ریاست ایک بار پھر مولویوں کے آگے لیٹ گئی
یہ کہانی ایک پاکستانی احمدی مبارک ثانی کی ہے جس نے چند سالوں پہلے تحریف شدہ قرآن کو بچوں میں تقسیم کیا اور اس عمل پر مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پایا گیا اور پھر پنجاب پولیس نے جنوری 2023 میں مبارک ثانی کو گرفتار کر لیا۔
مبارک ثانی کی گرفتاری کے خلاف ایڈیشنل سیشن جج اور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی مگر اپیل کو خارج کر دیا گیا اور پھر آخر میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کی گئی جو کہ فروری 2024 کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے اپیل منظور کرلی۔
اس فیصلے کے بعد دین کے ٹھیکیداروں نے دین اسلام کو بچانے کی خاطر قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مہم چلانے کا اعلان کر دیا۔ اس مہم میں تمام مکاتب فکر کے علماء نے قاضی صاحب کے فیصلے کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھتے ہوئے فیصلہ واپس لینے کا حکم دے دیا۔
قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے مولویوں کی دھمکیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے چلنے پر عافیت جانی۔ قاضی صاحب سمجھ رہے تھے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سب سے بڑی سپریم عدالت کے جج ہیں اور ان کے فیصلے کے آگے کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کر سکتا اور ریاست بھی اس معاملے میں سو فیصد ان کا ساتھ دے گی مگر مذہبی طبقے نے قاضی صاحب کو خوابوں کی دنیا سے جگانے کے لیے سڑکوں کی طرف رخ کیا اور شدت پسند مذہبی لیڈر پیر ظہیر الحسن شاہ بخاری کی جانب سے قاضی صاحب کے اوپر قتل کا فتویٰ دیتے ہوئے قتل کرنے والے کو ایک کروڑ روپے کا انعام دینے کی بھی پیشکش کر دی گئی تھی۔
چونکہ ریاست پاکستان چیف جسٹس کے فیصلے کے ساتھ کھڑے ہو کر مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کے آگے دیوار بننے کی جرات نہیں کر سکتی تھی تو حکومت پاکستان کی جانب سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس دنگل سے نکالنے اور مشکلات میں کمی کرنے کے لیے مبارک ثانی کیس کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کر دی گئی اور پھر قاضی صاحب نے اس مقدمے کی سماعت 22 اگست 2024 کو رکھ دی۔
مذہبی طبقے نے ریاست کو یاد دلانے کے لیے 22 اگست سے تین دن پہلے ہی اپنی طاقت کو دکھانے کا اعلان کر دیا اور تمام مذہبی جماعت کے مومنین کو سپریم کورٹ آف پاکستان پہنچنے کا حکم دے دیا۔ تمام مذہبی جماعتوں کے پیروکار ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ تھام کر احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کے خلاف یکجا ہو گئے اور تمام شرکاء نے مل کر ریڈ زون کو کراس کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے دروازے کے اندر داخل ہو گئے۔ شرکاء نے مل کر قاضی صاحب کو قادیانیوں کا یار قرار دیا، کچھ نے چیف صاحب کو احمدی بھی قرار دیا، اس کے علاوہ شرکاء نے مختلف نازیبا الفاظ سے مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس کو قتل کی دھمکیاں اور فتوے بھی دے ڈالے۔
اس تمام عمل کے ہوتے ہوئے ریاست پاکستان اور سیکیورٹی اداروں نے اپنی آنکھوں پر خود ہی پٹی باندھنے پر عافیت جانی اور ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ ریاست پاکستان اپنے نونہال مولویوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور 22 اگست کو سماعت کے موقع پر اسلام اور ملک کے ٹھیکیدار مولویوں نے اپنے جتھوں کے ساتھ سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے وقت کو ضائع کیے بغیر جلدی سے مولویوں کے آگے سر جھکا کر تسلیم کر لیا کے میں ابھی اتنا بڑا نہیں ہوا کہ آپ لوگوں پر ہاتھ ڈال سکوں لہذا چیف صاحب نے سینیئر علماء کو اپنے چیمبر میں آنے کی دعوت دی اور درخواست کی کے آپ لوگ خود ہی فیصلہ لکھ کر مجھے دے دیں تاکہ میں مزید غلطی سے بچ سکوں۔ چنانچہ چیف صاحب نے لکھا ہوا فیصلہ کمرہ عدالت میں سنا کر اپنی جان، عدلیہ، ریاست اور اسلام کو بچا کر قوم کی آئندہ آنے والی نسلوں پر بہت بڑا احسان کر دیا۔
ریاست بخوبی واقف ہے کے یہ کہانی یہاں پر ختم نہیں ہوگی۔ مذہبی جنونیوں کی پیاس میں تب کمی آئے گی جب اسلامی جمہوریہ پاکستان سے اقلیتوں کا 100 ٪ فیصد صفایا ہو جائے گا۔
- مولانا طارق مسعود مسئلے میں، مولوی بمقابلہ مولوی - 23/09/2024
- وطن عزیز میں ایک اور ممتاز قادری کا اِضافہ - 16/09/2024
- ریاست ایک بار پھر مولویوں کے آگے لیٹ گئی - 25/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).