خالد فتح محمد کے افسانوں کی کتاب ”وقت کی قید میں“ کا ایک جائزہ
ایک مختصر کتابچہ میرے سامنے ہے۔ یہ افسانوں کی کتاب ہے جسے تحریر کیا ہے جناب خالد فتح محمد نے۔ چھوٹی کتاب کا ایک فائدہ ہے کہ اسے ایک دو نشستوں میں ختم کر دو یا پھر کتاب بہت بڑی ہونا چاہیے جو ایک لمبے عرصے تک ختم نہ ہو۔
میرے سامنے موجود کتاب کا نام ہے ”وقت کی قید میں“ ۔ خالد فتح محمد ایک بڑا لیکن کسی حد تک غیر معروف نام ہے۔ یہ کیسا درد ہے کہ ایک طویل عرصے سے لکھنے کے بعد بھی یہ نام بہت معروف نام نہیں ہے۔ بہت اچھوتے موضوعات، زندگی کی نمائندگی کرتے ہوئے بے شمار ناول اور افسانوں کی بے شمار کتابیں ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ چونکہ وہ پی آر کے بندے نہیں ہیں اس لئے گمنام ہیں شاید انہیں بھی گمنامی پسند ہے اس لئے وہ منظر نامے میں بہت کم موجود ہیں۔ اس کتاب میں 9 مختصر افسانے ہیں اور صفحات کی تعداد سو سے کم۔
پہلا افسانہ ایک اچھوتا عنوان لیے ہوئے ہے۔ ”بادِ واپسیں“ ۔ یہ ایک شخص عدیل کی کہانی ہے جسے وہ دفن کر کے آ رہا ہے۔ وہ کہتا ہے میں ہوا کی طرح ہلکا ہوں۔ وہ میرا دوست ہونے کے ساتھ ساتھ میرا دشمن بھی تھا، میں پر سکون ہوں کہ وہ مر گیا ہے۔ عدیل اس کا بھی دوست ہے اور اس کے والد کا بھی۔ عدیل کو اور اس کے والد کو ایک لڑکی مشترکہ طور پر پسند آ گئی لہذا یہ طے پایا کہ وہ باری باری اس سے شادی کر لیں گے۔ پہلے شادی عدیل نے کی اور پھر اس نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی پھر اس کے ابا نے اس سے شادی کر لی اور اس سے علیحدگی سے انکار کر دیا لیکن اب سوال ہے کہ کیا اسے اس سے محروم رکھا!
دوسرا افسانہ ”لال دوپٹہ“ ہے یہ ایک مرد کی کہانی ہے جس کے چہرے پر داڑھی سجی ہے لیکن اس کے باوجود وہ ایک لال دوپٹہ اوڑھے رکھتا ہے اور ایک بیریئر پر بھیک مانگتا ہے اور کہانی سنانے والی ایک عورت ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ ایک عورت ہے۔
تیسرا افسانہ ”پیر دلگیر“ ہے ایک ایسی کہانی ہے جو باور کراتی ہے کہ جب آپ میں مثبت انرجی ہو تو اردگرد موجود لوگوں میں صلح جوئی قائم ہو جاتی ہے۔ یہ ایک عورت کی خواہش اور ایک مرد کی عدم خواہش کی کہانی ہے۔ یہ مراقبے میں بیٹھے ایک شخص کی کہانی ہے۔
اگلا افسانہ ”موت کی سرنگ“ ہے جہاں باتیں کرتے ہوئے گدھ ہیں اور ایک مردہ انسانی جسم ہے جو سوچ رہا ہے اور ان کی باتیں سن رہا ہے۔ ”گدھوں کو دیکھ کے ہم تو سمجھے تھے کہ کوئی ڈنگر مر گیا ہے ۔ کون سوچ سکتا تھا کہ یہاں پڑا ہوا مردار انسان ہو گا“ ۔ گدھ مایوسی میں چونچ کھول کر بیٹھ گئے انھیں افسوس ہو رہا تھا کہ وہ ایک مختلف ذائقے سے محروم ہو رہے ہیں کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ انھیں انسانی گوشت کھانے کو ملے ادھر انسانی لاش کو تین دوست یاد آ رہے ہیں وہ سوچ رہا ہے کہ مر چکا ہوں پھر بھی اداس ہوں حالانکہ اداسی بھی ایک طرح کی موت ہی ہے۔
اگلا افسانہ ”وقت کی قید میں ہے“ ۔ آدھی رات سے زائد گر چکی ہے وہ سونا چاہتے ہوئے بھی سونا نہیں چاہتی۔ اسے اندھیرے سے خوف آتا ہے لیکن وہ آج اندھیرے میں ہی رہنا چاہتی ہے۔ اسے محسوس ہوا کہ روشنی میں زندہ رہنا تو ایک طرح سے فرار ہے، خوف کو دور کرنے کا بہانہ۔ اصل بہادری تو اندھیرے میں رہتے ہوئے زندگی کی لڑی جانے والی جنگ کو مسلسل دیکھتے جانا ہے۔ ایک عورت کی کہانی ہے۔
چھٹا افسانہ ”کراہ“ ہے۔ جب میں چھوٹا تھا تو ہمیشہ سوچتا کہ اگر میری ماں نہ رہے تو میں کیا کروں گا او ریہ سوچ کے ہی خوف زدہ ہو جاتا اور سوچنا شروع کر دیتا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کی والدہ کو یہ واہمہ ہو گیا کہ کوئی اس کی برہنگی کو دیکھ رہا ہے پھر یہ وقت بھی آیا کہ اس کے شادی شدہ بیٹے کو لگنا شروع ہو گیا کہ اس کی ماں وہاں موجود ہے اپنے پوتے کو لیے اور ان کی برہنگی کو دیکھ رہی ہے۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ اسے یقین ہو جاتا ہے کہ ماں واقعتاً وہاں کھڑی تھی اپنے پوتے کے پاس۔
اگلا افسانہ ”دہلیز“ ہے۔ باہر نکلنے والے دروازے کے ساتھ قد آدم آئینہ کیوں لگایا تھا؟ وہ پینتیس سال کی تھی اس کی شادی کو دس سال ہو چکے تھے او ر وہ دو بچوں کی ماں تھی لیکن اسے اپنے سراپے میں کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہوئی۔ ”ہم الگ ہوچکے ہیں لیکن گھر کی مالکہ میں ہی ہوں ابھی تک“ شیریں نے بوتل اپنی کرسی کے پیچھے رکھ دی ”میں نہیں چاہتی کہ تم حد پار کرو“ ۔ ہم الگ نہیں ہوئے ”غیاث نے شیریں کی کرسی کے پیچھے رکھی میز کو دیکھتے ہوئے کہا۔“ تم ایک گھر میں رہنے کو الگ ہونا نہیں کہتے جب کہ الگ کمروں میں رہنا الگ ہونا ہی ہے ”۔ ایک جوڑے کی کہانی جن کے دو بچے ہیں۔
”نیا ذائقہ“ اگلا افسانہ ہے۔ دریا جہاں سے موڑ کاٹتا تھا اس کے کنارے پر گھنا جنگل تھا۔ اس کے قرب و جوار میں ایسی کوئی آبادی نہیں تھی سوائے ایک پرانی بستی کے۔ اس بستی کی زندگی میں ایک تساہل، سکون اور سکوت تھا۔ اس سکوت میں ایک کالے رنگ کی کتیا بچے جننے کے لیے محفوظ جگہ ڈھونڈھ رہی تھی۔ وہ بھوکی تھی۔ کتیا نے غصے سے غراتے ہوئے ایک عورت پر حملہ کر دیا اور چھابے سے روٹی اٹھا لی۔ آخر کار ایک دن بھوک سے تنگ آ کر کتوں نے جنگل کی راہ لی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہیں جنگل میں خوراک ملنا بند ہو گئی لہذا انہوں نے دوبارہ بستی کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ لوگوں نے اپنے گھروں کو بند رکھنا شروع کر دیا۔ ایک دن ایک کتے نے ایک آدمی کی پنڈلی میں دانت گاڑ دیے اور یوں وہ ایک نئے ذائقے سے آشنا ہوا۔
آخری افسانہ ”چپ گلی کا شور ہے“ وہ رات کی چپ کا شور اپنے کاندھے پر اٹھائے تھکے تھکے قدموں سے آگے بڑھ رہا تھا۔ یہ راستہ تو وہی تھا جس پر چلتے اس نے عمر گزار دی تھی اور وہ کبھی تھکا نہیں تھا لیکن آج تھکاوٹ کا بوجھ اس سے اٹھائے نہ اٹھتا تھا۔ اس کا گھر گلی میں سب سے بڑا تھا جس میں پھولوں سے بھری کیاریاں تھیں۔ گھر میں ہر وقت پرندوں کا شور رہتا۔ رات بھر پرندوں کی گفتگو جاری رہی۔ صبح جب وہ جاگا تو سب پرندے جا چکے تھے۔ اسے اپنے سرہانے کی طرف حرکت محسوس ہوئی۔ اس نے وہاں دیکھا تو ایک مادہ وہاں بیٹھی ہوئی تھی۔
اس کتاب کو اگر نہ پڑھا جاتا تو شاید ایک کمی رہتی، زندگی کے تار و پود مکمل نہ ہوتے۔ ہر افسانہ اپنی جگہ ایک واضح پیغام رکھتا ہے۔ زندگی کی کڑیوں کو اگر کوئی شخص جوڑنا چاہتا ہے تو اسے ”وقت کی قید میں“ موجود افسانوں کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ کتاب خرید کر آپ کو ایسا نہیں لگے گا کہ آپ نے کتاب خرید کر پیسے اور وقت کا ضیاع کیا ہے۔ کتاب چھوٹی لیکن اسباق بڑے ہیں۔ یہ افسانے انسانی فکر کو مہمیز دیتے ہیں اور یہی افسانے کا کام ہے۔ اس کتاب میں آپ کو مختصر لیکن بڑے افسانے پڑھنے کو ملیں گے۔ اسے فکشن گیلری لاہور نے پیپر بائینڈ میں خوب صورت انداز میں شائع کیا ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).