عملیوں نے الیکشن نیلا کر دیا


پشاور میں ہم نے کافی مناسب شکست کھائی تھی الیکشن میں۔ ناظم کے لیے ہمارے امیدوار تیسرے نمبر پر رہے تھے۔ اب ہم لوگ ایک دوسرے کو شرما شرما کر دیکھتے رہتے تھے۔ اس ہار کو ابھی ہضم بھی نہیں کیا تھا کہ پنڈ سے بھا کا فون آیا کہ پشاور ہی بیٹھے رہنا پنڈ نہ آنا۔ میں ادھر الیکشن کے لیے کھڑا ہو گیا ہوں۔ مجھے مصیبت میں ڈال کر خود غائب ہو گئے ہو۔

الیکشن مہم چلانا بھی ایک نشہ ہے شاید اس جیسا کوئی نشہ ہی نہیں۔ دوبارہ الیکشن کا سن کر تازہ ہار بھول کر فوری پنڈ پہنچ گئے۔ بھا کو امیدوار بنانے میں وسی بابے کا پورا ہاتھ تھا۔ پنڈ میں دو گروپ تھے۔ ایک گروپ کی قیادت چوہدری صاحب کرتے تھے۔ ان کا گروپ ہمیشہ جیتا تھا۔ ایک ننھی منی سی اپوزیشن تھی جو ہمیشہ ہارتے تھے۔ وہ خاصے ووٹ لیتے تھے پر کبھی جیت نہیں پائے تھے۔

ہارنے کے بعد اپوزیشن کے کرتا دھرتا لوگ باری باری چوہدری گروپ سے کٹ بھی کھا بیٹھتے تھے۔ اس کٹ مار کی وجہ سے اپوزیشن لیڈران کا نام وسی بابے نے چھتر کھانے رکھ چھوڑا تھا۔ یہ نام کافی ہٹ ہو گیا تھا۔ یہ گروپ چھتر کھانا گروپ کے نام سے ہی مشہور ہو گیا تھا۔ ایک دن اس گروپ کے سارے چھتر کھانے قائدین ہمارے ڈیرے پر اکٹھا ہوئے۔ انہوں نے اپنے گروپ کا اتنا عبرتناک نام رکھنے پر وسی بابے کی بہت تعریف کی۔ قسمے تعریف ہی کی تھی۔

کافی تعریف توصیف کے بعد انہوں نے کہا کہ تمھی نے درد دیا تمھی دوا دو۔ ہمیں یہ بتاؤ کہ ہم الیکشن کیسے جیتیں۔ انہیں بتایا کہ منحوسو تم لوگوں کے ووٹ تو خاصے ہیں۔ سو ایک ووٹ سے ہی شکست کھاتے ہو ہمیشہ۔ غلطی یہ کرتے ہو کہ ہر بار تمھارا امیدوار تمھارے اپنے چھتر کھانے گروپ سے ہی ہوتا ہے۔ اس لیے ایک اضافی ووٹ بھی نہیں لے پاتے۔ اپنا نام دوبارہ سن کر وہ داد دینے کو اٹھے تھے لیکن بات میں دم تھا اس لیے وسی بابے کو پیار کرنے سے پہلے ہی بات سمجھ کر بیٹھ گئے۔

انہوں نے کہا ایسا امیدوار کہاں سے لائیں۔ انہیں کہا کہ احمقوں کی کوئی کم تھوڑی ہے اس دانشمندوں کی بستی میں۔ کوئی بھی مل جائے گا۔ بس کسی کو یہ کہو کہ ہمارے سارے ووٹ بلاک کی صورت تمھارے، بس ہمیں یہ یقین دلا دو کہ تمھارے اپنے خاندان والے تمھیں ووٹ دیں گے۔ چھتر کھانوں نے باہم مشورہ کیا اور ہمارے ہی بھا کو گھیر کر امیدوار بنا لیا۔

