غروب شہر کا وقت: کتاب پر تبصرہ
اسامہ صدیق کا ناول ”غروب شہر کا وقت“ پڑھنے کے دوران مجھے بار بار یہ احساس ہوتا رہا جیسے میں بلندی سے نیچے جانے والی سیڑھیاں ایک کے بعد ایک طے کرتا جا رہا ہوں۔ سیڑھیاں جو جگمگاتی ہوئی زمین پر نہیں بلکہ کسی لامتناہی اندھیرے میں اتر رہی ہوں۔ زوال کے اصل معنی شاید یہی ہوتے ہیں۔ ایک شہر جو ثقافتی اور اخلاقی اعتبار سے ڈوبنے کے بعد اقدار کی ٹوٹی پھوٹی ہڈیوں پر تعمیر ہو رہا ہے۔ لاشیں ڈوبنے کے بعد پھر پانی کی سطح پر ابھرتی ہیں، مگر تب وہ پھولی ہوئی اور سڑتی ہوئی لاشیں ہوتی ہیں۔ اسامہ صدیق نے شہر کے زوال کا منظر لکھا ہے اور یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اگرچہ یہ ناول لاہور کے غروب ہونے کے وقت کے بارے میں ہے مگر اپنے انجام تک پہنچتے پہنچتے یہ کسی مخصوص شہر یا مقام سے ماورا ہو جاتا ہے اور دنیا کے ہر ثقافتی مرکز کے زوال کا نوحہ بن جاتا ہے۔ اسی لیے ناول میں آفاقیت اور عالمگیریت کا عنصر بہت واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اسامہ صدیق کی نثر بہت اعلیٰ پیمانے کی ہے۔ ہمارے زمانے میں اتنی عمدہ نثر کے نمونے خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ یہ نثر ہر کیفیت، ہر صورت حال اور ہر منظر کا بوجھ اٹھاتی ہے۔ یہاں تک کہ اپنی تخلیقیت کے دھارے میں تاریخی شعور کا بوجھ بھی برداشت کرتی ہے اور اس زوال کا گواہ ہر کوئی ہے۔ طالب علم سے لے کر ادیبوں تک اور جلاد سے لے کر شاعروں تک۔
اسامہ صدیق نے اپنے بیانیہ کے ساتھ اردو کی مشہور داستانوں کے بعض مناظر کی جو مثالیں پیش کی ہیں، ان سے ناول کی معنویت میں اضافہ تو ہوتا ہی ہے، ساتھ ہی ’غروب شہر کا وقت‘ ماضی کے عظیم ثقافتی مظاہر نیز قدیم داستانوں کے ایک Pastiche کی طرح بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اسامہ صدیق پیروڈی اور Pastiche کے فرق سے اچھی طرح واقف ہیں۔ Pastiche کے اس عنصر کو ناول نگار نے اس کمال خوبی کے ساتھ اپنے اسلوب میں ڈھالا ہے کہ یہ ناول اردو میں مابعد جدید بیانیہ
(post modern narrative)
کی شاید سب سے زیادہ توانا مثال بن کر سامنے آیا ہے۔
’غروب شہر کا وقت‘ میں دستاویزی اور سوانحی عناصر کے ساتھ ساتھ، خودکلامیوں، نظموں، خاکوں یا انشائیوں تک کو اپنے بیانیہ میں اس فنکارانہ ہنرمندی کے ساتھ برتا گیا ہے کہ ناول کا بیانیہ بہت ہی فطری انداز میں گھنا اور ثروت مند ہوتا چلا گیا ہے۔ اردو فکشن میں یہ یقینی طور پر ایک نیا تخلیقی تجربہ ہے۔ میں اسامہ صدیق کو دل کی گہرائیوں کے ساتھ مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ان کے گہرے تاریخی نیز سماجی شعور کا استقبال کرتا ہوں کیوں کہ فی زمانہ سیاسی اور سماجی شعور کے نام پر ناول میں صرف رپورٹنگ کی جاتی ہے۔ اسے آرٹ میں ڈھالنے کے لیے نہ کسی کے پاس وقت ہے اور نہ ہی تخلیقی صلاحیت۔ ایک عجلت پسندی ہے جو ہم سے ناول پر ناول لکھوائے جا رہی ہے۔ اسامہ صدیق نے کہیں بھی عجلت پسندی سے کام نہیں لیا اور سیاسی و سماجی حقیقت نگاری کے نام پر آرٹ کے اصل تقاضوں کو قربان نہیں کیا۔
’غروب شہر کا وقت‘ کو ایک طرح سے ڈسٹوپین ناول کے زمرے میں بھی رکھا جا سکتا ہے جہاں چیزیں ایک کے بعد ایک خراب ہوتی جا رہی ہیں سوشو پولیٹیکل ایشو سے لے کر گلوبل ایشوز اور ماحولیاتی آلودگی تک۔ میرا خیال ہے کہ اردو میں ڈسٹوپین ناول بہت کم لکھے گئے ہوں گے کیوں کہ ہماری جمالیات میں ایک خاص قسم کی خوش آئندگی کا تصور بہت مضبوط رہا ہے اور اس کی ایک طویل روایت رہی ہے۔ اس اعتبار سے بھی اس ناول کو لکھنا ایک جرات آمیز عمل کہا جائے گا۔ اگر بغور مطالعہ کریں تو ناول میں جگہ جگہ ایک قسم کا دبا دبا نوحہ ہے یا اسے بلبرنگ بھی کہا جا سکتا ہے۔ زبان و اسلوب کی یہ مثالیں ملاحظہ فرمائیں :
”چوں کہ ریسٹ ہاؤس میرا مستقل مسکن ہے، چناں چہ میں نے بھانت بھانت کے افسر اور بابو دیکھ رکھے ہیں لیکن اب رہ رہ کر احساس ہوتا ہے کہ افسروں اور بابوؤں کا معیار اتنا گر گیا ہے کہ نہ پوچھو۔ کچھ رکھ رکھاؤ تو تھا، کوئی سوٹ بوٹ، کوئی سوپ شوپ، کوئی کٹلٹس، کوئی کسٹرڈ، کوئی پلاؤ متنجن، یہ تو سارے کے سارے دن رات برائلر کھا کھا کر بھی خوش ہیں۔ کڑاہی میں بہت سارے تیل، ٹماٹر اور مرچوں میں لچڑی ہوئی برائلر اور اس کے بعد شیرا ٹپکاتی چم چم۔ بھلا بتاؤ کہ چم چم بھی کوئی خاندانی مٹھائی ہے۔ کبھی ان میں سے کسی کے ہاتھ میں کوئی کتاب نہیں دیکھی۔ نہ تو کوئی مصوری اور موسیقی کو سمجھتا ہے اور نہ ہی کوئی گہری بات ہوتی ہے۔ سارا سارا دن نوکری کی باتیں۔ کون کدھر ہے، کس کا کہاں تبادلہ ہوا، کس نے خوب مال بنایا۔ پھر وہی گھسی پٹی روزمرہ کی سیاسی بک بک۔ دماغ خراب کر رکھا ہے میرا ان پست ذہن بدبختوں نے۔
بنی نوعِ انسان کا ایک عجیب مخمصہ اور تضاد ہے اور وہ یہ کہ جہاں اس میں ہمیشہ ایسے دانا لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں جن کی نگاہیں آفاقی ہیں ۔ وہیں بحیثیت مجموعی یہ ہمیشہ اپنی بقا سے غافل رہے ہیں۔ ان داناؤں میں صرف انسان تھوڑی شمار ہوتے ہیں۔ ان میں برگزیدہ درخت بھی ہیں اور اہل عقل مچھلیاں بھی۔ بابصیرت پرندے بھی اور فطرتاً ذہین جانور اور کیڑے بھی اور ہر عہد میں کچھ زیرک انسان بھی۔ گو ضروری نہیں کہ یہ سب زوال کی تمام نشانیاں دیکھ پائیں۔“
”انسانی تہذیب اور معاشرہ پانچ عناصر کے بغیر نہ پنپ سکتا تھا اور نہ ہی بچ سکتا ہے اور وہ ہیں : ماحول، انصاف، علم، رحم اور محبت۔ یہی انسانی، تہذیبی اور معاشرتی حیات کی اساس ہیں۔ اس کی بقا کے لیے ناگزیر۔ جب یہ پامال ہو جاتے ہیں تو پھر ظلم کا بول بالا ہوتا ہے اور شہر شہرِ ناپرساں بن جاتے ہیں اور بالآخر ایسے شہر مر جاتے ہیں۔ “
تقریباً چھ سو صفحات پر مشتمل یہ ناول ایسے ہی فکر انگیز اور بصیرت افروز جملوں سے بھرا ہوا ہے۔ مثالیں بھی کتنی دی جائیں۔ اس ناول کو بقول میلان کنڈیرا تھنکنگ ناول کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے اور اردو میں اس زمرے کو محدب شیشے سے تلاش کرنا ہو گا۔ یہ بھی اچھا ہے کہ ناول میں بیان کنندہ بار بار بدلتے رہتے ہیں جس سے ایک Multilayered Narrative کی تعمیر و تشکیل ہوتی رہتی ہے۔ جگہ جگہ طنز و مزاح سے بھی کام لیا گیا ہے اور وہ بہت ضروری تھا کیوں کہ بنیادی طور پر یہ بیانیہ اتنا bleak ہے کہ اسے قابل برداشت بنانے کے لیے بلیک ہیومر کا سہارا ناگزیر تھا۔
اسامہ صدیق نے زوال کے اس منظر کو جو محض ایک شہر تک محدود نہیں بلکہ آفاقی ہے، اپنی آنکھوں سے دیکھا، محسوس کیا اور پھر اسے ایک قابلِ فخر ادبی کارنامے میں ڈھال دیا جس سے اردو فکشن میں ایک اعلیٰ اور عمدہ ناول کا اضافہ ہوا۔ ’غروب شہر کا وقت‘ اور اسے پڑھنے والا ہر شخص ایک Testimony ہے۔ ایک شہادت، ایک گواہ۔ دل کی گہرائیوں سے مبارک باد۔
- ناصر عباس نیر کی میرا جی پر کتاب - 21/07/2024
- غروب شہر کا وقت: کتاب پر تبصرہ - 19/07/2024
- نئے نقاد کے نام خطوط (ایک غیر رسمی گفتگو) - 28/07/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).