جنت سے احمد فراز کا انور مقصود کے نام خط


انور!

تم سے ملے بغیر اوپر آگیا۔ استقبال کرنے کے لئے فیض اور جون ایلیا آئے۔ جون کو دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی۔ کیوںکہ جون نے تو مجھے زمین پر ہی شاعر نہیں مانا تھا۔ فیض صاحب نے کہا “فراز، یہاں چھوٹا بڑا کوئی نہیں ہے۔ سب برابر ہیں۔ مغرب کے بعد تمہیں مرزا غالب نے بلایا ہے۔ رات کا کھانا علامہ اقبال کے ہاں ہے۔”

میں نے کہا “فیض صاحب! مرزا غالب نے مغرب کے بعد کیوں بلایا ہے؟” کہنے لگے “تم جانتے ہو مغرب کے بعد کیوں بلایا جاتا ہے۔ تمہارا شوق ہے۔” تو میں نے کہا “نہیں میں مغرب کے بعد علامہ سے ملنے جاؤں گا”۔

جون کہنے لگے، “فراز مغرب کے بعد علامہ بھی تمہیں وہیں ملیں گے”۔

مغرب کے بعد میں اور فیض صاحب مرزا غالب کے ہاں پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ مرزا کے کمرے میں اتنا بڑا ہجوم انور پاکستان کے مرے ہوئے شاعروں کا تھا، میں نے زندگی میں نہیں دیکھا۔ جگہ نہیں تھی۔ میں اور فیض صاحب برآمدے میں غالب کے ساتھ بیٹھ گئے۔ میں نے مرزا سے کہا، “مرزا آپ کی غزل کا ایک مصرعہ آج سمجھ میں آیا ہے۔

مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

مگر یہاں ‘بار’ انگریزی کا لگ رہا ہے۔”

مرزا نے کہا کہ “فراز میں کیا کروں جانتا بھی نہیں ہوں، آجاتے ہیں، میں انکار نہیں کر سکتا۔ “

مرزا کو خدا حافظ کہہ کے ہم علامہ کے گھر گئے۔ اور انور۔۔۔ میں اور فیض اتنے خوش ہوئے۔ جب ہم نے دیکھا کہ علامہ کے ساتھ محترمہ بے نظیر بیٹھی ہوئی ہیں۔

میں، بے نظیر، فیض صاحب اور علامہ پاکستان کے ماضی، حال اور مستقبل پر بات کرتے رہے۔ اچانک بے نظیر نے علامہ سے کہا، “علامہ، جو خواب آپ نے دیکھا، وہ تو پورا نہیں ہوا۔ اور جو خواب آصف نے نہیں دیکھا، وہ پورا ہوگیا! تو یہ کیسا ملک ہے؟”

اس پر فیض صاحب نے کہا “بی بی یہی جمہوریت ہے۔۔۔ جمہوریت میں لوگ جس کو چاہیں، جس کو پسند کریں، جس سے محبت کریں، اسی کو حق ہے اس کرسی پر بیٹھنے کا۔۔۔ بعد میں پسند کرنے والوں کی قسمت!”

علامہ نے مجھ سے کہا کہ “فراز کروڑوں مداحوں کو چھوڑ کر آئے ہو، کچھ کہہ کر آئے ہو ان سے؟”

میں نے اپنا ایک شعر سنایا؛

ہنگامہ محفل ہے، کوئی دم، کہ چلا میں

ساقی میرے ساغر میں ذرا کم، کہ چلا میں

اپنا شعر سنا کے میں اس کمرے میں چلا گیا جہاں میں ٹھہرا ہوا ہوں۔ رات بھر نیند نہیں آئی۔ تم لوگ بہت یاد آئے۔ صبح کے پانچ بج گئے۔ اچانک دروازے پہ ٹھک ٹھک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو میڈم نور جہاں کھڑی تھیں۔ کہنے لگیں “فراز آنے میں بڑی دیر لگائی۔ “

میں نے کہا “یہاں اپنی مرضی سے کوئی نہیں آتا ہے میڈم۔ ایک وقت لکھا ہوتا ہے اسی پر آیا جاتا ہے۔ تم صبح پانچ بجے یہاں کیا کر رہی ہو؟”

کہنے لگیں “ابھی میٹنگ ختم ہوئی ہے، ہم فیض صاحب کا سو سالہ جشن پیدائش منا رہے ہیں۔ میدان حشر میں جو آغا حشر کے گھر کے پیچھے ہے۔ میں فیض کی غزلیں گا رہی ہوں۔ نصرت فتح علی فیض کی نظمیں گا رہے ہیں۔ نظیر اکبر آبادی مہمان خصوصی ہیں۔ اور حافظ صدارت کر رہے ہیں۔ اور ہم سب نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس پروگرام کی میزبانی اگر انور مقصود کر لیں تو بہت اچھا ہوگا۔ “

اس پر میں نے کہا “میڈم کیا پاگل ہوئی ہو؟ جو حالات پاکستان کے ہیں ابھی انور کو وہاں رہنے دو۔ دو سال بعد جب ہم فیض کا جشن پپدائش منائیں گے۔ تو اس پروگرام کی میزبانی انور ہی کریں گے۔”

تمہارے نہ آنے کا منتظر!

احمد فراز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).