ریفریشر کورس: تفریحی اور معلوماتی دورہ


بورے و الا سے بھاگم بھاگ ٹھیک ساڑھے نو بجے کالج پہنچا۔ کیوں کہ یہ ریفریشر کورس کا آخری ہفتہ تھا۔ اس لیے باقی ماندہ دنوں کو باقاعدگی سے ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں گزارنے کا ارادہ تھا۔ وہاں پہنچ کر سب سے پہلے مبارک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ جنہوں نے یہ خبر سنائی کہ بس تیار کھڑی ہے اور سب لوگ ایک دن کی آؤٹنگ کے لئے باہر جا رہے ہیں۔ ہمیں دیکھتے ہی یار لوگوں نے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ ہر کوئی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق ہمیں نئے نئے الفاظ سے نواز رہا تھا۔ بہر حال پانی کا ایک بہت بڑا واٹر کولر بس میں رکھا گیا۔ اور ہم سیون اپ فیکٹری پہنچ گئے۔ دو کیمسٹ پہلے ہی ہمارے استقبال کو موجود تھے۔ انہوں نے فیکٹری کا چکر لگوایا اور اس تمام عمل کے مختلف حصوں کی وضاحت کی یہاں ایک بات بڑی شدت سے محسوس ہوئی۔ ہماری قوم کی اکثریت لکیر کی فقیر ہے۔ کوئی کام جس طرح چل رہا ہے اس کو سمجھنے کی یا اس میں مثبت تبدیلی کا خیال بہت کم لوگوں کے ذہن میں آتا ہے۔ کیوں کہ ہمارے گائیڈ جو کہ کیمسٹ بھی تھے بنیادی معلومات فراہم کرنے سے بھی قاصر رہے۔ مثلاً انہیں یہ تو معلوم تھا کہ منوں بھرا برتن مشروب کا تیار کرنے کے لیے کتنے کلوگرام چینی درکار ہے مگر ایک بوتل میں ڈالی جانے والی چینی کی مقدار سے بے بہرہ تھے۔ یہاں سے سیون اپ اور پیپسی پینے کے بعد نشتر میڈیکل کالج پہنچے وہاں اناٹومی ڈیپارٹمنٹ میں گئے تو مولوی حضرات نے شور مچانا شروع کر دیا کہ یہاں تو بڑی عریانی ہے۔ کیوں کہ یہاں پر انسانی جسم کے مختلف اعضاء کو محفوظ کر کے شوکیسوں میں رکھا گیا تھا۔ اس کے بعد مستقبل کے ڈاکٹروں کو مردہ لاشوں پر سرجری کے سلسلے میں طبع آزمائی کرتے ہوئے دیکھا۔ اور انسانی زندگی کی اہمیت سے آگاہی ہوئی۔ کیوں کہ یہ لاشیں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں جا بجا کٹی ہوئی پڑی تھیں۔ میرے لیے انتہائی ناپسندیدہ منظر تھا۔ اس لیے میں فوراً ہی باہر چلا آیا۔

میں محمود صاحب کا ذکر کرنا بھول گیا جو کہنے کو تو ہمارے فزکس کے انسڑکٹر تھے۔ لیکن انہوں نے فزکس پڑھانے کی قسم آج تک نہ توڑی تھی۔ وہ کافی موٹے اور نسبتاً قد کے چھوٹے ہیں۔ لیکن موٹاپے کی وجہ سے زیادہ ہی چھوٹے نظر آتے ہیں۔ جب ہم سیون اپ فیکٹری پہنچے تو فیکٹری ملازمین انہیں دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ اس لیے نشتر میں حفظِ ماتقدم کے طور پر داخل ہونے سے ہچکچا رہے تھے۔ لیکن ہم لوگوں کے اصرار پر انہیں مجبوراً ہتھیار ڈالنا پڑے۔ کافی پر لطف شخصیت تھی وہاں اپنے پر مزاح فقروں سے محظوظ کرتے رہے۔ یہاں سے چناب کے کنارے پہنچے اور وہاں سے پاگلوں کی طرح دوپہر بارہ بجے کی جلتی ہوئی دھوپ میں تقریباً ایک کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے ریسٹ ہاؤس چلے آئے۔ یہاں پر ایک پہاڑی بکرے نے زریں خان صاحب سے لڑائی شروع کردی۔ زریں خان صاحب کو کمک کے میسر آنے پر غنیم دم دبا کر بھاگ نکلا۔

ڈیڑھ بجے کے قریب کینٹ جھیل پہنچے آج ضیا الحق صاحب تشریف لا رہے تھے۔ اس لیے حفاظتی اقدامات کے سلسلے میں جھیل کی گہما گہمی نہ ہونے کے برابر تھی۔ لوگ موٹر بوٹ میں سواری کے خواہاں تھے۔ وہاں پر موجود ایک اے ایس آئی سے بات کر کے کشتی میں سوئے ڈرائیور کو جگایا۔ اس نے کشتی سٹارٹ کی لیکن کنارے سے تھوڑی دور جا کر ہی اس کا انجن بند ہو گیا۔ اس کے بعد وہاں پر موجود دوسری کشتی کو سٹارٹ کر کے وہاں لایا گیا اور سواریوں کو اس کشتی میں منتقل کیا گیا لیکن وہ بھی یہ بارِ عصیاں اٹھانے سے گریزاں تھی۔ کنارے پر کھڑے ہوئے ہمارے ساتھی ہمارے بے بسی کا مذاق مختلف فقرے چست کر کے اڑا رہے تھے۔ وہاں سے چپوؤں کی مدد سے کشتی کو کنارے لگایا۔ اڑھائی بجے کالج پہنچے۔ دوپہر کے کھانے کے لیے مرغ روسٹ اور خربوزوں کا بندوبست تھا۔ لیکن انتظامیہ کی عدم دلچسپی کی وجہ سے کھانا بے مزہ ہی رہا۔ جسے باتوں کے زور پر مزیدار بنانے کی کوشش کی گئی۔ اپنے کمرے میں پہنچے تھکاوٹ کے باعث فوراً ہی نیند آ گئی۔ شام کو سو کر اٹھے کچھ دیر سیر سپاٹا کیا۔ کھانا کھا کر باہر لان میں کرسیوں پر بیٹھ کر بارہ بجے تک گپ شپ کرنے کے بعد سو گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments