یونیورسٹیوں کی گورننس ڈی کالونائزڈ کرو
نوآبادیاتی ہندستان میں، 1858 ء میں برطانوی حکام نے یونیورسٹیوں کے قیام کا آغاز اس لیے ہوا کہ بڑھتی ہوئی بیوروکریسی کے لیے تعلیم یافتہ ہندوستانی تیار کیے جا سکیں۔ نوآبادیاتی انتظامیہ کا بنیادی مقصد حکمرانی اور سلامتی تھا، جس کی وجہ سے انڈین سول سروس اور فوج جیسے ادارے بنائے گئے۔ تاہم، اعلیٰ تعلیم کو ایک ماتحت کردار میں رکھا گیا، جو حکومتی کنٹرول میں، مالی معاونت سے اور تعلیمی آزادی سے محروم رہی۔ یوں، ذہین طلباء کو راغب کرنے میں ناکام رہیں اور تحقیقی شعبے میں توجہ نہ دینے والے، محض درمیانے درجے کے تدریسی ادارے بن کر رہ گئیں۔ بدقسمتی سے، یہ رجحان پاکستان میں بھی جاری ہے، جہاں حکمران اشرافیہ ابھی تک نوآبادیاتی طرز پر حکمرانی کرتی ہے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹرز نے 1854 ء کے مراسلہ میں ہندستان میں یونیورسٹیاں قائم کرنے کا حکم دیا۔ ان اداروں کا مقصد تعلیمی لحاظ سے باوقار ہونا نہیں تھا، اور عام ڈگری امتحانات کو سینئر حکومتی عہدوں کے امتحانات کی طرح مشکل بنانے کا منصوبہ نہیں تھا۔ مقصد یہ تھا کہ معیار قابل احترام ہو لیکن اتنا سخت نہ ہو کہ مستحق طلباء کو ہمت ہارنی پڑے۔ ان یونیورسٹیوں کے قیام کے پیچھے ایک اہم محرک برطانوی افسران کے درمیان یہ عقیدہ تھا کہ نچلے انتظامی کرداروں میں تعلیم یافتہ ہندوستانیوں کی ملازمت سے یورپ سے افرادی قوت بلا کر حکمرانی کے اخراجات نہ کرنے پڑیں۔
ہندستانیوں کو برطانوی حکمرانی سے الگ کر دیا گیا کیونکہ انہیں ان اہم سول اور فوجی کرداروں سے خارج کر دیا گیا جنہیں وہ اپنے حکمرانوں کے تحت رکھتے تھے۔ کچھ نوآبادیاتی منتظمین اس بات سے متفق تھے کہ ہندوستانیوں کو تعلیم یافتہ اور مغربی بنایا جانا چاہیے تاکہ وہ برطانوی حکام کو بالا دست تصور کر کے ماتحت خدمات انجام دے سکیں۔ نوآبادیاتی منتظمین قائل تھے کہ ہندستانیوں کو یورپی ادب اور سائنس سے واقفیت پر انحصار کرتے ہوئے ان میں ”مہذب یورپ“ کی اقدار پیدا کی جائیں۔ ٹی بی میکالے کی بدنام زمانہ تعلیمی یادداشت از 1835 ء سے قبل بھی، برطانوی پارلیسی ہندستان کے ایلیٹ طبقات کو مغربی بنانے پر مرکوز تھی۔
اس کے برعکس، برطانیہ کی یونیورسٹیاں، جیسے آکسفرڈ اور کیمبرج، خود مختار ادارے تھے جو چرچ کے ذریعے قائم کیے گئے تھے، جو کہ قرون وسطیٰ کے برطانیہ میں ایک طاقتور ادارہ تھا۔ انیسویں صدی تک، یہ یونیورسٹیاں اپنی آزادی اور وقار برقرار رکھے ہوئے تھیں، اور ریاستی بیوروکریسی کے زیر اثر نہیں تھیں۔ اگرچہ Oxbridgeیونیورسٹیاں اکثر یونانی و کلاسیکی علوم کو ترجیح دیتی تھیں، لیکن ان کی خود مختاری کی روایت نے تعلیمی اعتماد اور معاشرے اور ریاست کے دباؤ کو چیلنج کرنے کی آزادی کو فروغ دیا۔ اس آزادی نے بالآخر انھیں خود کی اصلاح کرنے اور تعلیمی آزادی میں ترقی کو فروغ دیا۔
تاہم، ہندستان میں، تعلیمی آزادی نوآبادیاتی حکمرانوں کے لیے خوف کا باعث تھی۔ یونیورسٹیوں کا انتظام ماہرین تعلیم کے زیر انتظام نہیں تھا بلکہ انہیں بیوروکریٹک کنٹرول میں رکھا گیا تھا۔ مثال کے طور پر، 1875 کا کلکتہ یونیورسٹی ایکٹ گورنر جنرل کو چانسلر اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو وائس چانسلر بنا کر تشکیل دیا گیا تھا۔ یونیورسٹی کی قیادت میں اعلیٰ سرکاری حکام بھی شامل تھے، جس سے تعلیمی اداروں پر بیوروکریٹک غلبہ مزید مضبوط ہو گیا۔ اسی طرح پنجاب یونیورسٹی کا ایکٹ بھی اسی طرز پر بنایا گیا۔ صوبائی گورنر کو یونیورسٹیوں کا سربراہ مقرر کر کے سیاسی مداخلت کی بنیاد ایسٹ انڈیا کمپنی نے رکھی تھی جو تقسیم ہند کے باوجود، آج پاکستان میں رائج ہے۔ گورنر کا جامعہ کا چانسلر مقرر ہونا، نوآبادیاتی تعلیمی ماڈل کا اہم ستون ہے۔
شروع میں، یہ یونیورسٹیاں صرف امتحانی ادارے تھیں جو لندن یونیورسٹی کی طرز پر قائم کی گئی تھیں، جبکہ اصل تدریس منسلک کالجوں میں ہوتی تھی۔ ان کالجوں میں فیکلٹی کے ارکان سول سروس کا حصہ تھے اور حکومتی خدمت کے چند فوائد حاصل کرتے تھے لیکن بہت سی پابندیوں کا سامنا کرتے تھے۔ ہندوستانی ماہرین تعلیم خود مختاری کی روایات سے محروم تھے، جس سے ایک ماتحت ذہنیت کو فروغ ملا اور سیاسی، سماجی و تعلیمی استبدادیت پروان چڑھی۔
ریاست کے زیر کنٹرول یونیورسٹیوں کے قیام نے ہندستانی علمی نفسیات پر ایک دیرپا اثر ڈالا، کیونکہ ماہرین تعلیم کو شاذ و نادر ہی حکومت کو چیلنج کرنے کا اعتماد حاصل ہوا۔ انھوں نے تعلیمی معاملات میں بھی بیوروکریسی کے اختیار کو قبول کیا، جیسا کہ یہ نوآبادیاتی ریاست کی طاقت کا ایک قدرتی حصہ ہے۔ یونیورسٹیوں کے چانسلر کے طور پر، صوبائی گورنر اکثر ماہرین تعلیم کو سیاست سے دور رہنے کی تنبیہ کرتے تھے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ یونیورسٹیاں نوآبادیاتی حکومت کے تحت غیر فعال ادارے رہیں۔
ان یونیورسٹیوں میں بھرتی کے طریقے ناقص تھے، جن میں ملازمتیں اور طاقت زیادہ تر برطانوی بیوروکریٹس کے کنٹرول میں تھیں، نوآبادیاتی حاکمیت میں برطانوی افسران کا روّیہ جابرانہ تھا اور اساتذہ ان افسران سے مغلوبیت کا شکار رہتے۔ اس کے نتیجے میں، بہت سے تعلیم یافتہ ہندوستانیوں نے اعلیٰ تعلیم کے بجائے انڈین سول سروس میں انتظامی کیریئر کا انتخاب کیا۔ یہ ترجیح آج بھی پاکستان میں موجود ہے۔ جب کہ کچھ دانشور اور باغی حکومتی خدمات کی مخالفت کرتے ہیں تاکہ یونیورسٹی کیریئر کو اپنایا جا سکے، لیکن وہ تعداد میں کم اور اکثر مغربی یا نجی اداروں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ پاکستان سول سروس (CSP) اب بھی سرکاری یونیورسٹیوں کی اصلاحات کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے، کیونکہ یہ ایک طاقتور گروہ ہے جو کسی بھی ایسی تبدیلی کے خلاف مزاحمت کرتا ہے جو بیوروکریسی کی حیثیت اور حاکمیت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
علمی شخصیات کی سماجی شناخت و پہچان نہ ہونے نے مزید ذہنی منظرنامے کو مفلوج کر دیا۔ فوکویاما نے کہا تھا کسی شخص کا ”خود اعتمادی کا احساس اور اس کی پہچان کی خواہش“ تب مایوسی پیدا کر سکتی ہے جب اس کی صلاحیتوں کو تسلیم نہ کیا جائے۔ نوآبادیاتی ہندوستان میں کئی عظیم علمی شخصیات یا تو اپنے علمی کیریئر سے دستبردار ہو گئیں، گوشہ نشینی اختیار کر لی یا معاشرے سے مایوس ہو کر سست روی میں مبتلا ہو گئیں جو ان کی صلاحیتوں کی قدر نہیں کرتا تھا۔
یہ دفاعی حکمت عملیاں، خاص طور پر ذہن کو ”بند کرنے“ کا رجحان، مزید تحقیق کے لائق ہیں۔ کئی علمی شخصیات، پاکستان اور دیگر جگہوں پر، خود کو اخلاقی رہنما سمجھتی ہیں۔ روحانی رہنماؤں جیسے صوفی پیروں یا گرو کی طرح۔ وہ تعلیم کو ایک ”مقدس“ پیشہ سمجھتے ہیں اور اکثر دولت اور طاقت کو ناپسند کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ نتیجتاً، پاکستانی علمی شخصیات اور دیگر طبقے یہ یقین رکھتے ہیں کہ جو لوگ علمی کرداروں میں ہیں انہیں وہی مراعات یا مادی راحتیں نہیں حاصل کرنی چاہئیں جو دوسرے اشرافیہ ممکنہ طور پر جائز طور پر حاصل کرتے ہیں۔
یہ ”Saint Syndrom“ لازمی طور پر علمی شخصیات کو دوسروں سے مختلف نہیں بناتا، لیکن یہ ان میں زیادہ نفاق اور مایوسی پیدا کرتا ہے۔ نتیجتاً، علمی پیشہ نوجوان باصلاحیت لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ نوآبادیاتی عہد میں، یونیورسٹی کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ تحقیق کے برعکس تعلیم کو ترجیح حاصل تھی۔ اساتذہ کو اساتذہ کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور وہ خود کو محققین کے بجائے استاد سمجھتے تھے۔ جنوبی ایشیا میں ”علمی شخصیت“ کی اصطلاح عام استعمال میں نہیں تھی، اور یہاں تک کہ آج بھی، یہ نسبتاً غیر مانوس ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ انیسویں صدی میں برطانوی یونیورسٹیاں تدریس پر زور دیتی تھیں، جبکہ جرمن یونیورسٹیوں میں تحقیق کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ جیمز مورگن ہارٹ نے اس پر یوں تبصرہ کیا: ”پروفیسر انگریزی معنی میں استاد نہیں ہوتا؛ وہ ایک ماہر ہوتا ہے، وہ اپنے طلبہ کی کامیابی کا ذمہ دار نہیں ہوتا، صرف اپنے علم کے معیار کا جواب دہ ہے، اس کی ذمہ داری خود سے شروع ہوتی ہے اور وہیں ختم ہو جاتی ہے۔“
1874 ء تک آکسفرڈ اور کیمبرج میں پروفیسر، بنیادی طور پر اُستاد سمجھتے جاتے تھے، وہ لازمی طور پر سکالرز نہیں تھے۔ نوآبادیاتی ہندستان میں پروفیسر کا خطاب مزید تنزلی کا شکار ہوا کیونکہ کالج لیکچررز نے بھی اس خطاب کو اپنا لیا تھا، اس سے علمی طبقے کی سیاسی اہمیت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ اگرچہ اساتذہ اپنے طلبہ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، وہ وسیع سماجی شناخت حاصل کرنے سے قاصر تھے جو اسکالرز حاصل کرتے تھے۔ اساتذہ علم کو منتقل کرتے تھے، لیکن اسے تخلیق نہیں کرتے تھے، جبکہ اسکالرز نے اصل تحقیق کی اور سماجی احترام اور علمی وقار حاصل کیا۔ نتیجتاً، اساتذہ نوآبادیاتی بیوروکریسی کے غلبے کو موثر طریقے سے چیلنج کرنے کے قابل نہیں تھے، جبکہ اسکالرز، اگر وہ موجود ہوتے تو، ایسا کر سکتے تھے۔ چاہے یہ ارادی تھا یا نہیں، برطانوی نظام نے کالجوں اور یونیورسٹیوں کو اساتذہ سے بھر کر یقینی بنایا کہ نوآبادیاتی حکومت کو علمی طبقے سے بہت کم خطرہ تھا۔
برطانوی ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم ایک دبایا ہوا شعبہ تھا۔ اسے کبھی حقیقی طور پر ترقی کرنے نہیں دیا گیا۔ سوال یہ ہے : کیا یہ شعبہ 1947 کے بعد ، جب پاکستان، ایک مسلم اکثریتی ملک وجود میں آیا، ترقی کر پایا؟ اس کا جواب ہمیں آج کی پاکستانی یونیورسٹیوں کی حالت کو دیکھ کر ملتا ہے۔ پاکستان کی تخلیق کے وقت، صرف ایک یونیورسٹی تھی۔ اب 2024 تک، یونیورسٹیوں کی تعداد 210 ہو گئی ہے۔ کالجز، جیسے کہ نوآبادیاتی ہندستان میں، اب بھی کمتر، بیوروکریٹک، سرکاری کنٹرول میں، پسماندہ اور غیر موثر ہیں۔ کچھ نئی یونیورسٹیاں، جو سیاسی وجوہات کی بنا پر قائم کی گئی ہیں، پاکستان کے بہترین کالجز کے معیار پر بھی پوری نہیں اترتیں۔
نوآبادیاتی بیوروکریٹک غلبہ پاکستانی سرکاری یونیورسٹیوں پر دیرپا اثرات مرتب کر چکا ہے۔ ان یونیورسٹیوں کے طرز حکمرانی، انتظامی ڈھانچے، اور ضوابطی فریم ورک میں اکثر نوآبادیاتی دور کی مرکزیت، کنٹرول، اور درجہ بندی پر زور دیا جاتا ہے، بجائے اس کے کہ علمی آزادی، جدت اور ادارہ جاتی خودمختاری کو فروغ دیا جائے۔ پاکستان میں سرکاری یونیورسٹیاں عام طور پر ایک مرکزیت پر مبنی، بھاری بھرکم انتظامی ڈھانچے کے تحت چلتی ہیں۔ اہم یونیورسٹی حکام، جیسے وائس چانسلرز کی تقرری اکثر سیاسی اور بیوروکریٹک عناصر کے زیر اثر ہوتی ہے، بجائے اس کے کہ آزاد علمی ادارے اس عمل کو کنٹرول کریں۔
پنجاب میں یونیورسٹیوں کی خود مختاری کو 2010 ء کے بعد سلب کر لیا گیا، نواز شریف کی حکومت میں صوبائی قانون سازی کے ذریعے سے ممبر پارلیمان کو یونیورسٹیوں میں زبردستی داخل کیا گیا۔ ممبر پارلیمان اکثر سیاسی وابستگیاں اور مفادات رکھتے ہیں جو یونیورسٹیوں کے علمی مقاصد سے متصادم ہو سکتے ہیں۔ جب انھیں یونیورسٹی کے فیصلہ ساز اداروں، جیسے سینڈیکیٹ میں شامل کیا جاتا ہے، تو توجہ میرٹ اور علمی فضیلت سے ہٹ کر سیاسی سرپرستی کی طرف منتقل ہو سکتی ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ سنڈیکیٹ کی صدارت بھی صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن سونپ کر وائس چانسلر کے عہدے کو بھی علامتی دائرے تک محدود کر دیا گیا اس سے یہ امکان پیدا ہو سکتا ہے کہ اہل، باصلاحیت اور وژن رکھنے والے افراد کے بجائے سیاسی طور پر پسندیدہ امیدواروں کی تقرری ہو جائے۔ سنڈیکیٹ کی کمپوزیشن ہو یا پھر فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی کی تشکیل، انھیں نوآبادیاتی طرز پر استوار کر کے بیوروکریسی کی مداخلت کو بڑھا دیا گیا ہے جس سے یونیورسٹیوں کی خود مختاری اور سالمیت کو 19 ویں گریڈ کے بیوروکریٹ کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ یونیورسٹیاں اپنی قسمت کے فیصلوں کے لیے محکمہ ہائر ایجوکیشن کی نا مراد بیوروکریسی کے رحم پر ہوتی ہیں جنھوں نے کالونیل اُصولوں پر یونیورسٹیوں کو انتظامی طور پر یرغمال بنایا ہوا ہے۔
یونیورسٹیاں بنیادی طور پر آزاد سوچ اور علمی آزادی کی جگہ ہوتی ہیں۔ تاہم، جب سیاسی شخصیات یونیورسٹی کی حکمرانی میں شامل ہو جاتی ہیں، تو علمی پالیسیوں اور فیصلوں پر سیاسی محرکات اثر انداز ہو سکتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ علمی ضروریات کے مطابق ہوں۔ عالمی جامعات میں وائس چانسلرز کی تقرری کا عمل عام طور پر شفاف، میرٹ پر مبنی اور انتہائی مسابقتی ہوتا ہے، جس کا مقصد ایسے افراد کا انتخاب کرنا ہوتا ہے جو غیر معمولی قیادت، علمی اور انتظامی صلاحیتوں کے حامل ہوں۔ یہ عمل اکثر ایک سرچ کمیٹی کی تشکیل سے شروع ہوتا ہے، جو سینئر فیکلٹی ممبران، ایڈمنسٹریٹرز، سابق طلباء، اور بعض اوقات خارجی ماہرین پر مشتمل ہوتی ہے تاکہ ایک جامع انتخابی عمل کو یقینی بنایا جا سکے۔
کمیٹی امیدواروں کی درخواستوں کا جائزہ لے کر ایسے افراد کو منتخب کرتی ہے جن کا علمی دنیا، تحقیق اور یونیورسٹی گورننس میں ثابت شدہ ریکارڈ ہو۔ امیدواروں کا جائزہ یونیورسٹی کے لیے ان کے وژن، مختلف علمی کمیونٹیز کی قیادت کرنے کی صلاحیت، اور مالی و حکمت عملی سے متعلق پیچیدہ چیلنجوں سے نمٹنے کی مہارت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ شارٹ لسٹ کیے گئے امیدواروں کو اکثر اپنی حکمت عملی پیش کرنے اور یونیورسٹی کے مختلف اسٹیک ہولڈرز، بشمول فیکلٹی، طلبہ، اور عملے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔
حتمی تقرری اکثر یونیورسٹی کے گورننگ ادارے، جیسے بورڈ آف ٹرسٹیز یا سینیٹ، کی جانب سے امیدوار کے کوائف اور کمیونٹی کے تاثرات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد کی جاتی ہے۔ اس عمل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ منتخب شخص یونیورسٹی کی قدروں اور مقاصد کی عکاسی کرے اور ادارے کو علمی فضیلت اور عالمی قیادت کی طرف گامزن کر سکے۔
پاکستان بھر کی سرکاری جامعات میں وائس چانسلر تقرری وزیر اعلیٰ، گورنر اور صدر مملکت کی کلی صوابدید پر ہوتی ہے اور اس کی پُشت پر بسا اوقات لابیاں بھی متحرک ہوتی ہیں، جامعات کے تحت نئے علوم کی تخلیق، آزاد سوچ اور حکومت کا علمی محاسبہ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم وزیر اعلیٰ اور گورنر پنجاب کی کالونیل طاقت کو چیلنج نہیں کریں گے۔ پاکستان کو جدید دور میں داخل کرنے کے لیے جامعات کی بیوروکریسی اور سیاسی مداخلت سے بازیابی ناگزیر ہے وگرنہ ہم محض ایسے کلرک پیدا کرنے کی مشق جاری رکھیں گے جس کی ضرورت پر ٹی بی میکالے، چارلس ووڈ، جیمز مل، الیگزینڈر ڈف، چارلس ٹریولین نے دو سو برس قبل نشاندہی کی تھی اور وطن عزیز آئندہ سو برس تک بہ طور صارف سماج اپنی شناخت برقرار رکھے گا۔
- امریکی الیکشن: ٹرمپ دوبارہ کس وجہ سے جیتا؟ - 08/11/2024
- ردّ نوآبادیت اور ڈیجیٹل کٹھ پتلی باز - 20/10/2024
- یونیورسٹیوں کی گورننس ڈی کالونائزڈ کرو - 02/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).