بھا کئی حساب سے ایک اچھا امیدوار تھا۔ اس کا ددھیال ہی نہیں ننھیال بھی اسی پنڈ سے تھے۔ یہی نہیں بلکہ ننھیال والوں کے اپنے ماموں بھی اسی پنڈ کے تھے۔ بھا کو امیدوار دیکھ کر پہلی بار چوہدری گروپ میں تھرتھلی مچ گئی کہ انہی کے گروپ سے ایک اہم بندہ الگ ہو گیا تھا۔ بھا اتنا اچھا امیدوار تھا کہ اس کے مقابلے پر اسی کے ہم جماعت باری کو میدان میں اتارا گیا۔ باری کافی مشہور کھلاڑی تھا کبڈی اور کرکٹ کا کافی مقبول بھی تھا۔

پنڈ پہنچا تو باری ہمارے ڈیرے پر ملنے آیا۔ اس نے کہا یار الیکشن ہوتے رہیں گے ایک دن کی بات ہے لڑائی نہیں بنائیں گے۔ دوستی تعلقات برقرار رکھیں گے اسے یقین دلایا کہ ایسا ہی ہو گا۔ بھا نے کہا باری تم الیکشن نہیں جیت سکتے۔ تمھارے کتنے افئیر ہیں کتنی بار تو تم پھڑے گئے ہو۔ سارے عملی نشئی تمھارے یار ہیں۔ باری ہنستا رہا۔ بھا اسے غصے کرتا رہا۔ جاتے وقت باری نے مجھے الگ کیا اور کہا یار بھا نے الیکشن کوئی نہیں جیتنا۔ یہ سارے عملی یہ افیئر وغیرہ جو ہیں میرے یہ ووٹر بھی تو ہیں۔ ان میں سے کس نے بھا کو ووٹ دینا ہے۔

بھا تو کسی کو اپنے مربعے سے ایک دانا کنو نہیں توڑنے دیتا۔ کسی کی گائے بھینس کھیتوں میں گھس جائے تو اس کی دو دو سال بزتی کرتا رہتا ہے۔ تمھیں پتہ گاؤں میں بلوچوں کے ستر ووٹ ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے تمھارے بڑوں کی ان سے لڑائی ہوئی تھی۔ ان کا بھی کوئی ایک ووٹ تمھیں نہیں ملنا۔ بس بھا نے الیکشن میں بزت ہونا ہے اور پھر لڑنا تم سے بھی مجھ سے بھی اور اپنے چھتر کھانے گروپ سے بھی لڑنا ہے۔ میں اس بعد والی لڑائی سے بچنا چاہتا ہوں۔ باری کا شکریہ ادا کیا اور اسے پھر کہا کہ تعلق اس سیاست کی نظر نہیں ہو گا۔

لوگوں سے ملنے پر اندازہ ہوا کہ باری کی رائے ٹھیک تھی۔ بھا کو اپوزیشن کے تو سارے ووٹ مل جائیں گے۔ ہمسایوں کے بلوچوں کے ہر گز نہیں ملیں گے۔ ان لوگوں کے بھی نہیں ملیں گے جن کو یہ باغ میں گھسنے نہیں دیتا تھا۔ بلوچ گھرانوں سے ہمارے تعلقات مناسب تھے۔ البتہ ان کے ووٹ واقعی ہمیں نہیں ملنے تھے۔ پانی لگانے پر ہونے والی ایک چھوٹی سے لڑائی کی وجہ سے دونوں خاندان ایک دوسرے کی حمایت نہیں کرتے تھے۔ اسی رات ہم دوست بخشی بلوچ کے گھر چلے گئے۔ ان سے ستر سال پرانی معمولی سی لڑائی پر معزرت کی۔ ان سے کہا کہ وہ ہمارے اور تمھارے بڑے تھے ہم ان دونوں کا یکساں احترام کرتے ہیں۔ ان کی غلطیوں کے اسیر نہیں بنتے۔

بہت اچھے طریقے سےمسئلہ حل ہو گیا جو کبھی تھا ہی نہیں۔ بخشی بلوچ نے کہا کہ ہم لوگ باری اور بھا دونوں کو اپنے آدھے آدھے ووٹ گن کر ڈال دیں گے۔ باری ملا تو اس نے کہا تم نے اچھا ستیاناس کیا ہمارے ساٹھ ستر ووٹ ہی صفر کر دیے۔ باری نے کہا جو مرضی کر لو بھا پھر بھی الیکشن نہیں جیتے گا۔ باری کو کہا کہ بس دیکھتے جاؤ کیسے تمھاری نیند اڑاتے ہیں ہم لوگ۔

اگلے مرحلے میں وہ کارنامہ سر انجام دیا جو پشاور والے ہی کر سکتے ہیں۔ عملی یونین سے رابطہ کیا یہ بیس عدد چرسی تھے۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ لگائی ظاہر ہے پکے سوٹے کے فضائل پر ہی لگانی تھی۔ عملی اتنے خوش ہوئے اس گپ شپ سے کہ انہوں نے دو ڈھائی دن بعد گج وج کر بھا کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ یہ اعلان سننے کے بعد بھا کی کافی کھچائی خاندان والوں نے کی البتہ سارا گروپ خوش ہو گیا کہ بیس پچیس پکے ووٹ مل گئے۔

باری پھر ملنے آیا کہ یار تو کرایہ لے اور بھاگ جا واپس بیڑہ غرق کرنے پر تلا ہوا الیکشن کا۔ باری بہت زندہ دل خوش مزاج بندہ ہے اس نے کہا یہ عملی بھا کو ڈبو دیں گے تم دیکھنا۔ یہ کینو سے وائین بنانے کی کوشش میں کئی بار اپنے بال جلا چکے ہیں۔ بنا لیتے ہیں لیکن ان کو کسی نے بتا رکھا ہے کہ اصلی وائین کو آگ لگاؤ تو اس کا شعلہ نیلا ہوتا ہے۔ یہ آگ لگا کر اس کو قریب سے دیکھتے ہیں اور اپنے بال داڑھیاں جلا بیٹھتے ہیں۔ اب یہ بھا کے الیکشن کو آگ لگائیں گے انشااللہ۔ اس نے کہا ان کو تو عملی کے علاوہ نیلے بھی کہتے ہیں پنڈ میں۔

باری کی بات کتنی ٹھیک تھی اس کا اندازہ جب ہوا تب پانی سر سے گذر چکا تھا۔ بھا کو کہا تھا کہ عملیوں کے ساتھ سلام دعا لے لیا کرے۔ ان کو پیار سے بلایا کرے۔ بھا ان سے سلام دعا لینے گیا ہوا تھا۔ الیکشن سے ایک رات پہلے ایک میٹنگ تھی۔ مہمان آئے بیٹھے تھے اور بھا غائب تھا۔ اسے بلانے گیا تو عملیوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ بھا کو کہا چل اٹھ چلیں وہ بولا اک تو تمھیں ہر وقت جلدی ہوتی۔

بھا کی آواز سن کر لگا کہ یار فل ٹن ہے۔ عملیوں سے پوچھا کہ او منحوسو اسے کیا پلایا ہے۔ وہ بولے بھائی جان کچھ بھی نہیں ساوی ہے یعنی بھنگ۔ یہ نشہ تھوڑی ہے یہ تو ٹھنڈی ہوتی ہے۔ بھا کو کھینچ تان کر ہم میٹنگ میں لائے۔ اس کے بعد اس نے ڈولتی آواز میں وہاں اک شاندار خطاب کیا۔ حق سچ بیان کیا اپنے ہر ہر حمایتی کے پول کھولے۔

اب آپ لوگ مزید کیا سننا چاہتے ہیں۔ ہم لوگ الیکشن ہار گئے تھے بہت ہی کم ووٹوں سے۔ انہیں پچیس تیس ووٹوں کا فرق پڑا تھا جن سب نے بھا کا خطاب سنا تھا۔ باری جیتنے کے بعد ملنے آیا۔ بھا سے کہا سچ سچ بتا تمھارا دل اب کیا کہتا۔ بھا نے کہا دل بس اب یہ کہتا کہ ان سارے عملیوں کو اپنے ہاتھوں سے کنو توڑ کر دوں۔ یہ اس کا شربت بنائیں پھر اس کا نیلا شعلہ چیک کرنے کو تیلی لگائیں۔ ان کا دل بھی پھر ویسے جلے جیسے میرا جل رہا تم سے الیکشن ہار کے۔

باری بولا بھا عملیوں نے تمھارا الیکشن نیلا کر دیا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi