وہ دور جب محبت کو ’بیماری‘ سمجھا جاتا اور مریض کو مرغی کا گوشت کھانا اور سرکہ پینا پڑتا

انا پیریٹس - دا کنورسیشن


پرانے زمانے میں محبت کو کئی نام دیے گئے۔ مذہبی نقطہ نظر سے اس اصطلاح کا مطلب تھا اپنے پڑوسی کے لیے رضاکارانہ طور پر کچھ صدقہ وغیرہ کرنا۔ اس قسم کی محبت کا ذکر بائبل کے نسخوں اور ادب میں بھی ملتا ہے۔

لیکن محبت کو جذبے یا ’ایروس‘ (جسے بائبل میں شادی شدہ جوڑوں کے مابین پیار کے مترادف کہا گیا کیونکہ صرف شوہر اور بیوی کو ہی جنسی تعلق کی اجازت تھی) کے طور پر بھی بیان کیا جا سکتا ہے، جو کسی شخص کو آئیڈیلائز کرنے کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔

بارھویں صدی میں محبت پر ایک کتابچہ

بارھویں صدی میں آندریاس کیپیلینس کی لکھی ’دی امور‘ میں پیار اور جذبے کا ذکر ملتا ہے۔ یہ ایک سائنسی اور علمی مقالہ ہے جس میں وہ اصول بیان کیے گئے ہیں جن پر رومانوی تعلقات کے دوران عمل کرنا ضروری ہے۔

اس میں محبت کی تعریف ایک فطری جذبے کے طور پر کی گئی ہے جو خوبصورتی کے تصور اور محبوب کی شکل و صورت کے متعلق بہت زیادہ سوچنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔

کیپیلینس نے محبت کی مختلف اقسام میں درجہ بندی کی ہے: حقیقی محبت، ایک جیسے سماجی درجہ کے لوگوں کے درمیان محبت، بے ہودہ جسمانی محبت، ناممکن محبت اور بے ایمان محبت۔

مصنف محبت کی اس آخری قسم کی مذمت کرتا ہے۔

اس کتاب نے قرونِ وسطیٰ کے تقریباً تمام ادب، طب اور معاشرے کو متاثر کیا ہے اور یہیں سے اس خیال نے جنم لیا کہ ’محبت ایک بیماری ہے۔‘

یہ خیال ’فور باڈلی ہیومر‘ کے نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا جس کا مطلب تھا کہ صحت تب تک برقرار رہتی تھی جب جسم میں یہ چاروں چیزیں (خون، بلغم، جسم میں بننے والے سیاہ اور پیلے مادے) متوازن حالت میں ہوں۔

ڈاکٹروں کا ویژن

طبیب کانسٹینٹین افریقیینس نے اداسی پر لکھے ایک مقالے کے ترجمے میں جسم میں بننے والے سیاہ مادے کی زیادتی کا تعلق محبت کی بیماری سے جوڑا ہے۔

انھوں نے لکھا کہ بیماری کی وجہ سیاہ مادے کی زیادتی تھی، جس سے کڑواہٹ کے ساتھ ’محبت‘ کے تعلق کی وضاحت ہوتی ہے۔ ان کے مطابق یہ بیماری دماغ کو متاثر کرتی ہے اور عاشق میں تناؤ والے خیالات اور پریشانیاں بنانے کا سبب ہے۔

اسی قسم کی بات بویسئر دی ساویجز کے مقالے میں کہی گئی ہے جس میں محبت کی بیماری کو اداسی کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔

برناڈو ڈی گورڈونیو کے للین میڈیسم کے مطابق بیماری کی وجہ ’عورت سے محبت‘ تھی اور یہ مریض کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔ اس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ انسان اپنے محبوب کی تصویریں دیکھ کر جنون میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اسے اپنے دماغ پر مسلط کر لیتا ہے۔

اس حالت میں جسم کا درجہ حرارت، خون کی حرکت اور جنسی خواہش میں اضافہ ہوتا ہے۔ گورڈنیو نے علامات کی وضاحت کی ہے جن میں جلد کا زرد رنگ، بے خوابی، بھوک نہ لگنا، محبوب کی غیر موجودگی سے مسلسل اداسی وغیرہ نمایاں ہیں۔

اس حالت کو ایک بیماری سمجھا جاتا تھا۔

قرون وسطی کے ایک ڈاکٹر ارناؤ ڈی ویلانووا نے اس بیماری کی وجہ دماغ کی ’غوروفکر کرنے کی صلاحیت اور یادداشت‘ والے حصے کے غلط فیصلوں کو قرار دیا۔ اس کے نتیجے میں جسمانی درجہ حرارت میں اضافہ ہوا اور ایسا اس لیے ہوا کہ دماغ کو جنسی لذت کی توقع تھی۔

ڈرگمیٹیکان کی فلاسفی کے مطابق جس کا ذکر گورڈینو نے بھی کیا، دماغ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

سب سے پہلے پیشانی کے اوپری حصے میں سوچنے سمجھنے کی حساس صلاحیت ہے. دوسرے یعنی پیشانی کے پیچھے حساس شعور موجود ہوتا ہے جس میں مریض مناظر کو دیکھ کر مثبت یا منفی کا فیصلہ کرتا ہے۔ تیسرے حصے میں جو گردن کے نچلے حصے سے نیچے واقع ہے، حساس یاداشت ہوتی ہے جو تصویروں کی کمپیوٹرائزیشن فائل کا کام کرتی ہے۔

ادب میں محبت کی بیماری کا ذکر

اس وقت کی ادبی تحریروں میں محبت ایک بیماری کے طور پر ایک مستقل حیثیت رکھتی ہے۔ ڈی ریرم نیچرا میں لوکریٹس نے اپنی چوتھی کتاب کو محبت کے موضوع پر وقف کیا ہے اور اسے انسان کے دماغی توازن کے لیے بہت خطرناک بیماری قرار دیا ہے۔

گارسیلاسو ڈی لا ویگا محبت کی بیماری کو ایک ایسی حالت کے طور پر بیان کرتے ہیں ہے جو ان کے مطابق پاگل پن اور موت کا باعث بن سکتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح ان کی محبت کے جذبے نے انھیں مایوسی میں گھیر لیا اور پھر انھیں کہیں سکون نہیں ملا۔

اس بیماری کی تصدیق ادب کے معروف کرداروں سے بھی ہوتی ہے۔ ہیتا کے سب سے اعلیٰ درجے کے پادری کی کتاب ’دا بک آف گڈ لو‘ میں خدا سے محبت کرنے والی مسیحی روح اور اس کے عاشق کو برباد کر دینے والی ’پاگل محبت‘ کے درمیان کشمش ظاہر ہوتی ہے۔

ایک اور کتاب میں ’پاگل پن والی محبت‘ کو ذہنی بیماری اور یہاں تک کہ موت کی براہ راست وجہ کہا گیا ہے۔

ڈیاگو ڈی سان پیڈرو کی ’پرزن آف لو یا محبت کی جیل‘ میں مرکزی کردار لیریانو ’محبت کی بیماری‘ کی ایک مثال ہے۔ وہ لاریولا کے لیے گہری محبت کے جذبے کا شکار ہے اور اسی لیے وہ اپنی بھوک اور نیند کھو بیٹھتا ہےیہاں تک کہ وہ موت کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔

لا کلیستیتنا میں کلیستو محبت کی بیماری میں مبتلا ہے اور ضرورت سے زیادہ جنسی خواہشات کا اظہار کرتا ہے جو اسے محبت میں پاگل پن کی طرف لے جاتی ہیں۔

جوینت مورتوریل کا مرکزی کردار تیرانت بھی ’محبت کی بیماری‘ میں مبتلا تھا۔ وہ کارمیسینا کے لیے تکالیف سہہ رہا تھا۔۔۔ اسے بھوک نہیں لگتی تھی اور بے خوابی کی شکایت تھی۔ وہ ہر وقت روتا اور سسکتا رہتا۔

کیا محبت کی بیماری کا کوئی علاج تھا؟

بیماری کے علاج میں دو چیزیں شامل تھیں: خوراک اور اخلاقی طور پر نظم و ضبط کا مظاہرہ۔ لازم قرار دی گئی غذا میں شراب نوشی، بڑے گوشت، دودھ، انڈے، پھلوں اور سرخ رنگ کی غذاؤں سے پرہیز کرنا شامل تھا۔

ان کھانوں کی ممانعت کی وجہ یہ تھی کہ وہ خون کی حرکت اور جنسی خواہش کو بھڑکانے کا سبب سمجھی جاتی تھی۔

محبت کے مریض کو مرغی اور مچھلی کجا گوشت کھانے اور پانی یا سرکہ پینا پڑتا تھا اور کھانے سے پہلے اسے پسینہ آنا اور اس کے بعد نہانا بھی ضروری تھا۔

ان غذاؤں کے علاوہ تجویز کیا گیا کہ محبت کے مریض کو تابع بنانے کے لیے اس کے جسمانی جذبوں پر غلبہ حاصل کریں۔ اس میں اس کے گردے پر لوہے کی ٹھنڈی پلیٹ لگانا شامل تھا کیونکہ خیال کیا جاتا کہ اس عضو میں خواہشوں کا قیام ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ مریض کو جالیوں والے تکیے پر سونا اور ٹھنڈے پانی سے نہانا پڑتا تھا۔

محبت کے علاج کے اس پورے پروگرام سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ تمام برائیوں کی اصل وجہ نفسانی خواہشات کی پیروی ہے۔

ایک نیک زندگی اور ضرورت سے زیادہ خواہشات سے دوری، انسانی جسم اور روح کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے میں مدد دیتی ہے۔

اور یہ کہ ہیرو جیسی محبت موت اور اس سے بھی بدتر یعنی موت کے بعد دوزخ کے عذاب کا باعث بنتی ہے۔

٭یہ مضمون The Conversation پر شائع ہوا تھا اور کریٹو کامن لائسنس کے تحت یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 33783 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments