’ایک گناہ اور سہی‘ والا پاکستان

محمد حنیف - صحافی و تجزیہ کار


ہم سب کی اپنی اپنی تاریخ ہے اور ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ وہ کس دن شروع ہوئی تھی۔ ہماری عمر کے لوگوں کی تاریخ بھٹّو کی پھانسی کی خبر سن کر شروع ہوئی تھی۔
ہم سے جو تھوڑے چھوٹے ہیں انھوں نے سنا جنرل ضیا الحق کے بارے میں کہ ہمارے محبوب صدر کا طیّارہ ہوا میں پھٹ گیا اور ان کی تاریخ شروع ہوئی۔
بعد میں بے نظیر کی موت اور جنرل مشرف کے ساتھ فیس بُک فرینڈ شپ سے تاریخ شروع کرنے والے بھی ایک نسل ہے۔
اور اب تو وہی ہے جن کی تاریخ 92 کے ورلڈ کپ اور پھر عمران خان کے دھرنے سے شروع ہوتی ہے۔
حکمرانوں کے آنے جانے کے علاوہ بھی ایک تاریخ ہوتی ہے جو کوئی کتاب پڑھ کر، فلم دیکھ کر یا گانا سن کر شروع ہوتی ہے۔
آپ کو بھی غالباً یاد ہو گا کہ پہلی فلم سینما میں کون سی دیکھی تھی۔ اگر یاد ہے تو اس کے ساتھ ایک پورا ماحول، ایک تہذیب اور کئی بھلے برے چہرے بھی یاد ہوں گے۔
ہمارے گھر میں ٹی وی، فلم پر پابندی تھی۔ ایک عید پر گھر والوں سے چھپ کر سینما میں بہلی فلم دیکھی۔ اس کا نام تھا ’ایک گناہ اور سہی۔‘
فلم دیکھنا ہی ہمارا پہلا گناہ تھا۔ فلم بھی سمجھ نہیں آئی۔
اداکارہ رانی کو سگریٹ پیتے دیکھ کر علم میں اضافہ ہوا کہ لڑکیاں بھی سگریٹ پیتی ہیں۔


ہماری طرح کئی اور بھی گھر والوں سے چھپ کر فلم دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ کسی نے شکایت لگا دی۔ اس کے بعد جو پٹائی ہوئی تو ہمارا عزم اور پختہ ہو گیا۔ فلموں کے پوسٹر دیکھ کر شوق پورا کر لیتے تھے۔
ان ہی دنوں میں ایک فلم کا پوسٹر دیکھا جس کا نام تھا ’چار خون کے پیاسے‘ ۔ فلم نہ دیکھنے کی حسرت ساری عمر رہی۔
شہر پڑھنے آئے تو سینما کو ہی کلاس روم سمجھ لیا اور ’نوٹاں دا بادشاہ‘ سے لے کر ’ہتھکڑی‘ تک کوئی فلم نہیں چھوڑی۔ کبھی تعلیم کی زیادہ لگن ہوتی تھی تو ایک دن میں تین شو بھی دیکھ لیتے تھے۔
ان فلموں کی یاد حال ہی میں شائع ہوئی ایک کتاب دیکھ کر آئی جس میں عمر علی خان نے کوئی سات سو صفحوں میں پشتو، پنجابی اور اردو فلموں کے ریویوز جمع کیے ہیں۔
کتاب کے ایڈیٹر سعد خان ہیں جو ’خجستان‘ کے نام سے پاکستان میں پاپولر کلچر کا ذاتی آن لائن عجائب خانہ چلاتے ہیں جس میں فلموں کے پوسٹر، پرانے رسائل، اشتہار اور گانے اور صوتی نوادرات بھی ملتے ہیں۔

عمر علی خان کی تحریروں میں اچھوتی بات یہ ہے کہ وہ فلم کی کہانی بتاتے ہیں، اس کے بنانے والوں پر بات کرتے ہیں، فلم کتنی چلی اور کون سی ڈبہ ہو گئی یہ بتاتے ہیں۔


سیاسی فلمیں، جہادی فلمیں، جٹ فلمیں، جانوروں والی فلمیں، جنوں بھوتوں پر بننے والی فلمیں، سب پر بات کرتے ہیں لیکن کوئی بھاشن نہیں دیتے بلکہ یہ کتاب اس غریب تہذیب کا جشن ہے جو محنت کش، مزدور اور کسان طبقوں کے لیے بنائی گئی تھی۔
پشتو فلموں میں آدم خور، حسینہ، ایٹم بم اور لیڈی باس جیسے نگینے شامل ہیں۔ بدر منیر اور مسرت شاہین کے تذکرے ہیں جن کی فلمیں پشاور سے نکل کر پورے پاکستان میں چھا گئیں۔
اردو اور پنجابی فلموں میں زیادہ تر بدلے کی آگ ہے یا مغربی تہذیب کا ماتم اور ظاہر ہے اگر مغربی تہذیب کی مذمت کرنی ہے تو اس سے پہلے اسے دکھانا بھی ہو گا۔
ان فلموں میں کیمرہ ڈانسروں کے ارد گرد قلا بازیاں لگاتا ہے۔
فلموں کے نام ہی ان کے ٹریلر ہیں۔ ڈسکو ڈانسر، غیرت، ہنٹر والی، خطرناک، خان زادہ، دلہن ایک رات کی، رضیہ پھنس گئی غنڈوں میں، عورت راج، بگڑی نسلیں، لو اِن جنگل، پاک دامن، وغیرہ وغیرہ۔
کتنے خواب، کتنی خواہشیں، کتنے خوف سکرین کے پردے پر دکھائے گئے، اب ان کی جھلکیاں عمر علی خان اور سعد خان کی اس کتاب میں دیکھ سکتے ہیں۔
کوئی نصف صدی بعد ایک گناہ اور سہی کی کہانی بھی سمجھ آ گئی۔ جو گناہ ایک نسل کرتی ہے وہ آنے والی نسل کے سر ڈالتی چلی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments