قرارداد مقاصد اور علامہ شبیر احمد عثمانی (13)


اس اظہاریے میں جماعت اسلامی اور سید ابوالاعلیٰ مودودی اس لیے زیر بحث آئے کہ قرارداد مقاصد منظور ہونے کے بعد جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے 15 مارچ 1949ء کو ریاست پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کے مطابق ’پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے یہ قرارداد (قرارداد مقاصد) منظور کر کے جماعت اسلامی کے مطالبہ کی روح کو قبول کر لیا ہے۔ اگر اس قرارداد کے الفاظ اور ان کے مضمرات و متقضیات کی روح و منشا کے عین مطابق دستور مرتب کیا جائے تو ریاست کے قانون کا ماخذ کتاب و سنت کے سوا کسی اور شے کو قرار نہیں دیا جا سکتا‘۔ واضح رہے کہ مارچ 1949ء میں مولانا مودودی ملتان جیل میں نظربند تھے۔ مجلس شوریٰ کی قرارداد کا مطلب یہ تھا کہ آئندہ جماعت اسلامی حکومت پاکستان کو کافرانہ حکومت نہیں کہے گی۔ اپنے ارکان کو ملکی دستور سے وفاداری کا حلف لینے یا افواج پاکستان میں بھرتی ہونے سے منع نہیں کرے گی۔ مولانا مودودی اور ان کے ساتھیوں کی نظربندی اپریل میں ختم ہو رہی تھی۔ تاہم اسی قرارداد میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ وزیراعظم لیاقت علی خان نے قرارداد مقاصد پر تقریر کرتے ہوئے اسلام کی جو جمہوری تعبیر کی ہے وہ جماعت اسلامی کے لیے قابل قبول نہیں بلکہ جماعت اسلامی کو قرارداد مقاصد کی اس غیر جمہوری تعبیر ہی پر اصرار تھا جس کا حزب اختلاف کے قائد سرس چندر چٹوپاڈھیانے خدشہ ظاہر کیا تھا۔ جماعت اسلامی کی یہ قرارداد 17 مارچ 1949ء کو روزنامہ امروز میں شائع ہوئی ۔

 قریب 36 برس بعد قرارداد مقاصد کو دستور کے دیباچے کی بجائے نافذہ متن کا حصہ بنانے میں جماعت اسلامی نے اہم کردار ادا کیا۔ محترم دوست فاروق عادل اپنی کتاب ’جو صورت نظر آئی‘ میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے میاں طفیل محمد سے سوال کیا کہ ’1985 میں جماعت اسلامی نے آٹھویں آئینی ترمیم کی منظوری میں مدد فراہم کر کے مارشل لا کو آئینی جواز فراہم کر دیا‘۔ امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد کا جواب ملاحظہ کیجئے، ’ہمارے سامنے دو راستے تھے۔ آٹھویں ترمیم کا راستہ روک کر آئینی بحران پیدا کر دیں یا ساتھ دے کر قرار دادِ مقاصد کو آئین کا قابل نفاذ حصہ بنوا دیں۔ ساتھ نہ دیتے تو ممکن ہے قرار داد کو آئین میں شامل کرانے کا موقع پھر کبھی نہ ملتا، ہم نے دوسرا راستہ اختیار کیا‘۔

برطانوی ہند کی آزادی کے ہنگام قرارداد مقاصد کی اصطلاح ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی میں پہلی بار سنائی دی۔ جولائی 1946 میں ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کے لئے انتخاب ہوا۔ دستور ساز اسمبلی کے کل 389 ارکان میں 93 خود مختار ریاستوں کے نمائندے تھے۔ مسلم لیگ کے 73 اور کانگرس کے 208 ارکان کامیاب ہوئے۔ انتخاب کے بعد مسلم لیگ نے دستور ساز اسمبلی کا بائیکاٹ کر کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ دستور ساز اسمبلی کا مطالبہ کر دیا۔ 9 دسمبر 1946ء کو متحدہ ہندوستان کی منتخب دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں 208 ارکان شریک ہوئے۔ مسلم لیگ اور خود مختار ریاستوں نے بائیکاٹ جاری رکھا۔ معلوم انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مقبوضہ قوم نے بنیادی انسانی انصاف کے سیاسی اصولوں کی روشنی میں مذاکرات کے ذریعے اپنا حق حکمرانی حاصل کیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک غیر ملکی قابض طاقت جنگ کے بغیر اپنے مقبوضات سے دست بردار ہو رہی تھی۔ نو آزاد ملک کی سیاسی قیادت کے لئے اپنے وسیع اور متنوع ملک میں شہریوں اور ریاست کے مابین عمرانی سمجھوتے کے اصول طے کرنا ایک بہت بڑا امتحان تھا ۔ چنانچہ 13 دسمبر 1946ء کو جواہر لال نہرو نے قرار داد مقاصد پیش کی جس میں آزاد ہندوستان کے بنیادی اصول بیان کیے گئے تھے۔ یہ قرار داد 22 جنوری 1947ء کو منظور ہوئی۔

پاکستان میں قرارداد مقاصد کا ذکر کراچی کے پہلے مسلمان میئر حاتم علوی نے 29 جولائی 1947ء کو قائداعظم کے نام ایک خط میں کیا تھا۔ اس خط کی اصل نقل محفوظ ہے۔ حاتم علوی نے قائداعظم کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں افتتاحی تقریر کے حوالے سے دیگر تجاویز کے علاوہ قرارداد مقاصد پیش کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔ اس خط میں ’انسائیکلو پیڈیا برٹنیکا‘ سے حضرت عمر ؓکے بارے میں ایک اقتباس بھی شامل تھا۔ قائداعظم کے سرکاری سوانح نگار ہیکٹر بولائتھو لکھتے ہیں کہ ’نئی ریاست کی تفصیلات کے جاں گسل فرائض ادا کرتے ہوئے قائداعظم اپنی زندگی کی عظیم ترین تقریر بھی لکھ رہے تھے۔ وہ بار بار اپنے میز کی طرف پلٹتے اور گھنٹوں اس تقریر پر کام کرتے جو انہیں 11 اگست کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کرنا تھی‘۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قائداعظم نے 11اگست 1947ء کو اپنی تقریر میں حاتم علوی صاحب کی تجاویز کو یکسر نظرانداز کر کے شہری مساوات پر مبنی جمہوری اور روادار معاشرے کا نصب العین بیان کیا۔ قائداعظم نے فرمایا کہ ’تم آزاد ہو، تم ریاست پاکستان میں اپنے مندر، مسجد یا کسی عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہو۔ تمہارا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا مسلک سے ہو اس کا اس بنیادی اصول سے کوئی تعلق نہیں کہ ہم سب شہری ہیں اور ایک ریاست کے مساوی شہری ہیں‘۔ اس تقریر میں یہ جملہ کہ ’مذہب کا ریاست کے امور سے کوئی تعلق نہیں‘ روادار جمہوریت کی بہترین تعریف ہے۔ قائد اعظم نے اس تقریر میں نظریہ پاکستان بھی بیان کر دیا تھا ’ہمیں شہریوں، خصوصاً عوام اور غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے ۔ شہریوں کے معیارِ زندگی میں بہتری ہی جدید اور جمہوری ریاست کا واحد اور قابلِ قبول نصب العین ہے‘۔ قائداعظم نے اپنے خطاب میں کوئی مذہبی حوالہ نہیں دیا۔ البتہ 14اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے الوداعی تقریر میں مغل شہنشاہ اکبر کی رواداری کا ذکر کیا تو اس کے جواب میں قائداعظم نے حضرت عمر ؓکے طرز حکومت کا ترجیحی ذکر ضرور کیا۔ قائداعظم کی یہ تقریر علامہ شبیر احمد عثمانی اور مولانا احتشام الحق تھانوی سمیت بہت سے حلقوں کو سخت ناگوار گزری۔ اس کی تفصیل آئندہ نشست میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments