روشن آرا بیگم…. من ڈولے ہولے ہولے


پہلی لام کا ہنگام اپنے انت کو بڑھ رہا تھا۔ ہندوستان میں تحریک خلافت کی گونج تھی مگر کلکتہ کی گلیوں میں خیال کی سرگم بسی تھی۔ چتر وینا کی لے تھی۔ ستار کے تاروں کی جھانجھ تھی۔ وحشت کلکتوی کی غزل تھی۔ نذر الاسلام کا گیت تھا۔ ٹیگور بانی کا جادو بولتا تھا۔ محی الدین ابوالکلام آزاد کا خطبہ سنائی دیتا تھا۔

یہیں1917 میں ایک متوسط گھرانے میں وحیدالنسا پیدا ہوئیں۔ والد چوب کار تھے۔ لکڑی پر نقش و نگار بنا کر رزق کماتے تھے۔ بیٹی کو یہی نقش و نگار ہندوستان کی سنگھارہواؤں میں کھینچنا تھے۔ وحید النسا کی خالہ عظمت النسا موسیقی میں درک رکھتی تھیں اور نوری بیگم کے نام سے جانی جاتی تھیں۔پنجاب کے رہنے والوں کو شاید تعجب ہو مگر بنگال کے خطے میں سُر فحاشی کا استعارہ نہیں، تہذیب کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ سو کم عمر بچیوں کو تان پلٹے سے شغف ہو تو اس پہ جرگہ نہیں بیٹھتا تھا۔

وحید النسا کے گھر میں وارثی سلسلے کے ایک بزرگ حافظ پیاری صاحب کا آنا ہوا۔ تصوف کے شناور کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے ایک شاخِ نبات سے افلاطونی عشق کرکے شماتتِ ہمسایہ مول لی تھی اور مرزا پیاری صاحب کہلاتے تھے۔ وجد میں ہوتے تو نعرہ بلند کرتے ”مزہ ہے پیاری کا” حافظ پیاری نے آٹھ برس کی وحید النسا سے قرآن حکیم کی تلاوت سنی تو نہال ہو کر کہا، تیرا نام وحید النسا نہیں تو روشن جہاں ہے۔ وحید النسا روشن آراء ہوگئیں۔

1925 میں یہ گھرانہ پٹنہ چلا آیا۔ پٹنہ تہذیب کی پنچم سواری گزرے زمانہ ہو چکا تھا۔ ناٹک کے مرکز بھی کہیں بنارس اور بمبئی منتقل ہوگئے تھے مگر گنگا کے گھاٹ پہ نغمگی کی فضا موجود تھی۔ کچے راستوں پر ہچکولے کھاتی بیل گاڑیاں لین ڈوری باندھے گزرتیں تو ان کی گھنٹیوں سے رات کے پچھلے پہر جگل بندی کا نقشہ بن جاتا۔ روشن آرا نے ریاض جاری رکھا۔ ایک روز کسی سادھو نے روشن آرا کی تان سنی تو شفقت سے مشورہ دیا بیٹی کلا میں پیرنے کا گر پانا ہے تو میرج جاو اور عبدالکریم خان سے فیض اٹھاؤ۔

سولہ برس کی روشن آرا حضرت خواجہ شمس الدین کی درگاہ پر جا پہنچی۔ کچھ  ہچکچاہٹ کے بعد عبدالکریم خان نے روشن آرا پر شفقت کا ہاتھ رکھ دیا۔ روشن آرا پانچ برس تک سنگیت کے ساگر سے موتی چنتی رہیں۔ 1937 میں استاد انتقال کرگئے مگر کیرانہ گھرانے کی میراث روشن آرا کے ہاتھ رہی۔ کلا کا فیض ماہ وسال کی حدود کا پابند نہیں ہوتا۔ خود کہا کرتی تھیں کہ استاد کے شاگرد ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے تھے مگر جو کسی کو نہ مل سکا، وہ بھی روشن آرا کے حصے میں آیا۔

روشن آرا غیرت ناہید تھیں یا نہیں لیکن ان کی ہر تان دیپک ضرور تھی۔ وہ خود بھی موسیقی کی آگ میں جلتیں اور دوسروں کے خرمن ہوش کو بھی جلاتی تھیں۔ راگ کی ہر منزل پر ان کے چہرے کے نقوش کھلتے چلے جاتے تھے۔ وہی چہرہ جو پہلے سانولا اور سادہ لگتا۔ آہستہ آہستہ روشن مرکز بن جاتا تھا۔ گاتے وقت وہ ایک طرف سارنگی نواز کی طرف دیکھتی اور دوسری طرف سر کی جنبش سے طبلے والے کا حوصلہ بڑھاتی اور یوں تینوں مل کر سنگیت کا مرکز قائم کر لیتے۔ روشن آرا گاتے وقت سازوں کا ہجوم پسند نہیں کرتی تھیں۔ وہ سارنگی، باجے اور سرمنڈل کی بجائے دو تان پوروں کو کافی سمجھتی تھی۔

پچھلی صدی کی چوتھی دہائی میں ریڈیو کا بول بالا تھا۔ روشن آرا دلی سٹیشن سے جادو جگاتی تھیں جہاں بڑے دروازے سے سٹوڈیو میں داخل ہوں تو عبدالکریم خان صاحب کا مجسمہ رکھا تھا۔ یہیں روشن آرا کی ملاقات چوہدری احمد خان سے ہوئی۔ چوہدری صاحب پولیس میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ سرتال کے شیدا تھے۔ راج کے آخری دن تھے مگر ابھی کوٹھی خانوں میں پولیس افسروں کےلیے خفیہ مجرے سجانے کا چلن شروع نہیں ہوا تھا۔ تان پورے اور سارنگی کی سنگت پر چھاپے مارنا بھی پولیس کے فرائض میں شمار نہیں ہوتا تھا۔

چوہدری احمد خان نے روشن آرا کا گانا سنا۔ قدر دانی فریفتگی کو پہنچی۔ اس رشتے میں بندھ گئے۔جو سانس کی آخری گٹکری تک قائم رہا۔ اس رشتے کی ایک قیمت یہ تھی کہ ملکہ موسیقی تقسیم کے بعد دلی کی روشنیاں چھوڑ کر لالا موسی کے غبار میں آبیٹھیں۔ 30 برس کی عمر تھی۔ قدردان برصغیر کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے تھے۔ مگر شاہنامہ اسلام کی تنگنائے میں دادرا، خیال کا گذر کہاں سے ہوتا۔ روشن آرا نے اہل فن کی آنکھیں دیکھ رکھی تھیں۔ ریڈیو پاکستان پہ تو دربان بھی آنکھیں دکھاتے تھے۔ گوشہ نشین ہوگئیں۔ حیاتِ مختصر کی دوپہر خود اختیار کردہ گمنامی کی نذر ہوگئی۔ عامی خلق تو کہیں کی بھی ہو، فنکار اور کاریگر میں فرق نہیں کرتی۔ مگر پاکستان میں روشن آرا کو کن رس بھی نصیب نہیں تھے۔ غلط جگہ پہ داد ملتی تو آنکھ کا گوشہ ذرا نیہوڑا لیتیں۔ فنکار اور کیا کرے۔ کسی کو تڑی پار تو نہیں کر سکتا۔ امانت علی خان کو بھی تو ترانے گانا پڑے تھے۔

پاکستان موسیقی کانفرنس شروع ہوئی تو روشن آرا کی ڈھنڈیا پڑی۔ پھر ٹیلی ویژن آیا اور روشن آرا کی سلامت رو تان کی بازیافت ہوئی۔ گو تان میں وہ بجلی کی سی لپک اب باقی نہیں تھی اور زیاں کا ایک احساس بادل کے ٹکڑے کی طرح ساتھ ساتھ چلتا تھا مگر ریاض سلامت تھا اور سر قائم تھا۔ اندر کی روشنی کا رچاؤ بھی بڑھ چکا تھا۔ سر کے آجو باجو چھوٹی چھوٹی مرکیوں سے نقش و نگار کا تانا بانا بن دیتی تھیں، کہیں بیچ میں سر گم کا ٹکڑا کہتیں تو چہرے کے نقوش کھلکھلا اٹھتے۔ ڈیوڑھے بدن کی سانولی اور گرہست صورت سرسوتی کا روپ دھار لیتیں۔ روشن آراکی گائیکی میں بِرہا کی پکار نہیں تھی، شانت سہاگن کا دھیرج تھا۔ یہ روشن آرا بیگم تھیں۔ ایک زندہ کلاسیک۔ اور والٹیئر کہتا ہے، کلاسیک کا نام لیا جاتا ہے۔ اِسے جانا کم کم جاتا ہے۔

6دسمبر 1982ء میں روشن آرا بیگم کا انتقال ہوا تو فیلٹیز ہوٹل میں منعقدہ تعزیتی تقریب میں فیض صاحب نے کہا تھا ’ روشن آرا بیگم گانے کے لئے پیدا ہوئی تھیں مگر ہم نے انہیں بھینسیں نہلانے پر لگا دیا۔ “ ٹھیک ہی تو کہا تھا فیض صاحب نے ۔ روشن آرا 1948ءمیں پاکستان پہنچی تھیں اور ان کی پہلی پبلک تقریب 1958میں منعقد ہوئی۔ کیا اچھا ملک بنایا قائد محترم  نے۔ دستور بنانے اور فن کار کی پذیرائی میں ایک جتنا وقت لیتا ہے۔

آئیے روشن آرا بیگم سے بھیرویں ٹھمری سنتے ہیں ، ’کیسے آﺅں جمنا کے تیر ….‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
19 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments