مروجہ پیری مریدی کی حیثیت
کسی پیرِ کامل کے ہاتھ پر بیعت ہو جانا یہ کوئی نیا طریقہ نہیں ہے بلکہ یہ مقدس سلسلہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ لیکن افسوس! پیری مریدی جیسا اہم منصب دور حاضر میں حصول دنیا کا ذریعہ بن چکا ہے۔ ملک بھر میں جعلی عاملوں اور پیروں کی بڑی تعداد ہے جو سادہ لوح عوام کو گمراہ کر کے ان کے دین و ایمان کو برباد کر رہے ہیں۔ کسی ولی اللہ کے وصال کے بعد اس کا خانقاہی نظام اس کے کسی اہل اور کامل روحانی وارث کی بجائے ظاہری فرزند کے حوالے کر دیا جاتا ہے آج کل کے سجادہ نشین اور گدی نشین کا تو یہ حال ہے کہ وہ گدی کے حصول کے لیے قتل و غارت سے بھی گریز نہیں کرتے کیونکہ ان کی نظر مزار سے آنے والی کمائی پر ہوتی ہے۔
اور روحانیت کو کاروبار کا درجہ دینے کا اہم سبب وہ جاہل مرید ہیں جن میں یہ بات تصور کر لی جاتی ہے کہ جس طرح جاگیردار کا بیٹا اس کی جاگیر کا وارث ہوتا ہے بالکل اسی طرح پیر صاحب کا بیٹا پیر ہی ہو گا چاہے وہ اس کا اہل ہو یا نہ ہو۔ دور حاضر میں بہت سے لوگ توہم پرستی کا شکار ہیں اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہزاروں روپے، جاہل پیروں کی غیر شرعی دعوؤں اور تعویذات کے چکروں میں خرچ کرتے ہیں خاص کر خواتین اس کام میں پیش پیش ہوتی ہیں لہذا قابل رحم ہیں وہ لوگ! جو علم و عمل کے راستے کو چھوڑ کر کرامتوں اور تعویز گڈوں کے لیے دھکے کھا رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پیر صاحب کی ایک پھونک اور تعویذ سے ان کی ساری پریشانیاں اور بیماریاں حل ہو جائیں گی۔
جہالت کی وجہ سے پبلک ان لوگوں سے متاثر ہو رہی ہے اور ان پیروں کی عظمت میں اپنے آپ کو اس حد تک جھکائے ہوئے ہیں کہ پیر صاحب کی گاڑی کو ہاتھ لگانا باعث تبرک سمجھتے ہیں اور پیر صاحب کی گاڑی کو اماموں کے ساتھ صاف کیا جاتا ہے اور چادریں لگا لگا کر حجر اسود کی طرح بوسے دیے جاتے ہیں۔ حالانکہ مسجد کی صفائی سے برکت حاصل کرنے کے متعلق کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔ اور پیر صاحب کی تربیت کی بنا پر سب مریدوں کے نزدیک پیر کی بات حرف آخر اور پتھر پر لکیر ہوتی ہے یہاں تک کہ اولاد والدین کی نافرمان ہو رہی ہے شادی اور طلاق تک کے معاملات پیر صاحب طے کرتے ہیں اور پیر صاحب کی ملاقات کے لیے جو دھکم پیل ہو رہی ہوتی ہے اس طرح کی دھکم پیل نماز کے لیے کبھی نہیں ہوتی۔
لہذا آج کے دور میں کامل اور ناقص پیر کا امتیاز کرنا مشکل ہو گیا ہے یاد رکھیے! نمازیں چھوڑنے، نا محرم عورتوں کے جھرمٹ میں رہنے، ہاتھ پاؤں دبوانے، منشیات کے نشے میں ڈوب کر رہنے، بالوں کو کندھوں سے بڑھا کر ان کی چٹیا باندھنے اور شیطانی عملیات کے نام پر لوگوں کی جیبیں خالی کرانا یہ پیری مریدی نہیں بلکہ پیر کا مقصد لوگوں کو شریعت کی اتباع کا درس دینا اور گناہوں سے بچنا اور بچنے کا ذہن دینا ہے۔
ہمارے بزرگ صوفیاء کرام کی زندگیاں جن تعلیمات کا مظہر تھیں ان کا اگر جائزہ لیا جائے تو آج کے دور میں معاملہ بالکل برعکس ہے۔ وہ لوگ ہر لمحہ اپنے خالق سے ڈرتے، دین کے کام کو بغیر کسی دنیاوی لالچ کے سر انجام دیتے، اپنی ذات کی نفی کر کے ہر انسان کو اپنے سے بہتر سمجھتے، روپے پیسے سے محبت اور نہ ہی اسے جمع کرتے، شہرت اور ناموری سے بچتے، ان کی طبیعت میں نرمی اور مزاج میں عاجزی ہوتی۔ حقیقت میں و ہی لوگ اولیاء اللہ کہنے کے حقدار ہیں جبکہ آج کل کے پیر صاحب کے پاس کئی مربع زمینیں، اربوں کے بینک بیلنس، مہنگی ترین گاڑیاں، ڈرائیور، گن مین، مہنگے ترین علاقوں میں محلات، کوٹھیاں، فائیو سٹار ہوٹلوں کے کھانے اور سیاست میں آنا جانا، یہ سب شامل ہے۔
عوام کی طرف سے ملنے والے لاکھوں نذرانے کو فلاحی کاموں میں صرف کے بجائے اپنی آسائشوں میں صرف کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں ”کہ بعض پیر کمانے کی طاقت رکھتے ہیں مگر وہ سارا دن اپنے آستانوں پر لوگوں سے خیرات وصول کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ شریعت کا واضح مسئلہ ہے کہ غنی اور قوی شخص کے لئے خیرات لینا جائز نہیں“ (کہ یہ بھیک ہے ) ۔
لہذا اس حوالے سے علمائے حق کو چاہیے کہ عقائدِ صحیحہ کے فروغ اور دینی اقدار کی بقا کے لیے کوشاں رہیں تا کہ معاشرے کو ایسے نام نہاد جعلی پیروں سے چھٹکارا دلایا جا سکے۔
- مروجہ پیری مریدی کی حیثیت - 10/07/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).