جذبہ دوستی کے کچھ پہلو
زندگی کے اداس لمحوں میں
بے وفا دوست یاد آتے ہیں
کون ہے جسے عدم کا یہ شعر پسند نہ ہو؟ حتیٰ کہ ایسے اصحاب جن میں سرے سے ذوق شعریت کا فقدان ہے، وہ بھی اس کے جادو کے منکر نہیں ہیں۔ اس کی وجہ بذات خود شعر نہیں بلکہ وہ تاثر ہے جسے پیدا کرنے میں یہ شعر ایک خاص کردار ادا کرتا ہے۔ یہ شعر سن کر ہر کسی کو کوئی نا کوئی اپنا بے وفا دوست یاد آ جاتا ہے۔ ایسا دوست جس سے انہوں نے وفا کی، اس کی حتیٰ المقدور مدد کی مگر اس نے موقع پڑنے پر دغا بازی سے کام لیا اور دوستانہ تعلقات کو فراموش کر کے بے مروتی اور طوطا چشمی کا ثبوت دیا۔ آپ غریب سے لے کر امیر تک، جاہل سے لے کر دانشور تک، کسی سے بھی اس موضوع پر اظہار خیال کو کہیں سب ہی کی زندگی میں ایک آدھ بے وفا دوست آ چکا ہے۔ ایسے اصحاب کے گلے شکووں پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو احساس ہوتا ہے کہ جنس وفا شے نایاب ہے۔ فرض شناسی محض ایک تخیلی پرچھائیں کی حیثیت رکھتی ہے اور ثبات صرف مطلب پرستی کو نصیب ہے لیکن کیا یہ حقیقت ہے؟ کم از کم میں تو اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوں۔ دوست اور اس کی دوستی کو جانچنے کے لئے کئی معیار اور کسوٹیاں ہیں اور ہر فرد نے دوستی کے لئے جن خوبیوں کو لازمی قرار دے رکھا ہے وہ سراسر اس کے جذبات و تعصبات اور احساس و تصورات سے عبارت ہیں۔ ہر آدمی دوست کو ایک خاص زاویہ سے، جو اس کی نجی پسند و ناپسند کے خطوط سے بنا ہے، دیکھنے کا عادی ہے۔ سب نے ذاتیات کی رنگین عینک لگا رکھی ہے۔ جس سے انہیں ہر چیز ایک ہی رنگ میں رنگی نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثریت اس معاملہ میں جذباتی بلکہ انتہا پسند واقع ہوئی ہے اور اس لئے دوستی تاش محل اتنی وقعت رکھتی ہے۔ ایک ہلکا سا ہیجانی یا جذباتی دھچکا اور دھڑام تمام محل زمین پر آ رہتا ہے۔ واقفیت کو دوستی کا روپ دھارنے میں ہم خیالی سب سے زیادہ مدد دیتی ہے۔ باہمی دلچسپیاں، ذہنی مطابقت، مشترکہ شوق، مماثلت عقائد، یکسانی خیالات اور مفاہمت تصورات ایک لمحہ میں ہی دو انسانوں کو لازوال دوستی کے رشتہ میں باندھ سکتے ہیں۔ بلکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ تمام دوستی کی اساس اسی چیز پر قائم ہے اور اس کی استواری کا دار و مدار اور انحصار بھی اسی پر قائم ہے۔ مگر میرے خیال میں یہی چیز یعنی ہم خیالی ہی دوستی کی جڑ کو گھن کی طرح کھا جاتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان اپنے خیالات، تصورات اور عقائد کا غلامانہ حد تک وفادار ہوتا ہے کیونکہ سبھی اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ان کے حصول میں ذاتی کاوش، تجربات و مشاہدات اور ذہنی سعی بروئے کار لائی گئی ہے۔ اسی طرح ایک غلط فہمی اور بھی ہے جس میں سب مبتلا ہوتے ہیں کہ جیسی زندگی اچھی یا بری ہماری گزری ہے اور کسی کی بھی نہیں گزری اور یوں سمجھتے ہیں کہ یہ خیالات بطور خاص تجربات زیست اور بلندی و پستی شاہراہ حیات سے اخذ کردہ ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ خیالات، تصورات اور عقائد فرد کی شخصیت کا جزو بن کر رہ جاتے ہیں اور اس معاملے میں وہ اتنا متعصب ہوجاتا ہے کہ مخالف آرا تو برداشت کرتا ہی نہیں گویا کسی اور کی مشاورت سے بھی عاری ہوجاتا ہے۔ اس لئے وہ انہیں غیرمنطقی و غیر اہم گردانتا ہے۔
لوگ اپنا مذہب اس لیے تبدیل یا رد نہیں کرتے کہ انہیں اپنے مذہب کی کم مائیگی کا احساس ہو جاتا ہے بلکہ اس لیے کرتے ہیں کہ یوں انہیں اپنے خیالات و نظریات سے ہم آہنگ ایک وسیع کھلا میدان مل جاتا ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں انسان اپنے خیالات سے اس قدر اُنس رکھتا ہے اور کیسے وہ اس کی شخصیت میں گھر کر لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر انسان کو اپنے آپ میں کسی نہ کسی کمی کا احساس مارے ڈالتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اگر مجھ میں یہ چیز ہوتی تو میں زیادہ خوش ہوتا۔ اگر اس کے وجود یا جسم میں یہ کمی نہ ہوتی تو وہ زیادہ پرکشش محسوس کرتا اور اس کی زیادہ عزت کی جاتی غرض کہ کسی نا کسی پہلو سے سب کو اپنے ”نامکمل“ ہونے کا احساس رہتا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ یہ احساس ٹھوس اور بنیادی وجوہات بھی رکھتا ہے یا نہیں۔ یہ احساس اسے اپنی نظروں میں حقیر بنا کر رکھ دیتا ہے اور ظاہر ہے کہ جب انسان اپنی اہمیت اور قدر خود ہی نہ پہچانے تو وہ دوسرے افراد پر کس طرح مثبت اور خوشگوار اثر ڈال سکتا ہے۔ یہ احساس یا دوسرے الفاظ میں احساس کمتری انسان کو مضطرب اور بے چین رکھتا ہے اور وہ اس کو دور کرنے کے لئے کچھ نا کچھ کرتا رہتا ہے۔ اور ان میں سب سے آسانی سے جو شے حاصل کی جا سکتی ہے وہ ہے خیالات۔ ہر انسان ذرا سے مطالعے سے ادھ کچرے نظریات وضع کر کے دانشور بن سکتا ہے یا ایسا ظاہر کر سکتا ہے اور یہ خیالات جو اسے جدید اور نئے قسم کے معلوم ہوتے ہیں جب دوسروں پر رعب گانٹھنے میں مدد دیتے ہیں تو یہ شخصیت کے لئے نقاب کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ ایک سرمایہ دار کی بیگم چاہے تو پلاسٹک سرجری سے اپنی بدنما ناک کو خوبصورت بنوا سکتی ہے مگر ایک کلرک کی بیوی ایسا نہیں کر سکتی۔ اب اگر اس ناک کی کی وجہ سے معاشرے کی ”ناک“ کی بلندی کا ہر وقت خیال رکھے تو وہ بے قصور سمجھی جانی چاہیے۔ چونکہ یہ خیالات احساس کمتری سے چھٹکارا حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ اس لئے ہر انسان اس معاملے میں کنویں کا مینڈک ثابت ہوتا ہے اور اپنے خیالات کے دائرہ سے باہر اس کے نزدیک جہالت، اندھیرا اور لاعلمی ہے۔ ریشم کے کیڑے کی طرح اپنے چار اطراف سنہری خول بُن رکھا ہے جس میں اس کی شخصیت اونگھتی رہتی ہے اور جس سے قصداً باہر نہیں نکلنا چاہتا۔ علم کی طرح خیالات بھی ایسی دولت ہے جو چرائِی نہیں جا سکتی اور اس لئے ایک دفعہ وضع ہونے پر خیالات کم ہی بدلے جاتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ انسان ہم خیال سے مل کر خوشی محسوس کرتا ہے کیونکہ اس کی انانیت اس امر سے تسکین پاتی ہے کہ میرے خیالات ایسے ہیں جو دوسروں نے بھی اختیار کر رکھے ہیں اور یہ ہم خیالی جلد ہی تعلقات استوار کر دیتی ہے۔ مگر کیا انسان اپنے دوست سے محبت کر رہا ہوتا ہے؟ میں اس کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا کیونکہ فرد واحد اپنے خیالات سے محبت کر رہا ہوتا ہے گویا خیالات اس کے اپنے ہیں تو حقیتاً وہ اپنے آپ سے محبت کر رہا ہوتا ہے۔ اسے اپنا دوست اس لیے اچھا لگتا ہے کہ اس کے خیالات کے آئِینے میں اسے اپنے خیالات جلوہ فگن نظر آ کر اس کے احساس کمتری کو تسکین و فرحت بخشتے ہیں۔ اور جیسے جیسے خیالات ملتے جائیں گے دوستی بڑھتی چلی جائے گی۔ کباب میں ہڈی تو اس وقت آتی ہے جب خیالات کا ٹکراؤ اور نظریاتی اختلافات شروع ہو جاتے ہیں۔ اور جس طرح کسی طلمسی قصر کے منہدم ہوتے ہی ہر طرف لق و دق صحرا نظر آتا ہے اور اس طرح ہم آہنگی خیالات کا جادو سر سے اترتے ہی جو پہلے ہیرا نظر آتا تھا وہ پتھر کا ٹکڑا بھی نہیں رہتا۔ اور اس کی شخصیت سے خیالات کا زریں لبادہ اترتے ہی وہ انسان کے علاوہ ہر چیز نظر آنے لگتا ہے۔ تجربات سے خیالات مستند ہوتے ہیں۔ آپ ذرا ظرف نگاہی اور ٹھنڈے دل سے کام لیں۔ حکم صادر کیے جاتے ہیں، نا کہ خیالات۔ اشتراک خیالات دوستی کی بنیاد نہیں ہونے چاہیئں۔ دوستی کی بنیاد رکھنے کے لئے آپ کے اندر والٹیر جیسی وسعت قلبی ہونی چاہیے۔
بقول والٹیر ”گو میں تمہارے خیالات سے متفق نہیں مگر ان کے اظہار کے حق کے لئے میں مرتے دم تک تمہارا دفاع کروں گا“ ۔
تو مجھے امید ہے کہ آپ دنیا میں کسی بھی شخص سے نا امید نہ ہوں گے ۔ ہر شخص میں سینکڑوں خامیوں کے باوجود کہیں نہ کہیں دبا ہوا ایک اچھا پہلو ضرور ہوتا ہے صرف مشاقانہ انداز میں اس کو ٹٹولنے کی ضرورت ہے۔ سادہ الفاظ میں میرا یہ کلیہ ہے کہ کوئی انسان آخر کس حد تک اچھا ہو سکتا ہے یا کس حد تک برا ہو سکتا ہے۔ بلکہ آپ اس کی خوبیوں کو نظر انداز ہی کر دیں کیونکہ ان کے بغیر بھی گزارا ہو سکتا ہے۔ لیکن انسان کے کمزور پہلووں، اس کی شخصیت کے خام اجزا اور برائیوں پر نظر رکھنی چاہیے، تضحیک نہیں بلکہ مثبت تنقید کے لئے۔ آپ ان کا تجزیہ کر کے ان کی اساسی وجوہات دریافت کرنے کی کوشش کریں۔ وجوہات سمجھنے کی کامیابی ہی درستگی میں پیش حل بنتی ہے۔ یوں آپ درجہ بہ درجہ خامیوں سے خوبیوں تک کے سفر میں کامیاب ہو گئے تو اس دن دوستی غیر متزلزل بنیادوں پر استوار ہو جائے گی۔ کیونکہ آپ اس وقت ان برائیوں سے پیار کر رہے ہوں گے کہ وہ آپ کے دوست کی برائیاں ہیں اور ویسے بھی برائیاں ہی انسان میں انفرادیت اور شخصیت کی تشکیل کرتی ہیں۔ ہر انسان ذرا سی کوشش کے بعد اچھا انسان بن سکتا ہے مگر برا بننے کے لئے اسے جن روحانی اذیتوں، ضمیر کے کچوکوں اور سماجی و اخلاقی اصولوں کو توڑنا پڑتا ہے وہ اس کی روح اور ذہن میں ہمیشہ کے لئے گہرے گھاؤ ڈال دیتے ہیں۔ چنانچہ جب آپ اس کی برائیوں کی تہہ کو پہنچ گئے تو وہاں آپ کو اس کا ماحول اور حالات قصور وار نظر آئیں گے اور آپ اس کی برائیوں کو سہارا دے کر اس میں خود اعتمادی پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور یوں آپ بھی اپنے احساس کمتری و برتری سے ماورا ہو پائیں گے۔
- جذبہ دوستی کے کچھ پہلو - 23/09/2024
- سالِ نو مبارک - 01/01/2021
- ایدھی بعد از ایدھی - 13/10/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).