شمالی امریکہ کی شاعرات: ناہید ورک کے تراجم


ترجمہ وہ علاقہ غیر ہے جہاں جانے سے پہلے آپ سوچتے ہیں کہ اس علاقے میں جائیں کہ نہ جائیں۔ کچھ جیالے اور جیالیاں اس دریا میں بے خطر بھی کود پڑتے ہیں اور ان میں جو شناور ہوتے ہیں وہ دوسرے کنارے پر پہنچ کر بھی دکھا دیتے ہیں۔ مگر یہ بہت سنجیدہ کام ہے اور تخلیق سے زیادہ صبر طلب بھی ہے۔ مجھے بے حد خوشی ہوتی ہے جب ان لوگوں کو دیکھتا ہوں جو ایسے سنجیدہ کام واقعی سنجیدگی سے کرتے ہیں۔ ناہید ورک کی شاعری تو ہم سنتے اور پڑھتے آئے ہیں مگر ترجمے کے تعلّق سے محض ایک سرسری حوالہ نظروں سے گزرا تھا۔

ایک تو دنیا بہری ہوتی ہے، دوسرے چیخنے چلّانے والوں کے اودھم میں متوازن آواز سنائی مشکل سے دیتی ہے۔ لہٰذا جو لوگ پروقار طریقے سے کام کر رہے ہوں، ان کی طرف توجّہ ذرا دیر میں جاتی ہے۔ مگر یہ دنیاوی فطرت ہے اور اس کی شکایت کرنا بے کار ہے۔ ناہید ورک نے جس سلیقے سے اپنی کتاب سے نوازا، مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ ان کا کتنا بڑا کام ہو گا۔ اس کتاب میں جس کا عنوان ہے ”شمالی امریکہ کی شاعرات“ ، دس امریکی شاعرات کی نظموں کے ترجمے شامل ہیں۔ ان میں نثری ترجمے بھی ہیں اور بحر میں بھی ہیں اور ہر شاعرہ کے کلام (ترجمے ) سے پہلے اس شاعرہ کا مختصر تعارف دیا گیا ہے جو بہت اہم ہے۔

ایک تو ترجمہ اور پھر شاعری کا ترجمہ۔ المیہ یہ ہوتا ہے کہ تعریف کس کی کی جائے اصل کی یا ترجمے کی! شاعر کی یا مترجم کی۔ کسی تخلیق پارے کے مترجم کے ساتھ ایک ظلم جانے انجانے میں یہ ہوتا ہے کہ اسے پڑھ کر، اگر تحریر پسند آئے، مثلاً شاعری کو لے لیں، تو داد اسے ملتی ہے جس کا کلام ترجمہ کیا گیا اور مترجم کو بس شانے پر ہلکی سی تھپکی مل جاتی ہے۔ اگر تحریر میں مزہ نہ آئے تو اس سے قطع نظر کہ اصل متن بھی ویسا ہی تاثر دیتا ہے یا نہیں، ترجمے کے معیار پر سوال اٹھ جاتا ہے۔

مطلب یہ کہ مترجم اکثر اس چکر میں مارا جاتا ہے۔ پھر یہ کہ بہرحال اصل کام سے نظرانداز کرنا بھی نہیں چاہیے لیکن شاعری کا ترجمہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ اس میں لفظی ترجمہ کافی نہیں ہوتا بلکہ یہ بجائے خود ایک تخلیقی عمل ہے۔ لہٰذا شاعری کا ترجمہ کرنے والے یا کرنے والی کو رشک کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ یہ تلوار کی دھار پہ چلنا ہے اور ناہید ورک اس پہ خوب چلی ہیں۔

یہ کتاب چونکہ مقتدرہ کے تحت چھپی ہے، اس میں ابتداً مشاہیر اور مقتدر سیاسی شخصیات کی رسمی تحریریں بھی ہیں۔ مقتدرہ کی کتاب میں البتہ املا کی اتنی غلطیاں نہیں ہونی چاہیے تھیں جتنی کہ ہیں، کتاب کے اصل متن کی طرف آئیں تو اس میں ایک آدھ کے علاوہ تمام نظموں کا ترجمہ بہت خوب کیا گیا ہے۔ ان نظموں سے سوچ اور نظر کے کتنے ہی زاویے سامنے آتے ہیں۔ اس میں موجود کلام پڑھ کر شعریت کا احساس ہوتا ہے اور وہ لطف آتا ہے جو نظم میں آنا چاہیے اور یہی شعری ترجمے کی کامیابی ہے۔

جو کیفیات اور خیالات انھوں نے ہم تک پہنچائے ہیں، وہ ایسے متاثر کرتے ہیں جیسے کسی زبان میں براہ راست لکھا کلام کرتا ہے، چاہے ترجمے میں فطری طور پہ اور زبان کے فرق کی وجہ سے کوئی خیال یا کیفیت آنے سے رہ ہی کیوں نہ گئی ہو۔ مختصر یہ کہ اس کا سہرا مترجم کی تخلیقی صلاحیت کو جاتا ہے جس کے بغیر ترجمہ بے رس ہو سکتا ہے۔ ناہید ورک بہت خوب۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).