اپنا اپنا دن
ایک ایرانی لوک کہانی ہے جو بہت پہلے کسی کالم میں نقل کی تھی، آج پھر سن لیجیے۔
کسی بادشاہ نے ایک عالم سے کہا کہ میرے لئے دنیا کی تاریخ لکھو، آغاز سے اب تک۔ شاہی حکم تھا، عالم نے دس سال تک دن رات ایک کر دیے اور دنیا کی تاریخ پر دفتر کے دفتر رقم کر دیے۔ دس اونٹوں پر یہ کتابیں بار ہوئیں اور عالم انہیں لے کر دربار میں حاضر ہوا۔ بادشاہ نے عالم کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی یہ عذر بھی پیش کیا کہ میرے پاس امورِ شاہی سے فراغت کے بعد اتنا وقت نہیں بچتا کہ یہ ڈھیر ساری کتابیں پڑھ سکوں، ممکن ہو تو ان کا خلاصہ کر دیجئے۔
عالم نے پانچ برس مزید لگا دیے۔ خلاصے کا مسودہ بھی ایسا ضخیم تھا کہ گدھے پر لادنا پڑا۔ خلاصہ دربار میں پہنچا تو بادشاہ نے کہا میں بوڑھا ہو گیا ہوں، مجھ میں اتنا دَم خم نہیں کہ یہ سب پڑھ سکوں، ہو سکے تو ایک کتاب کی صورت خلاصے کا خلاصہ کر دیجئے۔ عالم نے ٹھنڈی سانس اور نئی ذمہ داری کی حامی ایک ساتھ بھری۔ پانچ برس مزید صَرف کر دیے۔ پھر جو وہ حسبِ ہدایت ایک کتاب بغل میں دابے شاہی محل حاضر ہوا تو بزرگ بادشاہ بسترِ مرگ پر تھا۔ اس نے عالم سے کہا ”اے میرے پیارے دوست! میرے پاس زندگی کی آخری چند گھڑیاں ہیں، اب تو دامنِ زیست میں اتنا وقت بھی نہیں بچا کہ ایک کتاب کی ورق گردانی کر سکوں۔ ہو سکے تو اس کتاب کا خلاصہ ایک جملے میں کر دیجئے۔“
عالم کچھ دیر کو سوچ کے سمندر میں غوطہ زن ہوا اور پھر بولا ”لوگ دنیا میں آتے ہیں، تکلیفیں اٹھاتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔“
یہ ہے زندگی کا اور تاریخِ انسانی کا خلاصہ۔ یہ جو آٹھ ارب سے متجاوز تعداد میں انسان اس زمین پر پھرتے ہیں ’یہ سب اپنے اپنے حصے کا وقت کاٹ رہے ہیں اور اپنے اپنے حصے کی تکلیفیں اٹھا رہے ہیں۔ سب کے لئے ایک دن مقرر ہے‘ وہ دن جو اس زندگی کا انجام ہے۔ راجہ بھوج ہو یا گنگو تیلی، ایلون مسک ہو یا کوئی خاکروب، سب اپنے اپنے دن تک پہنچنے کے لئے بھاگ رہے ہیں۔ کوششیں کرتے ہیں کہ تکلیف کم سے کم ہو لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ بارہ برس کی تلاش کے بعد نروان پا کر کپل وستو کا شہزادہ جب مہاتما بدھ بن کے درخت تلے آن بیٹھا تو اس کے حواریوں نے حلقہ بنا لیا کہ کچھ حکیمانہ باتیں سننے کو ملیں گی۔ بدھ نے کہا ”بہت بھوک برداشت کر لی کچھ پکاؤ مل کے کھاتے ہیں۔ یہ دنیا کچھ نہیں بس دکھوں کا گھر ہے۔“
ابھی جو مہینہ جون کا گزرا ہے، اس کے آخری ایام تھے جب ملتان کے مقامی اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر چھپی کہ پندرہ سال کومے میں رہنے کے بعد فاخرہ کو بالآخر اس کا دن نصیب ہو گیا۔ پانچ ہزار چار سو چوبیس دن بستر پر گزار کر وہ اپنے دن کی ملاقات کو پہنچی۔ بہت ہوتے ہیں صاحب ساڑھے پانچ ہزار دن، خاص طور پر اس وقت جب یہ دن آپ کو مہر بہ لب اور حرکت کی استطاعت نہ رکھتے ہوئے سیدھے لیٹ کر گزارنے ہوں۔ بستر، آرام کا اور استراحت کا استعارہ ہے لیکن اگر خدانخواستہ بستر کا ساتھ طویل ہو جائے تو یہ بدن پر پھوڑے (Bed Sore) پیدا کر دیتا ہے۔
اس تمہید کے پیچھے کہانی بھی سن لیجیے۔ یہ بائیس اگست کا دن تھا اور دو ہزار نو کا سن جب چھبیس سالہ خوش رو فاخرہ ملتان شہر کے سب سے بڑے اور جدید نجی ہسپتال میں داخل ہوئی۔ فاخرہ ایک بنک افسر تھی اور مذکورہ ہسپتال اس کے بنک کے پینل پر تھا۔ فاخرہ کے ہاں پہلے بچے کی پیدائش متوقع تھی جس کے لئے وہ ہسپتال داخل ہوئی۔ وہ لیڈی ڈاکٹر شاہدہ پروین کے زیر علاج تھی۔ 23 اگست کی صبح لیڈی ڈاکٹر مذکور نے انستھیزیا کے ڈاکٹر اطہر کے ہمراہ ایپی ڈیورل انجکشن کی ٹیسٹ ڈوز لگا کر چیک کیا اور کہا کہ فاخرہ کو بے درد زچگی کے لئے ایپی ڈیورل لگایا جاسکتا ہے۔
تاہم جب زچگی کا عمل شروع ہوا تو انستھیزیا کے ڈاکٹر اطہر موجود نہ تھے چنانچہ لیڈی ڈاکٹر نے اپنے طور پر بیس سی سی ڈوز انجیکٹ کر دی۔ انستھیزیا سپیشلسٹ کے بغیر خود تجویز کردہ اس ڈوز نے سب سے پہلے فاخرہ کے بلڈ پریشر کو متاثر کیا لیکن ڈاکٹر نے اس کا کوئی نوٹس نہ لیا۔ اس اووَر ڈوز کی وجہ سے فاخرہ کو کارڈیک اریسٹ ہوا۔ نارمل ڈلیوری کو فوراً آپریشن میں بدلنا پڑا۔ فاخرہ نے اس عالم بے خودی میں ایک بیٹی کو جنم دیا۔ نوزائیدہ بچی موقع پر موجود نانا کے حوالہ کی گئی کہ فوراً چلڈرن کامپلیکس ہسپتال لے جائیں۔ اِدھر فاخرہ کے دماغ کو آکسیجن اور خون کی روانی متاثر ہوئی تو وہ کو مہ میں چلی گئی۔ نانا چلڈرن ہسپتال گئے تو پیچھے خاموشی سے فاخرہ کو نشتر ہسپتال کے آئی سی یو میں منتقل کر دیا گیا۔
ہمارے ڈاکٹر اور ان کے ایجنٹ حضرات سرکاری ہسپتالوں کو برا کہتے رہتے ہیں لیکن جب ان سے کوئی کیس خراب ہو جائے تو پھر انہی سرکاری ہسپتالوں کا سہارا لیتے ہیں۔ بہرحال بچی اگلے روز وفات پا گئی لیکن فاخرہ کے نصیب میں ابھی پانچ ہزار چار سو چوبیس دن کی اذیت لکھی تھی۔ 23 اگست 2009ء کو وہ کومہ میں گئی، اسے بستر پر بے حس و حرکت لیٹے لیٹے 28 جون 2024 ءتک پہنچنا تھا۔ اس کے شوہر کو معذور بیوی چھوڑ کے بھاگنا تھا اور ماں باپ کو بیٹی کی تکلیف پر بے بسی کے جہنم میں جلنا تھا۔ لمبی کہانی ہے، انکوائریاں، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا از خود نوٹس، حکومتی آنیاں جانیاں، فاخرہ کی چین میں علاج کی کوشش۔ کچھ بھی بار آور نہ ہوسکا۔
مجھے نہیں پتہ کہ قصور وار ثابت ہو جانے والے ڈاکٹروں اور ہسپتال انتظامیہ کو کوئی سزا ملی کہ نہیں۔ میں یہ بھی نہیں بتا سکتا کہ ایک نجی ہسپتال کی غلطی کو سرکار نے اپنے سر لے کر کیوں فاخرہ کی پندرہ سال کی ٹریٹمنٹ کا ذمہ پرائیویٹ ہسپتال پر نہیں ڈالا۔ میں تو بس یہ جانتا ہوں کہ اگر فاخرہ کیس میں قصور وار لوگ کسی یوم حساب کو مانتے ہیں تو ان کو اطلاع ہو کہ فاخرہ نے اپنے حصے کی تکلیف بھگت کے اپنا دن پا لیا، اس کے والدین کی اذیت کی نوعیت بھی بدل گئی، اب شاید رفتہ رفتہ قرار آ جائے۔ تاہم ان کا دن بھی آنے والا ہے جن کی وجہ سے فاخرہ بستر پر پڑے پڑے چھبیس سے اکتالیس برس کی ہو گئی۔
- عمر خضر - 10/08/2024
- اپنا اپنا دن - 14/07/2024
- محمد علی: مسجد سے فلم سٹوڈیوز تک - 18/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).