سعودی عرب کا ویژن 2030 اور پاکستان
سعودی عرب کے جواں سال شہزادے محمد بن سلمان جنہیں ایم بی ایس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے نے امور مملکت سنبھالنے کے بعد وژن 2030 پیش کیا جس کے تحت سعودی عرب کی معیشت جو ان سے پہلے آئل کی برآمد پر انحصار کرتی تھی کو تیل کے بجائے سیاحت۔ ٹیکنالوجی اور انڈسٹری کی طرف لے جانے کا عزم کیا اس کے ساتھ ہی انہوں نے سعودی عرب کو جدیدیت پر گامزن کرنے کا پروگرام دیا اور مذہبی تشخص کو بتدریج ختم کر کے ایک روشن خیال معاشرے میں بدل دینے کا عزم کیا۔ اس حوالے سے شہزادے نے متعدد انقلابی اقدام کئیے اور ملک کے نوجوان نے عام طور پر اس تبدیلی کا خیرمقدم کیا۔
محمد بن سلمان سے پہلے پورے ملک پر مطوع ( مولویت) کا راج تھا جو عوام کو ایک خاص مسلک اور طریقہ زندگی گزارنے پر مجبور کر رہے تھے
انہوں نے جبر اور سختی سے عوام کی سوچ پر پہرے بٹھا دیے تھے۔ معاشرہ ایک قسم کی گھٹن کا شکار تھا۔ شہزادہ محمد بن سلمان کے اقدامات اور تبدیلی ہوا کے ایک خوشگوار جھونکا ثابت ہوئے اور ان کی بڑے پیمانے پر پذیرائی بھی ہوئی ملک کے طول و عرض میں کہیں سے بھی کوئی آواز اٹھی نہ ہی کسی نے احتجاج کیا جو شاید معاملات پر شہزدائے کی سخت گرفت یا پھر شخصی آمریت کا ”ثمر“ ہو۔
مواصلاتی انقلاب اور سوشل میڈیا کی دسترس کے بعد دنیا بہت بدل چکی ہے اب ہر شخص کے ہاتھوں میں ساری دنیا اور ہر قسم کی انفارمیشن ایک کلک کی دوری پر ہے۔ نائن الیون اور افغانستان میں روسی شکست اور اشتراکی فلسفہ کی بربادی کے اثرات دنیا کے ہر حصے پر پڑے۔ سعودی عرب بھی اس کی زد میں آیا۔ سابقہ دور کی مذہبی انتہا پسندی کی پالیسیوں اور وہابی اسلام کی گرفت گزرتے وقت کے ساتھ کمزور ہوتی گئی ایسے میں شہزادہ محمد بن سلمان بطور ولی عہد سعودی عرب کے نئے حکمراں کے طور پر سامنے آئے۔
شہزادہ محمد بن سلمان جوان۔ اعلی تعلیم یافتہ اور انقلابی ذہن کے نوجوان تھے وہ سعودی عرب کو ایک نئے دور میں لے جانا چاہتے تھے۔ شہزادہ محمد بن سلمان کی پالیسیوں کے خلاف کسی کو آواز اٹھانے کی جرات نہیں علماء دین اور مذہبی انتہا پسند کسی کونے میں دبکے آنے والی تبدیلی کو بے بسی اور خاموشی سے دیکھ رہے ہیں۔
خبر ہے کہ سعودی شہزادے نے امریکہ میں یہودی تنظیم کے سربراہان سے بھی ملاقاتیں کی ہیں اور ان کے ساتھ یک جہتی اور تعاون کی خواہش بھی ظاہر کی ہے۔ ہو سکتا ہے سعودی اسرائیل سفارتی سطح پر تعلقات میں بھی بہتری آنے کے قوی امکان ہیں۔
فلسطین اور غزہ کی صورتحال پر بھی سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک کا رویہ انتہائی محتاط اور مصلحت آمیز ہے۔ ان ممالک میں کوئی احتجاج یا عوامی سطح پر مظاہرہ بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ اگر کسی قورم پر کوئی آواز اٹھی بھی تو وہ محض رسمی سے بیانات اور مذمت تک محدود ہے۔
جدیدیت کی طرف گامزن سعودی عرب کے نئے فرمانروا نے ملک میں تقریباً ایک صدی پر پھیلی رجعت پسندی اور گھٹن سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا ہے انہوں نے سعودی عرب میں کاسینو سے لے کر سنیما کھول دیے اور خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت بھی دے دی۔ اب وہاں میوزک کانسرٹس بھی ہو رہے ہیں اور جدید ریزورٹس بھی بن رہے ہیں جہان ہر قسم کی آزادی میسر ہوگی۔
شنید ہے کہ جدہ کے قریب نیوم نامی ایک جدید شہر بھی بسایا جائے گا جہاں یورپ کی طرز پر ہوٹل۔ جوئے خانے اور دوسری تمام عیاشیاں دستیاب ہوں گی تاکہ سعودیوں کو اپنے ہی ملک میں وہ سب کچھ میسر آ جائے جس کے لیے وہ لاس اینجلس اور مونٹی کارلو کے مہنگے ترین نائٹ کلب جاتے اور کروڑوں ڈالر راتوں رات خرچ کر دیتے تھے اب وہ سب کچھ انہیں یہیں میسر ہو گا۔
شہزادے نے تیل کی گرتی ہوئی پیداوار اور اس کے مستقبل کا ادراک کر لیا ہے اسے اندازہ ہو گیا ہے کہ دنیا متبادل توانائی جلد تلاش کر لے گی اور تیل پر سے ان کا انحصار کم سے کم ہو جائے گا جس کے بعد سعودی عرب اور خلیج کے دوسرے ممالک جن کی ساری معیشت کا انحصار تیل سے حاصل کی ہوئی دولت پر ہے زیادہ عرصہ ممکن نہیں ہوگی اور خدشہ ہے کہ تیل کے بعد وہ دوبارہ اونٹوں کے دور میں واپس نہ چلے جائیں۔
آئیے اب ایک نظر تاریخ پر بھی ڈال لیتے ہیں کہ کیسے سعودی عرب اور آل سعود کا ظہور ہوا اور کس طرع خطے میں تاج برطانیہ نے نئے ممالک تشکیل دیے۔
پہلی جنگ عظیم سے قبل خلافت عثمانیہ کی حکمرانی تقریباً سارے کے سارے مشرق وسطی، افریقہ میں کئی ممالک اور مشرقی یورپ کے ایک بڑے حصے پر قائم تھی۔ ایک شاندار ماضی رکھنے کے باوجود وہی ترکی جو سلطنت عثمانیہ کا مرکز تھا کمزور سے کمزور ہوتا چلا گیا جس کی بڑی وجہ ریشہ دوانیاں، محلاتی سازشیں اور عیاشیاں تھیں۔
وہی ترکی جس سے یورپ کے حکمراں لرزتے تھے اور اسے خراج دیتے تھے یورپ کا ”مرد بیمار Sick man of Europe“ کے نام سے پکارا جانے لگا۔
برطانوی یہودیوں کی تنظیم zionist Federation کا اصرار تھا کہ انہیں فلسطین ( جسے وہ Promised land اور اپنا موروثی وطن مانتے تھے ) کے اطراف میں ایک خطہ دیا جائے جہاں دنیا بھر سے یہودی لاکر بسائیں جائیں تاکہ ایک یہودی ریاست قائم کی جائے جس کے خواب وہ ہمیشہ سے دیکھتے آئے تھے۔ حالانکہ ان کو ارجنٹینا میں ایک یہودی مملکت کے قیام پیشکش کی گئی تھی جسے انہوں نے مسترد کر دیا اور فلسطین پر ہی بضد رہے جسے وہ اپنے آباء کی سرزمین مانتے تھے۔
یورپ اور برطانیہ کو مشرق وسطی کی اہمیت اور اس لیے ریگزاروں کے نیچے چھپے تیل کے خزانوں کا اندازہ ہو گیا تھا لہذا اس خطہ پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے جدوجہد شروع ہو گئی۔ برطانیہ نے بڑی ہوشیاری سے عرب نیشنل ازم کو بڑھاوا دیا اور عربوں کی باہمی کشمکش کو خوب استعمال کیا اس مقصد کے لیے انہوں نے حجاز کے حکمران حسین بن علی کی خدمات حاصل کی گئیں جس نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔ دیگر عرب قبائل نے بھی اس بغاوت میں حسین کا ساتھ دیا۔
انگریزوں کے ایک ایجنٹ میجر ٹی ایچ لارنس ( جو لارنس آف عربیا) کے طور پر جانا جاتا ہے نے عرب قبائل کو تربیت دی اور ان کی مدد سے خطے میں سلطنت عثمانیہ کے خلاف کارروائیاں تیز کر دیں۔ ریلوے لائن اکھاڑ دی گئیں اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا یہاں تک کہ خلیج عقبہ پر لارنس اور اس کے ہمنوا عرب قبائل نے قبضہ کر لیا۔
برطانیہ کے سکریٹری آف اسٹیٹ آرتھر بالفور نے ایک یہودی تنظیم کے سربراہ لارڈ ڈوروتھ کو ایک خط لکھا جس میں یہودی ریاست کے قیام کی یقین دہانی کرائی گئی اس منصوبے کی مخالفت حسین بن علی نے کی تو برطانیہ نے متبادل کے طور پر شاہ عبدالعزیز جو آل سعود کے روح رواں تھے سے رابطہ کیا اور انہیں پورے جزیرہ نما عرب پر حکمرانی کا اختیار اس شرط پر دینے کی پیشکش کی کہ وہ نئی یہودی ریاست کی مخالفت نہیں کریں گے۔ آل سعود نے حسین بن علی کا خاتمہ کرنے میں تاج برطانیہ کا ساتھ دیا انعام کے طور پر برطانیہ نے عبدالعزیز (شریف مکہ ) کے ایک بیٹے فیصل بن عزیز کو بغداد موصل اور بصرہ پر مشتمل ایک نیا ملک عراق کے نام سے بنا کر دیا اور دوسرے بیٹے عبداللہ کو فلسطین اور شام کے علاقہ میں اردن کے نام سے نئی مملکت کا تحفہ دیا۔ تاکہ نئے ملک ”اسرائیل“ کی راہ میں کوئی مزاحمت نہ ہو اور اس طرح دنیا بھر سے یہودی اس مجوزہ علاقے میں آ کر آباد ہونا شروع ہو گئے۔ یہودی مالدار تھے انہوں نے یہاں آ کر مقامی لوگوں سے منھ مانگی قیمتوں پر زمینیں خریدنا شروع کر دیں اور اپنی بستیاں آباد کر لیں۔
بالآخر دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر سنہ اڑتالیس میں پورپ اور امریکہ کی آشیرباد سے یہودیوں کی ایک نئی ریاست اسرائیل کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا۔
آل سعود نجد کے علاقے میں آباد ایک بدو قبیلہ تھا انہی میں سے ایک شدت پسند عالم عبدالوہاب نجدی نے آل سعود کی حمایت اس شرط پر کی کہ اقتدار میں آ کر وہ جزیرہ نما عرب پر ایک ”اسلامی مملکت“ قائم کریں گے اور بدعت کا خاتمہ کر کے شریعت کا نفاذ کیا جائے گا۔ شاہ فیصل کے دور حکومت تک سعودی عرب میں وہابی فلسفہ اور تعلیمات باقی دوسرے تمام شعبوں پر حاوی رہا اور سعودی عرب ایک قدامت پسند معاشرے کے طور پر جانا گیا اور آل سعود کے حوالے سے اس خطے کو سعودی عرب کا نام دیا گیا۔
ستر کی دہائی میں عرب کے ریگزاروں سے تیل دریافت ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہی عرب جو نان شبینہ کے محتاج تھے اچانک امیر ترین ہو گئے۔ Camel to Cadiallac کے اس سفر میں انہیں کچھ بھی نہیں کرنا پڑا۔ امریکن اور برطانوی تیل کمپنیوں نے سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو تیل کی دولت سے روشناس کرایا اور ان کو راتوں رات امیر کبیر بنا دیا۔ جبکہ دوسری طرف انہوں نے خطہ میں اپنا تسلط بھی جما لیا۔ تیل اور اس سے منسلک تنصیبات اور اس کے پردے میں فوجی اڈے قائم کر لیے جس کا عیاشیوں میں ڈوبے ہوئے عربوں کو ادراک ہی نہیں ہوا۔
یورپ اور امریکہ کے جوے خانے اور نائٹ کلب ان کی پہچان ٹھہرے۔ انہوں نے نہ تو تعلیم پر کچھ خرچ کیا اور نہ ہی متبادل معیشت کی بنیاد ڈالی اور نہ ہی اپنی آنے والی نسل کو کسی قسم کی آگہی اور تعلیم دی۔ ہیومن ریسورس کو بھی پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا بلکہ عوام کو مذہبی رجعت پسندی کے عمیق غار میں ڈھکیل دیا۔ جدید تعلیم اور بحث مباحثے پر دین کے نام پر قدغن لگا کے عربوں کو ایک تنگ نظر اور متعصب قوم کے پیش کیا جس کے پاس تیل سے ہونے والی دولت اور آسائشیں تو تھیں لیکن سوچنے والا ذہن نہیں تھا۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے یہ محسوس کر لیا ہے کہ محض تیل کی دولت پر ہی انحصار نہیں کیا جا سکتا لہذا محمد بن سلمان نے وژن 2030 کا پروگرام دیا جس کے تحت سعودی عرب کو ترقی یافتہ قوموں کے ساتھ قدم ملا کر چلنا ہو گا اور ضروری تھا کہ ملک مذہبی انتہا پسندی کو چھوڑ کر عصر جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو اور معیشت کی بہتری کے لیے تیل کے علاوہ دوسرے ذرائع بھی تلاش کئیے جائیں جس کی تکمیل کے لیے پرنس سلمان نے انقلابی اقدام کئیے وہ سیاحت کے علاوہ انڈسٹری۔ ہیومن ریسورس اور اکنامکس زون کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ یہیں نہیں بلکہ انہوں نے حج اور عمرے کو بھی ایک کارپوریٹ کلچر میں تبدیل کر دیا جس سے سالانہ کئی بلین ڈالر کی آمدنی ہو رہی ہے۔ حرم میں داخلے اور عبادات بھی اب ایپس ہی کے ذریعے ممکن ہو سکے گی۔
میں سنہ دو ہزار سے دو ہزار دس تک سعودی عرب کے شہر الخوبر میں ایک امریکن آئل کمپنی کے ساتھ رہا۔ دس سال کے اس عرصے میں میں نے سعودی عرب کو بہت قریب سے دیکھا اور وہاں عوام میں گھٹن۔ جبر اور محرومی محسوس کی۔ لیکن کسی کو آواز اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ دو سال قبل میں عمرے کے لیے گیا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سعودی معاشرہ یکسر تبدیل ہو چکا ہے۔ ائرپورٹ پر کسٹم۔ امیگرنٹس اور متعلقہ اداروں میں سعودی لڑکیاں میک اپ سے آراستہ بہت خوش اخلاقی سے پیش آ رہی تھیں وہ فر فر انگریزی بھی بول رہی تھیں ان کا رویہ بھی دوستانہ تھا اور تو اور ٹیکسی ڈرائیور بھی خواتین نظر آئیں۔ ہوٹل کے ریسیپشن پر بھی انتہائی خوش اخلاق لڑکیاں مسافروں کی رہنمائی میں مشغول تھیں۔ جبکہ پہلے ہر جگہ درشت لہجے والے شرطے ہوا کرتے تھے۔ یہ تبدیلی ایک خوشگوار ہوا کے جھونکے کی طرح محسوس ہوئی جو قابل تحسین ہے۔
سعودی عرب تو جدیدیت کی راہ پر چل نکلا اور اس نے اپنا مذہبی تشخص ترک کر دیا۔ علما اور مذہبی اداروں کا کردار بھی محدود کر دیا۔ سعودیوں نے جو مذہبی بخار اتار پھینکا وہ ہم نے اپنے گرد لپیٹ کیا جو کبھی افغان جہاد اور کبھی بلاسفیمی کے نام پر کسی کو بھی قتل کردینے کی شکل میں نظر آتا ہے۔ حکومت بھی عوام کو روزانہ کی بنیاد پر پہلے سے زیادہ شدت کی مذہبی ڈوز لگا رہی ہے۔ پاکستان مذہبی تنگ نظری اور مسلکی تعصب میں اس قدر آگے جا چکا ہے کے اب اس سے نکلنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور نظر آتا ہے
سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ نے بھی اس مہم کا حصہ ہے۔ روز نت نئے طریقوں سے ذہن سازی کی جا رہی ہے۔ مولوی حضرات کبھی کھیرا کاٹنے کا شرعی طریقہ اور کبھی جنت کی حوروں کے جسمانی خد و خال کے بیانات میں لوگوں کو الجھائے ہوئے ہیں۔ معاشرہ گھٹن اور انتہا پسندی میں اتنا آگے جا چکا ہے کہ کسی بھی اختلاف رائے کی گنجائش نہیں رہی اور ہر مخالف کے سر پر گردن زنی کی تلوار لٹک رہی ہے جب جس کا جی چاہے کوئی بھی الزام لگا کر مار دیتا ہے۔ سر تن سے جدا کا فتوی دے سکتا ہے۔ قانون اور عدالتیں خاموشی تماشائی سے زیادہ کچھ نہیں ملک پر قانون کی نہیں بلکہ انتہا پسند گروہوں کی حکمرانی ہے۔ اور حکومت ان کے سامنے بے بس ہے۔ جب جس کا جی چاہتا ہے چند سو یا چند ہزار افراد کو لا کر دارالحکومت کا گھیراؤ کر لیتا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان گروہوں کی تشکیل بھی ہمارے ہی اداروں نے کی اور اب یہ فرینکن سٹائن کے بھوت کے طرح بے قابو ہوچکے ہیں۔ عوام بے بسی کی تصویر بنے یہ تماشے دیکھ رہی ہے کسی کی جان و مال محفوظ نہیں۔ معیشت مکمل طور پر تباہ اور عوام مہنگائی سے بدحال ہیں ہر طرف ایک انارکی نظر آتی ہے۔
مقام افسوس تو یہ ہے کہ اس صورتحال سے نکلنے کی بھی کوئی صورت سامنے نہیں۔ جو لیڈر حاضر اسٹاک میں ہیں ان میں قطعی اہلیت نہیں کہ وہ کوئی حل دے سکیں اور کوئی ایسا لیڈر بھی نہیں جو پوری قوم کو لے کر چلے۔ مقامی۔ مذہبی۔ لسانی اور صوبائی لیڈر تو موجود ہیں لیکن قومی سطح پر کوئی نہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک کے وجود میں آنے کے بعد ہی سے جمہوری اداروں کو پنپنے ہی نہیں دیا گیا۔ سنہ اٹھاون ہی سے سیاسی مخالفین پر غداری اور ملک دشمنی کا ٹھپا لگا کر سسٹم سے آؤٹ کر دیا گیا۔
بنگالی عوام جو پہلے ہی زبان کے مسئلہ پر مشتعل تھے ان کا سماجی اور سیاسی طور پر بھی استحصال کیا گیا۔ ایوب خان نے مشرقی پاکستان میں ایبڈو آرڈیننس کے تحت سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں پر پابندی لگادی۔ جبر اور ستم نے نفرت کو جنم دیا جو سقوط پاکستان کا سبب بنا۔ ایوب کے بعد بھی آمریت کا عفریت منڈلاتا رہا اگر کبھی ”جمہوریت“ آئی بھی تو وہ بس نام کی تھی۔ اور اگر کوئی عوامی سطح کا لیڈر ابھرا بھی تو اسے تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔
ضیاء الحق کے دور سیاہ میں ہر آواز کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ مرد مومن مرد حق نے اسٹوڈنٹ یونین اور ٹریڈ یونین پر پابندیاں لگا دی اور اس نرسری ہی کی بیخ کنی کردی جہاں سے عوامی سطح کے رہنما آیا کرتے تھے۔ دور آمریت میں سیاسی جماعتیں۔ گروہ اور نام نہاد لیڈر فوجی بیرکوں میں پروان چڑھے۔ ریڈی میڈ قیادت اور پارٹیاں سامنے لائی گئیں جن کے پاس نہ تو کوئی سیاسی شعور تھا اور نہ ہی وہ عوام میں سے تھے۔ انہیں عوام مسائل کے بجائے اپنے اقتدار کی مدت پوری کرنے اور اگلے الیکشن میں جائز یا ناجائز طریقے سے جیتنے کی فکر رہتی ہے جن کی حیثیت کسی کٹھ پتلی سے زیادہ کچھ نہیں۔
آج بھی اسٹیبلشمنٹ اور پراسرار ادارے اپنی من پسند جماعت اور ”لیڈر“ کو عوام پر مسلط کر رہے ہیں ہر بار ایک نیا مہرہ سامنے لایا جاتا ہے۔ یہ کھیل جاری و ساری ہے اور اس کے ختم ہونے کا کوئی امکان بھی نہیں۔
دعا ہے کہ پاکستان میں بھی کوئی محمد بن سلمان کی طرح روشن خیال رہنما آئے جو دہائیوں پر پھیلی اس انتہا پسندی کو لگام دے۔ معیشت کو صحیح سمت میں لے جائے۔ امن و امان کی ابتر صورتحال کو بحال کرے اور پسی ہوئی عوام کو کچھ سکون ملے۔
ایک گردن مخلوق ہے جو ہر حال میں خم ہے۔
ایک بازوئے قاتل ہے جو خونریز بہت ہے۔
- آغا صاحب - 02/11/2024
- ملکی حالات اور دوسری ہجرت - 18/10/2024
- ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بیانات اور تنازعات - 11/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).