پاکستان نمبر 53 اور انڈیا نمبر 63: شکریہ ارشد ندیم


پاکستانی قوم کے چند لوگ چند دن پہلے تک جو خواب دیکھ رہے تھے۔ ارشد ندیم نے اکیلے ان خوابوں کو عملی جامہ پہنا دیا۔ ہزاروں لاکھوں پاکستانیوں نے، رنگ و نسل، مذہب اور سیاسی نفرتوں سے بالاتر ہو کر اس کامیابی پر جشن منایا۔ جس میں وفاقی حکومت کا تھوڑا سا اور شاید پنجاب حکومت کا ذرا زیادہ حصہ ہو لیکن جو کچھ چار آٹھ آنے اس پر خرچ ہوئے تھے حقیقت یہ ہے کہ وہ سب اس نوجوان نے سود سمیت ریاست کو واپس کر دیا۔ یہی نہیں اس نے دنیا بھر میں موجود پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ برصغیر پاک و ہند میں کھیلوں کو پسند کرنے والے تمام لوگوں کا سر بھی فخر سے بلند کر دیا۔

پاکستان 76 سال سے (1948) اولمپکس میں حصہ لے رہا تھا اور آج تک ہاکی کے علاوہ کسی کھیل میں گولڈ تو کیا چاندی کا تمغہ بھی نہیں جیتا تھا۔ اور آج ارشد نے نہ صرف یہ 76 سالہ جمود توڑ دیا بلکہ اولمپکس میں جیولین تھرو کی 118 سالہ تاریخ کا پچھللا ریکارڈ بھی ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ توڑا۔ یہ اولمپک ریکارڈ اب پاکستان کا قومی ریکارڈ ہونے کے ساتھ ساتھ برصغیر کا بھی ریکارڈ ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ انڈیا کا اولمپک چیمپئین نیرج چوپڑہ آج تک 90 میٹر کے فاصلے کو عبور نہیں کر سکا جبکہ ارشد نے لگ بھگ 93 اور 92 میٹر دور نیزہ پھینک کر بتا دیا کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے۔

میں نے دوسری تھرو دیکھی تو مجھے آنکھوں پر یقین نہیں آیا اور یہ اسی وقت محسوس ہو گیا تھا کہ یہ ریکارڈ شاید ہی ٹوٹ پائے یا ارشد ہی اس کو مزید بہتر کرے۔

میں ساتھ ساتھ انڈیا کے چینل دیکھ رہا تھا جہاں مقابلے سے پہلے تو ارشد اور پاکستان کے لئے طنز موجود تھا۔ لیکن 93 میٹر کی تھرو کے بعد سب کی آنکھیں پھٹی پڑی تھیں۔ اب انہوں نے ارشد کی تعریف کے ساتھ، موافق ہوا، قسمت اور تکے کو اس کا سبب گردانا۔ وہی تکا جو شاید آج تک نیرج کا لگ رہا تھا۔ جو آج تک 90 میٹر کو ہی پار نہیں کر پایا تھا۔

اس کھیل کی خوبی ہی یہی ہے کہ اگر جان لگا کر آپ کی پہلی تھرو ہی شاندار چلی جاتی ہے تو وہ آپ کو سیدھا وکٹری اسٹینڈ پر لے جائے گی۔

93 میٹر کی تھرو کے بعد ، اسی لئے ارشد نے اپنی توانائی بچا کر رکھی اور آرام آرام سے نیزہ پھینکا۔ دوسری طرف افسوس ہو رہا تھا کہ ہمارے پاکستانی چینلوں پر موجود نام نہاد تجزیہ کاروں کو یہ ہی علم نہیں تھا کہ پہلے مرحلے کی تھرو دوسرے مرحلے میں بھی گنی جائے گی۔

نیرج اور متعدد دوسرے یورپی کھلاڑی اس کھیل میں چھوٹی چھوٹی باتوں سے بہت فائدہ اٹھاتے ہیں۔ نیرج نے پوری جان لگا کر امسال کی اپنی بہترین تھرو 90 میٹر سے ذرا کم کی تو اس کو پتہ چل چکا تھا کہ وہ کہاں ہے۔ نیرج اور زیادہ تر کھلاڑیوں کا عمومی ریکارڈ بھی یہی ہے کہ اپنی سب سے اچھی تھرو یا شروع میں کریں گے یا سب سے آخر میں۔

نیرج نے اپنی آخری چار تھروز فاؤل کیں،کیونکہ ارشد کو ہرانے کی کوشش میں وہ اپنا ردھم کھو بیٹھا تھا، اور محض ایک اچھی تھرو پر چاندی کا تمغہ لے گیا۔ ارشد نے اولمپک کی تاریخ کی ریکارڈ 93 میٹر تھرو کے بعد اپنی توانائیاں بچا کر رکھیں اور آخری تھرو جو مقابلے اور اس کی بھی آخری تھی پر اپنی توانائیاں صرف کر کے ایک بار پھر نیزہ لگ بھگ 92 میٹر دور پھینک کر ہمارے انڈین دوستوں کو بتا دیا کہ پہلی تھرو کوئی تکا نہیں تھا بلکہ ارشد کی محنت کا نتیجہ تھا۔ اس میں کچھ عوامل دعا کے بھی ہوسکتے ہیں (جو ہر ملک کے لوگوں نے اپنے کھلاڑیوں کے لئے کی ہوں گی۔ لیکن ارشد مسلمان ممالک کی طرف سے واحد کھلاڑی تھا۔ جبکہ وہ اور نیرج پورے ایشیا سے محض دو کھلاڑی تھے)۔ لیکن بہرحال یہ ارشد کے اپنے خون پسینے کی کمائی ہے جس کے لئے پوری قوم اس کی ممنون اور مقروض ہے اور عرصے تک رہے گی۔ ویسے جیسے 28 سال تک پہلوان بشیر بھولا بھالا کا 1960 میں جیتا گیا اکلوتا کانسی کا میڈل اور 1988 میں حسین شاہ کا باکسنگ میں جیتا گیا میڈل ہمیں آج تک یاد ہے۔

ارشد کی کامیابی کے بعد ، دوسری طرف انڈین چینلز کا رویہ بدل گیا اور وہ اپنی قوم کو بتانے لگے کہ نیرج سے واپسی پر نفرت مت کریں۔ دوسری طرف ارشد کی تعریف کے لئے ان کے پاس الفاظ تو تھے مگر بہت کم۔ انڈیا کے لوگوں کا ایک دکھ یہ بھی ہے کہ وہ کھیل میں واحد گولڈ میڈل کے لئے نیرج چوپڑا پر ہی آس لگائے بیٹھے تھے۔ اور اب جب تھوڑی دیر پہلے میں نے اولمپک میڈل پر ملکوں کے نام دیکھے تو خوشی سے دل جھوم اٹھا۔ پاکستان ارشد کے اکلوتے میڈل کی وجہ سے اب میڈل ٹیبل پر 53 نمبر پر آ گیا تھا جب کہ انڈیا 4 کانسی اور ایک چاندی کے ساتھ 63 نمبر پر ہے۔

اب جہاں ان شاء اللہ ارشد پر کم از کم بیس تیس کروڑ کے انعامات کی بارش ہوگی۔ امید ہے کہ ایسے انفرادی مقابلے، جن میں ریسلنگ، باکسنگ، ویٹ لفٹنگ، جوڈو، دوڑ، ہائی جمپ، لانگ جمپ، ڈسکس، شاٹ پٹ اور ہیمر تھرو قابل ذکر ہیں۔ ان کے کھلاڑیوں پر کام کیا جائے گا۔ ظاہر ہے ان میں سیاست اور گروپ بندی کا عمل دخل کم ہوتا ہے اور یہ کھیل اتنا زیادہ پیسہ بھی نہیں مانگتا جیسے تیر اندازی یا رائفل شوٹنگ وغیرہ ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ ٹیم والے کھیلوں پر زور دینے کی بجائے سپر ایتھلیٹ تیار کریں۔ اور یوں اگلے سال ہم کم از کم ایک سے زیادہ میڈل اولمپک میں جیت سکیں گے۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کو بھی چاہیے کہ وہ 2028 میں ہونے والے کھیلوں اور 2024 کی کوالیفیکیشن اور ریکارڈ کو سامنے رکھتے ہوئے۔ اگلے مقابلوں کے لئے کھلاڑی تیار کرے اور ارشد کے ساتھ ایک اور جیولین کا کھلاڑی تیار کر کے اگلے اولمپک میں لے جانے کے لئے تیار کرے۔ ارشد ڈسکس اور شاٹ پٹ کا بھی اچھا کھلاڑی رہا ہے اور اگر اسے اور اس کے ماسٹر کوچ کو بھی یہ کام سیاست سے بالاتر ہو کر ابھی سے دے دیا جائے تو پاکستانی اسپورٹس کے مردہ گھوڑے میں نئی جان پڑ سکتی ہے۔

بہت کم لوگ اس بات سے آگاہ ہیں کہ ملک میں کھیلوں کی تنزلی کی ایک بڑی وجہ 18 ویں ترمیم بھی ہے جس کی رو سے کھیل ایک صوبائی معاملہ ہے۔ صرف پنجاب کا یہ حال ہے بیس پچیس ہزار معاوضے پر جو کھیلوں کے کوچ چند سال پہلے رکھے گئے تھے مہینوں سے وہ اب بے روزگار ہیں۔

بہرحال اب جب کہ سبھی آگے بڑھ بڑھ کر ارشد کی کامیابی کا کریڈٹ لینے کو تیار ہیں۔ خوشی ہوگی اگر انعامات کے ساتھ 14 اگست کو ارشد کو ستارہ نہیں بلکہ ہلال امتیاز دیا جائے۔ نشان امتیاز 2028 کے اولمپک یا اگلا عالمی مقابلہ جیتنے پر ۔ ویسے کیا کسی کو یاد ہے کہ محض چند دن پہلے ہمارے ایک کھلاڑی نے ایک انفرادی کھیل کے عالمی مقابلے میں تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ کیا اس کے لئے کوئی تالیاں بجائی گئیں یا انعام کا اعلان ہوا اور یا حکومت نے ہی کچھ انعام دے دیا ہو۔ جب کہ اسے سفر کے لئے رقم بھی کم از کم کسی سرکاری فنڈ سے نہیں ملی ہوگی۔ جی یہ شطرنج کی طرح اسکریبل کا عالمی مقابلہ تھا جو امریکہ میں کھیلا گیا اور جس میں متعدد مرتبہ کے قومی چیمپئین وسیم کھتری نے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔

ہمارے ملک میں کھیلوں سے محبت کا یہی معیار ہے۔

دوسری طرف ہمیں یہ بھی علم نہیں کہ اولمپکس میں دنیا کو حیران کردینے والا ارشد ندیم، جیولین کی عالمی درجہ بندی میں کوئی رینکنگ نہیں رکھتا تھا۔ جبکہ نیرج کی عالمی درجہ بندی دوسری ہے۔ اسی طرح ہمیں یہ بھی علم نہیں کہ ہمارے کھیلوں میں موجود سیاست نے ہمیں اس سال ایک اور یقینی میڈل سے محروم رکھا۔ یہ ویٹ لفٹنگ فیڈریشنز کے دھڑوں کی لڑائی اور ایک فیڈریشن کے اہلکار اور اس کے بیٹے کی ڈوپنگ میں ملوث ہونے کا شاخسانہ تھا کہ ہم نے اپنے بہترین ویٹ لفٹر نوح دستگیر بٹ کو ان مقابلوں میں جانے سے محروم رکھا۔ جو اس سے پہلے عالمی اور دولت مشترکہ کے مقابلوں میں ایک سے زائد میڈل جیت چکا تھا۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ متوازی فیڈریشنز کی لڑائی کی وجہ سے اب یہ کھلاڑی ویٹ لفٹنگ سے بد دل ہو کر پاور لفٹنگ اور اسٹرانگ مین جیسے مقابلوں میں حصہ لینے لگا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments