیا ہے، یقیناً ہم اس کو اگلے برسوں میں ایک ہزار ارب روپے تک پہنچائیں گے۔ اس پروگرام کی وجہ سے لاکھوں لوگ روزگار چھوڑ کر بھکاری بن گئے ہیں۔ جبکہ اسی پروگرام کی طرز کا پروگرام بنگلہ دیش کو بھی آفر ہوا تھا جسے انہوں نے لینے سے صاف انکار کیا تھا اور بنگلہ دیشی حکومت نے بھیک کی جگہ ہنر سکھانے پر کام کیا خصوصاً خواتین کو ہنر سکھانے کا انتظام کیا اور گزشتہ دس برسوں میں ڈھائی کروڑ بنگلہ دیشی خواتین اور نوجوانوں کو ہنر سکھائے گئے اور انہیں چھوٹے پیمانے کی صنعتیں لگانے کی ترغیب دی گئی اور انہیں خود روزگاری سکھائی گئی اور اس مد میں مواقع دیے گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ڈھائی کروڑ بنگلہ دیشی خط غربت سے اوپر آ گئے اور باعزت روزگار کے مالک بن گئے۔

جبکہ ان دس برسوں میں ہماری حکومتوں نے بھیک کی صورت، پناہ گاہوں میں مفت خوراک کی صورت میں، مرغی انڈے اور مفت روٹی اور آٹا سکیم جیسے پروگراموں میں اس غریب ملک کے کھربوں روپے ضائع کر دیے۔ اگر ان پیسوں سے ہم ان غریبوں کی تربیت اور ان کے لیے روزگار کا بندوبست کرتے تو آج ہمارے ملک میں بھی بنگلہ دیش کی طرح کروڑوں انسان خودکفیل ہو جاتے۔ ہم ایسا اس لیے نہیں کرتے کہ ہماری حکومتوں کو سنبھالنے والوں کے پاس حکومت و ملک چلانے کی لیے درکار عقل و فراست موجود ہی نہیں ہے۔

یہ ساری حکومتیں اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور چاپلوسوں کے مشورے پر چلتے ہیں۔ جبکہ ترقی کرنے والے ممالک ماہرین کے مشورے اور منصوبہ بندی پر کاربند ہوتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں پنجاب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ ستائیس ارب روپے سے سکولوں کے بچوں کو دودھ سکولوں میں پینے کے لیے دیں گے۔ جس کا عملاً کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور یہ پیسے بھی مفت روٹی اور آٹا سکیم کی طرح ضائع ہوجائیں گے۔ اگر یہی ستائیس ارب روپے سکولوں کو جدید بنانے پر لگائے جائیں اور ان سکولوں میں سہولیات مہیا کی جائیں تو اس کا فائدہ ہو گا۔

جس صوبہ کے ہزاروں سکولوں میں بنیادی سہولیات ہی موجود نہیں ہیں۔ جہاں بچوں کو پڑھانے والوں کی تعداد اور صلاحیت پرہی سوالیہ نشان ہوں وہاں ستائیس ارب روپے دودھ میں اُڑ دینا کہاں کی عقل مندی ہے۔ یہ مشورے کوئی ایسے ہی نہیں دیتا ایسے مشورے دینے والوں کا ان کاموں میں مالی فائدہ ہوتا ہے۔ ان کاموں کی وجہ سے کرپشن کا ایک نیا راستہ کھل جاتا ہے۔ اس ملک میں ٹھوس بنیادوں پر اور منصوبہ بندی کر کے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمارے ملک میں پرائمری سکولوں کا جو ڈھانچہ ہے وہ اتنا ناقص اور فرسودہ ہے کہ اس پر اگر کھربوں روپے بھی لگائے جائیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس نظام کو بنگلہ دیش کی طرح مکمل تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ بچے کی بنیادی تربیت اور ذہن سازی اسی سکول کی سطح پر ہوتی ہے۔ ہم جو نصاب پرائمری سکولوں کی سطح پر پڑھا رہے ہیں وہ ناقص ہے اور اس کو پڑھانے والے نوے فیصد اساتذہ اس قابل بھی نہیں ہیں کہ وہ اس نصاب میں موجود کتابوں کو خود سے پڑھ سکیں ایسے میں اگر ہم یہ توقع کریں کہ ہمارے بچے اس سطح پر بہتر تربیت حاصل کریں گے تو یہ عملاً ممکن نہیں ہے۔

اگر دودھ کے کھاتے میں جھونکنے کی بجائے ان ستائیس ارب روپوں کو استعمال میں لاکر ان پرائمری سکولوں کو قابل اور تربیت یافتہ اساتذہ دیے جائیں اور اس عمل کو پانچ برس تک مسلسل برقرار رکھا جائے تو ایک کھرب پینتیس ارب روپے سے پنجاب کے پرائمری تعلیم کے نظام کو مکمل بدلا جا سکتا ہے اور یہ ترقی کا وہ پہلا زینہ ہو گا جو اس ملک کے کسی بھی صوبہ میں پہلا پائیدار ترقی کا ذریعہ بنے گا اور جس سے بچے بہتر تعلیمی معیار اور میدان کی طرف جا سکیں گے۔

ایک طرف پنجاب کی موجودہ صوبائی حکومت تیرہ ہزار پرائمری سکولوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ان تمام سکولوں کو این جی اوز کو دینے کا اعلان کر رہی ہے۔ یعنی تعلیم جو کسی بھی معاشرے میں حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور یہ مفت ہوتی ہے۔ اس کو جب این جی اوز کو دیا جائے گا تو وہ اس مد میں فیس کا مطالبہ کریں گے جو اس وقت پنجاب بھر کے غریب عوام دینے سے قاصر ہوں گے اور اپنے بچوں کو نہیں پڑھائیں گے۔ یوں جو اس وقت ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ بچے سکولوں سے باہر ہیں ان کی تعداد میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

ملک میں اس وقت پڑھے لکھے بے روزگاروں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ جن کو بنیادی تربیت دے کر ان سکولوں میں تعینات کیا جاسکتا ہے جس سے ہزاروں لوگوں کو روزگار اور کروڑوں بچوں کو بہتر تعلیم حاصل کرنے کا مواقع ملے گا۔ سکول این جی اوز کے حوالے کرنے سے بہتر نہیں ہوتے بلکہ سیاسی بنیادوں پر بھرتیوں سے اجتناب اور میرٹ پر استاذہ بھرتے کرنے سے بہتر ہوں گے اور ان سکولوں کے لیے ایک ایسا نظام بنایا جائے جہاں ان کی نگرانی ہو سکے اور وہاں سزا و جزا کا کوئی نظام ہو۔

یہ سارے کام دودھ پر ضائع کیے جانے والے پیسوں سے ممکن ہیں۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ پاکستان کے بچے غذائی کمی کا شکار ہیں۔ جس کا سبب بھی حکومتیں ہی ہیں۔ ملک میں مہنگائی کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ اس میں والدین بچوں کو بنیادی غذا فراہم کرنے کی استطاعت ہی کھو چکے ہیں۔ کسانوں اور مزدوروں کا استحصال بھی یہی حکومتیں اور ان میں موجود لوگ کرتے ہیں۔ اگر کسان اور غریبوں کی مدد کرنی ہی ہے تو ان کو اپنے اجناس فروخت کرنے اور کاروبار کرنے کے مواقع فراہم کریں۔

جیسا کہ چین میں کیا گیا ہے۔ جیسا ویتنام میں کیا جا رہا ہے، اگر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پیسوں سے پورے پاکستان میں پانچ ہزار ہنر سکھانے کے سینٹر سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی موجودہ بلڈنگوں میں ہی کھولے جائیں جہاں حقیقی معنوں میں مختلف ہنر ان غریبوں کو سکھائے جائیں تو پانچ برس میں اس ملک سے نصف سے زیادہ غربت ختم کی جا سکتی ہے۔ ایسا بنگلہ دیش اور ویتنام نے کر کے دکھایا ہے۔ جنوبی کوریا نے اپنے لوگوں کو عزت کے ساتھ روزگار کرنے کی تربیت دس برس تک دی ہے جس کی وجہ سے اس ملک میں ایک بھی بھکاری نہیں ہے اور ان کا معیار زندگی اتنا بہتر ہوا ہے کہ ہم یہاں پاکستان میں اس کا تصور تک نہیں کر سکتے۔

اس لیے کہ وہاں ہر بچے کو بہترین بنیادی تعلیم دی جاتی ہے اور اسے لازماً ہنر سکھایا جاتا ہے اور ساتھ ہی اسے خودداری سکھائی جاتی ہے۔ اس بچے کی تربیت میں انسان دوستی کو فوقیت دی جاتی ہے۔ اور یہ وہ ملک ہے جس نے ہم سے ہمارا پانچ سالہ منصوبہ لیا تھا۔ ڈاکٹر محبوب الحق ماڈل لے کر انہوں نے اس پر عمل کیا اور آج ان کی زندگی کا معیار اور ان کے ملک کی اکانومی اتنی بہتر ہو گئی ہے کہ دنیا میں اسے سب سے بہتر قابل رہائش و روزگار ممالک میں شامل کر لیا گیا ہے۔

اس لیے ہمارے ملک کو بھی نمائشی کاموں میں کھربوں روپے ضائع کرنے کی جگہ ایسے تعمیری کاموں میں پیسے خرچ کرنے کی ضرورت ہے جس سے یہ ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے۔ کوریا کی طرح دنیا کی بڑی کمپنیوں کو یہاں صنعتیں لگانے کا مواقع فراہم کریں تو یہاں کے لوگ بھی برسر روزگار ہوسکتے ہیں ورنہ ہر رمضان میں پاکستان سے ہزاروں کی تعداد میں بھکاری سعودی عرب جاکر اس ملک کا نام خراب کرتے رہیں گے۔ جس ملک میں ایک صدر مملکت کی گاڑیاں کے لیے چالیس کروڑ روپے سے زیادہ کا سالانہ بجٹ رکھا جائے تو آپ اندازہ کریں کہ اس ملک میں پیسے ضائع کرنے کی رفتار کیا ہوگی۔

خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں اٹھ سو کے قریب لوگ ملازم ہیں، جبکہ وہاں پر درکار ملازمین کی تعداد سے یہ دس گنا زیادہ ہیں۔ ایسا ہی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی اور سینٹ میں ہے۔ اگر ان ملازمین کی تعداد کم کر کے ان سے بچنے والے پیسے سکولوں پر لگائے جائیں تو شاید چند برسوں بعد ان اسمبلیوں میں ایسے لوگ آئیں گے جن کو کسی اسسٹنٹ، ترجمہ کرنے والے، تقریر لکھنے والے، دستخط کی جگہ بتانے والے، رہنمائی کرنے والے کی ضرورت ہی نہ ہو۔

اس ملک میں بارہا ایسا ہوا کہ وزیر اعظم سے افتتاح کروانے کے لیے جعلی ہسپتال اور مریض جمع کیے گئے اور ان تقریبات پر کروڑوں خرچ کیے گئے اور آج تک ان کی تعمیر نہ ہو سکی۔ اس ملک میں ہزاروں این جی اوز آئیں اور کھربوں روپے کے غیر ملکی امداد پاکستانیوں کے نام پر لے کر ہضم کر گئیں۔ اگر کوئی حکومت گزشتہ پندرہ بیس برسوں میں این جی اوز کی فنڈنگ اور ان کے عملی کاموں کا موازنہ کرے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ چند نمائشی کاموں اور ڈیسک پر بیٹھ کر بنائے گئے رپورٹوں کے سوا انہوں نے اس ملک میں کچھ نہیں کیا۔

سابقہ فاٹا میں چار ہزار سے زیادہ کام جن کا دعوی ٰ این جی اوز کرتی ہیں ان میں سے کسی ایک کا بھی وجود زمین پر موجود نہیں ہے۔ ملکی وسائل ہمارے پاس کم ہیں، اور ہم قرضے لے کر ان کو بھی ان نمائشی کاموں کی نظر کر دیتے ہیں۔ یہ ملک جو مقرض ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے اس کے وسائل کو آپس میں بانٹنے، اور اپنے فرنٹ مینوں یا فنانسرز کو خوش کرنے کے لیے استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ ملک مزید ان عیاشیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔

یہ وہ ملک ہے جہاں استاد اور خاکروب کو مہینے کے آخر میں تنخواہ دینے کے پیسے نہیں ہوتے اور اشرافیہ کو دینے کے لیے چار ہزار ارب روپے سے زیادہ دستیاب ہوتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ان چار ہزار ارب روپوں میں سے پیسے کم کر کے اس ملک پر لگائے جائیں۔ اس ملک کی تعلیم اس کے ہسپتالوں اور اس کی سڑکوں پر اگر ان میں سے نصف پیسے بھی لگائے گئے تو یہ ملک بھی ترقی کر سکتا ہے۔ بس ضرورت صرف بہتر منصوبہ بندی اور اس پر عمل کرنے کی ہے۔

دہلی کی حکومت نے ایسا کیا ہے اور اس کے نتائج دیکھنے ہوں تو ذرا انٹر نیٹ پر سرچ کر لیں کہ کیسے عام آدمی پارٹی نے انقلاب بپا کر دیا ہے۔ اگر نیت ٹھیک ہو اور کام کرنا ہی مقصود ہو تو پھر موجودہ وسائل کے اندر بھی انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر نیت شوگر ڈیڈیز کو خوش کرنے کی ہو تو پھر ایسے کھربوں ارب مزید بھی ان کے پیٹ بھرنے کے لیے ناکافی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments