پہلوانوں کا شہر گوجرانوالہ
گوجرانوالہ میرا محبوب اور میرے محبوبوں کا شہر ہے۔ اس کو پہلوانوں کا یا کھلی بانہوں کا شہر بھی کہتے ہیں۔ یہاں کے باسیوں کا محبوب ترین مشغلہ روٹی کھانا اور کھلانا ہے۔ ایک دفعہ روٹی کھا کر پھر کہتے ہیں، چلو یار فیر روٹی نا کھا لیے ۔ یہاں کے پتلے سے پتلے اور موٹے سے موٹے بندے کو پہلوان کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، روانی میں پہلوان پورا کہنے کی بجائے کہتے ہیں، آؤ پواں جی، بیٹھو ہور سناؤ کیہ حال جے، کیہ کھاؤ پیو گے۔ چلو پواں جی غصہ تھک دئیو، کوئی گل نہی۔ لاہوری پہلوانوں سے صرف اس قدر فرق ہے کہ یہ ر کو ر اور ڑ کو ڑ ہی بولتے ہیں جب کہ روایتی لاہوری ر کو ڑ اور ڑ کو ر بولتے ہیں، جیسے، پواں جی روٹی کھان تو بعد گر کھایا کرو، اے صحت لئی چنگا ہوندا اے۔ پواں جی تسی دسو نہ دسو، سانہوں تہاڈیاں ساڑیاں ای خبڑاں نیں۔
یہ لاہور سے شمال کی جانب جرنیلی سڑک پر 62 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اس کے آباد ہونے کی تاریخ پانچ سو سال قبل کی ہے۔ اس کی بنیاد جاٹ قبیلے کے سربراہ خان پور ساہنسی نے رکھی اور اس نے اس کا نام خان پور ساہنسی رکھا۔ گوجر جاٹ قبائل نے خان پور ساہنسی سے پے درپے جنگیں کر کے اس کو اپنا مستقل مسکن بنایا اور اس کا نام گوجراں والا رکھا جو وقت گزرنے کے ساتھ گوجرانوالہ بن گیا۔ گوجروں کے بعد سکھوں نے اس کو اپنا مسکن بنایا۔ سکھ حکومت کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پیدائش حویلی چڑت سنگھ میں ہوئی جو اندرون شہر میں واقع ہے۔ سکھوں کا تعمیر کردہ شیرانوالہ باغ اور اس میں واقع ایک بارہ دری آج بھی اس گزرے عہد کی گواہی دیتی ہیں۔ سکھوں، جاٹوں، چٹھوں اور گکھڑوں کی پے درپے لڑائیوں نے اس شہر کو ماضی میں کافی عرصہ جنگ و جدل کا میدان بنائے رکھا ہے۔ انگریز دور حکومت میں اس کو ضلع کا درجہ دے کر یہاں ایک ڈپٹی کمشنر تعینات کیا گیا۔ شہر کے مرکز میں ایک گھنٹہ گھر بھی موجود ہے۔
گوجرانوالہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا چوتھا یا پانچواں بڑا شہر ہے جس کی آبادی 55 لاکھ سے زائد ہے۔ ماضی کے انتظام کے مطابق گوجرانوالہ ڈویژن پنجاب کا دوسرا بڑا سول ڈویژن ہے جس کی آبادی دو کروڑ سے متجاوز ہے۔ یہ سڑک اور ریلوے لائن کے ذریعے پورے پاکستان سے جڑا ہوا ہے۔ سیالکوٹ ائر پورٹ اور موٹر ویز گوجرانوالہ سے کافی فاصلے پر ہیں جن کی دوری اور کمی شہریوں کو بہت محسوس ہوتی ہے۔ ابھی حال ہی میں اسے ایک 20 کلومیٹر دو طرفہ ایکسپریس وے سے لاہور سیالکوٹ موٹر وے سے جوڑا گیا ہے۔ اس شہر میں ٹریفک کی روانی کے لیے دو زمین دوز راستے اور تین بالائی پل ہیں۔ جناح فلائی اوور پاکستان کا سب سے بڑا اور تین منزلوں پر مشتمل فلائی اوور ہے جہاں لاہور، راولپنڈی، حافظ آباد اور سیالکوٹ سمیت آٹھ جانب سے ٹریفک بغیر کسی روک ٹوک اور اشارے کے رواں دواں رہتی ہے۔
اس سول ڈویژن میں گوجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ، حافظ آباد اور نارووال شامل تھے۔ گوجرانوالہ چار تحصیلوں گوجرانوالہ، کامونکی، وزیر آباد اور نوشہرہ ورکاں پر مشتمل ہے۔
گوجرانوالہ صنعت و حرفت کا مرکز ہے۔ یہ ملکی جی ڈی پی میں 5 فیصد حصہ ڈالتا ہے۔
یہاں پاکستان کی سب سے بڑی سکریپ منڈی ہے جہاں کراچی سے خصوصی اور پورے ملک سے عمومی ناکارہ بحری جہاز، گاڑیاں، بجلی اور دیگر پرانے دھاتی سامان کی تھوڑ پھوڑ کی جاتی ہے۔ ہر قسم کے گھریلو اور ہوٹلوں کے برتن اور دعوتی ساز و سامان بھی یہاں ہی تیار ہوتا ہے اور پورے ملک میں بھیجا جاتا ہے۔ سلور اور سٹین لیس سٹیل کے برتن بھی بڑے پیمانے پر تیار کیے جاتے ہیں۔ پنکھا سازی، واشنگ مشین، کولر، پلاسٹک مولڈڈ فرنیچر کے کارخانوں کی کثیر تعداد ہے۔ اعلیٰ قسم کی سرامکس اور سینٹری مصنوعات تیار کرنے میں گوجرانوالہ صف اول میں ہے۔ کپڑا سازی، ویلوٹ اور جائے نماز تیار کرنے، ہلکی اور بھاری مشینری سازی، بجلی گیس اور واٹر پمپس کی مصنوعات تیار کرنے میں بھی اس شہر کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
گوجرانوالہ کے گرد و نواح میں دیہات کی ایک کثیر تعداد واقع ہے جہاں اعلیٰ قسم کی نقد آور فصلات دھان اور گندم وسیع و عریض رقبے پر کاشت کی جاتی ہیں۔ غذائی اجناس، سبزیوں اور پھلوں کی تھوک و پرچون کی بے شمار منڈیاں ہیں۔ آٹا چکیوں اور چاول تیار کرنے کے کثیر کارخانے کام کر رہے ہیں۔ گوجرانوالا میں بین الاقوامی معیار کے سپر کرنل باسمتی چاول تیار کیے جاتے ہیں جو بیرون ملک فروخت کر کے قیمتی زر مبادلہ ملکی خزانے میں لانے کا باعث ہیں۔
گوجرانوالہ میں پہلے پہل اچھے تعلیمی اداروں کی بہت کمی تھی۔ اب بے شمار سیکنڈری سکولز گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کالجز، ایک میڈیکل کالج، انجنیئرنگ یونیورسٹی کا ایک کیمپس، پنجاب یونیورسٹی کا سب کیمپس، سیالکوٹ یونیورسٹی کا سب کیمپس، گفٹ یونیورسٹی، ورچوئل یونیورسٹی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے کیمپس شہریوں کی تعلیم و تربیت میں اعلی کردار ادا کر رہے ہیں۔
گوجرانوالہ میں سرکاری شفا خانوں کی بہت شدید کمی ہے۔ گوجرانوالہ تدریسی ہسپتال اور میڈیکل کالج کے ہسپتال نے پورے ضلع اور گرد و نواح کے دیہات کے مریضوں کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے۔ سرکاری شفا خانوں کی کمی کی وجہ سے نجی ہسپتال دن رات بڑی بڑی فیسیں لے کر مریضوں کو طبی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔
گوجرانوالہ کے کھانے کہیں اور نہیں ملیں گے۔ بڑے شوق سے پکانے اور کھانے والے یہاں ہی ملتے ہیں۔ گوجرانوالہ کی ہر گلی اور محلہ فوڈ سٹریٹ کا منظر پیش کرتے ہیں۔ زیادہ تر فوڈ سٹریٹ گرو نانک پورہ، گوبند گڑھ، باغبان پورہ، بختے والا اور لبرٹی مارکیٹ میں موجود ہیں۔ چڑے اور بٹیرے گوجرانوالہ کا ہی خاصہ ہیں۔ سری پائے، چھوٹے گوشت کی مچھلیاں، ہریسہ فرائی فش، توا فش، کباب اور تکے، نان چنے، دال چاول، کڑاہی گوشت، نمکین گوشت، حلوہ پوری اور ٹکاٹک کا کوئی جواب نہیں ہے۔ گوجرانوالہ کی دیسی گھی اور خشک میوہ جات سے تیار کردہ مٹھایاں بین الاقوامی شہرت کی حامل ہیں۔ گوجرانوالا میں روایتی اور جدید طرز کے ریستوران بڑی تعداد میں موجود ہیں اور ان کی تعداد میں دن رات اضافہ ہو رہا ہے۔
دیگر بڑے شہروں کی طرح گوجرانوالہ میں جدید طرز تعمیر اور سہولیات سے آراستہ بے شمار رہائشی اور تجارتی بستیاں تعمیر ہو چکی ہیں اور دن رات ہو رہی ہیں۔ جدید بستیوں میں سٹی ہاؤسنگ، واپڈا ٹاؤن، رائل پام سٹی، ڈی سی کالونی، گارڈن ٹاؤن، ماڈل ٹاؤن، سیٹلائٹ ٹاؤن، فضائیہ، یونیورسٹی ٹاؤن، کینال ویو، شالیمار ٹاؤن، ڈی ایچ اے، چھوٹی صنعتوں پر مشتمل تین صنعتی علاقے، کنگز مال، سوک سینٹر اور عامر سینٹر شامل ہیں۔
گوجرانوالہ چھاؤنی کا شمار پاکستان کی اہم چھاؤنیوں میں ہوتا ہے۔ یہاں 30 ویں کور کے دفاتر اور کور کمانڈر موجود ہیں۔ بہت وسیع و عریض سی ایم ایچ اور دیگر فوجی تعمیرات اور تنصیبات موجود ہیں۔
گوجرانوالہ کی اصل پہچان فن پہلوانی، پہلوان اور اکھاڑے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بالکل ختم ہو گئے ہیں۔ اب کچھ جگہوں پر کوئی ایک دو اکھاڑے موجود ہیں جہاں کچھ لوگ پرانی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں لیکن فن پہلوانی کا مستقبل بالکل تاریک ہو چکا ہے۔ گوجرانوالہ کے چند معروف پہلوان رحیم بخش سلطانی والا، یونس پہلوان، اچھا پہلوان، عصمت پہلوان محمد حسین پہلوان، غلام حسین پہلوان اور یعقوب پہلوان ماضی کا حصہ بن گئے ہیں۔
گوجرانوالہ میں جدید طرز کے بے شمار خریداری مراکز ہیں جن میں بین الاقوامی اور مقامی ملبوسات، جوتے اور دیگر اشیائے زندگی میسر ہیں۔
گوجرانوالہ نے بہت سے نامور سیاسی اور فنون لطیفہ کے سپوت پیدا کیے ہیں جنھوں نے پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ ان کی ایک طویل فہرست ہے جن میں مولانا ظفر علی خاں، جسٹس دین محمد، کاظم علی شاہ، میاں ضیاء الحق، اکرم ذکی، انور بھنڈر، استاد غلام علی، دلدار پرویز بھٹی، سہیل احمد عزیزی ڈاکٹر محمد یونس بٹ، عابد خاں، امان اللہ اور ببو برال شامل ہیں۔ کرکٹ کے کھلاڑی وسیم حسن راجہ اور رمیز راجہ کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔ ورلڈ ویٹ لفٹنگ کے گولڈ میڈلسٹ نوح بٹ بھی سپوت گوجرانوالہ ہے۔ گوجرانوالہ میں پہلے کھیلوں کے میدان اور سیر گاہوں کی کافی کمی تھی۔ صرف ایک جناح سٹیڈیم موجود ہے جو کرکٹ سمیت ہر کھیل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ پارکس اینڈ ہارٹیکلچر ادارہ بننے سے کافی سیر گاہیں تعمیر ہو گئی ہیں جن میں گلشن اقبال پارک، جناح پارک اور کچھ دوسری چھوٹی سیر گاہیں شامل ہیں۔ اتنے بڑے شہر میں صرف ایک جدید کتب خانہ جناح لائبریری اور ایک قدیم کتب خانہ جسٹس دین محمد لائبریری موجود ہیں جو علم و ادب کے لاکھوں شائقین کی عملی پیاس بجھانے کے لیے بالکل ناکافی ہیں۔
گوجرانوالہ میں ایک کثیر تعداد میں دینی مدارس دین اسلام کی تعلیم و تدریس میں مصروف ہیں۔ بڑے دینی مدارس میں جامعہ عربیہ، جامعہ محمدیہ، جامعہ جعفریہ، جامعہ ریاض المدینہ، ادارہ المصطفیٰ اور ادارہ تنظیم الاسلام شامل ہیں۔ دینی اور مصلح شخصیات میں۔ مولانا چراغ علی، مفتی جعفر حسین، مولانا حاجی محمد صادق، مولانا عبد العزیز چشتی، پیر محمد سعید احمد مجددی، صہیب احمد میر محمدی اور ثاقب رضا مصطفائی شامل ہیں۔
گوجرانوالہ میں مغل اور سکھ دور حکومت کے کچھ آثار و نشانات بھی باقی ہیں۔ شہر کے مشرقی حصے میں سرائے کچی میں شیر شاہ سوری کی تعمیر کردہ بڑے بڑے پتھروں کی ایک شاہی مسجد ہے جو ابھی تک قائم و آباد ہے۔ اس کے ساتھ ایک بزرگ بابا چمن شاہ کا مزار اور اس سے ملحقہ ایک بہت بڑا قبرستان ہے۔ اندرون شہر میں رنجیت سنگھ کے والد چڑت سنگھ کی حویلی موجود ہے۔ اس کے علاوہ ہندووں کے ایک دو مندر ہیں۔ گوجرانوالہ کے جنوب میں 8 کلومیٹر کی دوری پر ایمن آباد کا قصبہ ہے جہاں سکھوں کا گردوارہ اڑوری صاحب موجود ہے اور ساتھ ہی مغلیہ عہد کی ایک پرانی مسجد بھی ہے۔ اسی قصبہ میں یکم بیساکھ کو ہر سال میلہ بیساکھی بہت جوش و خروش سے منایا جاتا ہے جس میں سکھ یاتری خصوصی طور پر شرکت کرتے ہیں۔ گوجرانوالہ کے مغرب میں سکھوں کا آباد کردہ ایک گاؤں اور قلعہ۔ قلعہ دیدار سنگھ بھی واقع ہے۔
- دس اکتوبر عالمی یوم ڈاک کے حوالے سے مضمون - 13/10/2024
- پی ٹی وی ادا کار مظہر علی کا سانحہ ارتحال - 09/10/2024
- یوم تکریم اساتذہ 5 اکتوبر - 07/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).