شاندار، زبردست، زندہ باد


”مانجھی“ کی کہانی، پہاڑ کاٹ کر راستہ بنانے والے شخص کی کتھا ہے۔ ایک آدمی، ایک تیشے سے ایک پہاڑ کاٹتا ہے کہ گاؤں سے ہسپتال کا راستہ کھلے۔ دیوانگی کی داستان، شہر پہنچتی ہے تو پترکار، مانجھی کو کھوجتے پہاڑ تک آ نکلتے ہیں۔ گھوم پھر کر آدمی کے یہی دو چار مسئلے تو ہیں، دل اور دماغ، فرض اور حق، نظریہ اور سمجھوتہ، عقیدہ اور قربانی وغیرہ وغیرہ۔

صحافی، سوال اٹھاتا ہے کہ سچ بولنا بہت مشکل ہے، مانجھی کدال اٹھا کر جواب دیتا ہے ”پہاڑ توڑنے سے کٹھن تو نہیں۔“

عبید صاحب، کمالیہ سے چلتے ہیں اور کراچی پہنچتے ہیں، تقریباً 40 سال، روزگار کا دو اور دو، چار کرتے ہیں۔ جب کراچی کا لہجہ، کمالیہ کی بولی پہ غالب آ جاتا ہے اور بچے، ملکی اور غیر ملکی ہجرتوں کو پیارے ہو جاتے ہیں تو انہیں یاد آتا ہے کہ بڑے شہر کی کہانی سے پہلے ان کی زندگی میں چھوٹے سے قصبے کا قصہ بھی تو تھا۔ بچے انہیں شمالی امریکہ لے جانے سے تو قاصر رہتے ہیں مگر شمالی پنجاب تک لا کر ہی دم لیتے ہیں۔ عبید صاحب کے سینے میں اب تک بہر حال اس آنگن کی پھانس اٹکتی ہے جس کی کیاریوں میں سارا سال ہریاول اترتی تھی سو زمین کی تلاش شروع ہوئی۔

2018 کے دنوں میں چکوال کی زمین، زرخیزی سے زیادہ مردم خیزی کے لئے مشہور تھی۔ بالکسر کے قصبے سے تھوڑا ادھر، ماہڑی گاؤں ہے، اسی گاؤں سے ذرا آگے کسی نے انہیں زمین کا ٹکڑا دکھایا۔ مسطح زمیں، ایک قدیمی کنواں اور موٹر وے کا ساتھ، عبید صاحب نے کاغذات کی پڑتال مکمل کی اور زمین خرید لی۔ جس دن پہلی دفعہ زمین پہ کچھ اگانے کی غرض سے پہنچے اور کنویں میں ڈول ڈالا تو پتہ چلا کہ پانی تو بس وہی تھا جو نظر آ رہا تھا۔

اب انہوں نے زیر زمین پانی کا پتہ لگاتے والوں کو بلایا۔ اگلے دو سال تک زمین کے ہر کونے میں بور تو ہو چکا تھا مگر پانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ عبید صاحب، زمین کی قیمت سے زیادہ پانی کا سراغ لگانے والوں پہ صرف کر چکے تھے۔ بالآخر، ایک بڑے مشینی برمے ( Rig) کے ذریعے ایک ہزار فٹ تک کھدائی کی گئی، مگر اس بار بھی پانی کے جس ذخیرے پہ دستک ہوئی وہ چوبیس گھنٹے بعد آدھ گھنٹہ پانی فراہم کر سکتا تھا۔

یوں تو جغرافیہ کی بندشوں اور قومیت کے بکھیڑوں سے قطع نظر، زمین پہ گزارا ہوا ہر دن نیا درس دیتا ہے، مگر مٹی کی معیت میں گزرے پچھلے ایک ہزار ایک دن کا ایک ہی گیان ہے کہ دہقان، کسی پیشے کا نہیں، روئیے کا نام ہے۔ عبید صاحب، اپنا تیشہ لئے اپنا پہاڑ کاٹتے رہے۔ اپنی دھرتی کے دامن سے جل نہ مل سکا تو آس پاس کے گاؤں سے پانی مستعار لینا شروع کیا۔ سال بھر میں زمین نے سبزہ اوڑھا تو پانی دینے والوں نے معذرت کر لی تب تک عبید صاحب اپنے ہاں متعدد تالاب کھود چکے تھے۔ اب یہ ذخائر، بارش کے پانی سے سرشار ہوتے ہیں اور زندگی کا اہتمام کرتے ہیں۔

جس زمین پہ آٹھ سال پہلے صرف خاک اڑتی تھی، اب وہاں سبزیوں اور پھلوں کا من و سلوی اترتا ہے۔ جانوروں کے لئے کاشت ہوئے چارے اور انسانوں کے لئے اگنے والے اناج کے درمیان کہیں کہیں مٹیالے رنگ کا ایک ہیولہ متحرک دکھائی دیتا ہے، یہ عبید صاحب ہیں اور یہ ان کی دنیا ہے۔

سننے میں یہ کہانی جتنی دلچسپ لگتی ہے، گزرنے میں اتنی ہی پیچیدہ ہے۔ زمین کی تیاری، پانی کی عدم دستیابی، انسانی وسائل کے مسائل، منڈی کی پیچیدگیاں، آڑھتیوں کی کشیدگیاں، موسمیاتی تبدیلیاں اور آگے کو سرکتا ہوا وقت۔ یہ سب چیزیں ایک طرف ہیں اور دوسری طرف عبید صاحب ہیں۔ جو ان سب باتوں سے بے نیاز، کہیں پہ سنگتروں کی پیوند کاری کر رہے ہیں تو کہیں شملہ مرچ کے پودے ڈوریوں سے باندھ رہے ہیں، ایک طرف محرابوں کے گرد لپٹی بیلوں پہ کریلے چنے جا رہے ہیں اور اسی چھاؤں میں ادرک نمو پا رہا ہے۔ پیاز پنیریوں میں پہنچ چکا ہے اور انگور اپنی آخری فصل دے رہا ہے۔ ایک سرنگ میں حشرات کے ذریعے گوبر سے کھاد بن رہی ہے اور ایک کھیت میں نیپئیر گراس اگ رہی ہے۔ یاد رہے یہ سب جہاں ہو رہ ہے وہاں پانی نہیں ہے۔

عبید صاحب، مرنجان مرنج آدمی ہیں جن کی کھلی کوہاٹی چپل کا تنا، مٹی سے سنا رہتا ہے۔ شہری تمدن کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ سوال کی پستول داغے بنا رہا نہیں جا سکتا۔ میں نے عبید صاحب سے پوچھا کہ یہ سب کون کرتا ہے۔ کہنے لگے۔ جسے شوق ہوتا ہے۔

آپ موٹر وے سے گزریں تو ایک لمحے کے لئے یہاں رک کر سوچیں کہ شوق کا دریا، کیسے کیسے بلا خیز طوفانی ریلوں سے چڑھتا ہے اور مجبوری، رکاوٹ اور دقت کے نام کے ہر بند کو ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ میں اور آپ بس سوچ کی توجیہات گھڑتے رہ جاتے ہیں اور عبید صاحب، اک اک کر کے ہر مٹیالے کو سبز کرتے جاتے ہیں۔

محمد حسن معراج
Latest posts by محمد حسن معراج (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments