کیا مروجہ سیاسی نظریات کو چیلنج کیا جاسکتا ہے؟
برصغیر کے ممتاز شاعر اسرار الحق مجاز نے کہا تھا۔
کلیجہ پھنک رہا ہے اور زباں کہنے سے عاری ہے
بتاؤں کیا تمھیں کیا چیز یہ سرمایہ داری ہے
ریاست سیاسی و معاشی عدم استحکام کا شکار ہے، سماجی بگاڑ بڑھتا جا رہا ہے، ایسا ہے کہ ملک میں کوئی بھی چیز اپنے ٹھکانے پر نہیں ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کا رونا روتے روتے آنکھیں پتھریلی ہو چکی ہیں۔ تعلیم تجارت بن گئی ہے تو صحت عامہ اور علاج معالجہ دھندا بن چکا ہے۔ سیاسی کھیل پارلیمنٹ کی بجائے عدلیہ میں کھیلا جا رہا ہے جبکہ معاشی بحالی کے دعووں کی جگالی سے جبڑے دُکھنے لگے ہیں۔ عام آدمی کے مسائل کیا ہیں، کسی کو کوئی فکر نہیں، یہ تو بے چارہ دستیاب وسائل اور درپیش مسائل کی جنگ میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ ایسے میں بھارتی شاعر گلزار کا یہ قطعہ پاکستانی قوم کی حالت زار کی خوب منظر کشی کرتا ہے۔
کوئی اٹکا ہوا ہے پَل شاید
وقت میں پڑ گیا ہے بَل شاید
دل اگر ہے تو درد بھی ہو گا
اس کا کوئی نہیں ہے حل شاید
ملک میں ہر اس مسئلے کو اہمیت دی جا رہی ہے جو عام آدمی سے متعلق نہیں ہے۔ سیاست دان اپنے اپنے ”مفادات“ کو تحفظ دینے کی تگ و دو میں ہے تو اسٹیبلشمنٹ اپنی طاقت کو بر قرار رکھنے پر تُلی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے، بنیادی سہولتوں کا معاملہ اپنی مروجہ ”تعریفیں“ کھو چکا ہے۔ بجلی اور گیس کے بلوں نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور ایسے میں ظالمانہ ٹیکسوں کی بھرمار نے غریب کو ایک وقت کی روٹی سے بھی محروم کر دیا ہے۔
رہی بات آئین کی تو اس میں اس قدر ترامیم ہو چکی ہیں کہ اس کا حقیقی حلیہ ہی بگڑ چکا ہے اور نوبت یہاں تک آہ پہنچی ہے کہ یہ ”آئین“ بھی فرسودگی کی طرف بڑھنے لگا ہے۔ وفاق اور صوبوں بالخصوص چھوٹے صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم پر خلیج بڑھ رہی ہے جبکہ بلوچستان کا معاملہ تو سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ جہاں تک سندھ کا معاملہ ہے تو یہاں کرپشن اور لوٹ مار اس قدر بڑھ گئی ہے کہ سرکاری اداروں میں رشوت کا لین دین واجب کے زمرے میں آ گیا ہے۔
کراچی جسے کل تک غریبوں کی ماں کہا جاتا تھا آج وہ خود ”غریب الوقت“ ہو چکا ہے۔ کراچی پیپلز پارٹی کے سندھی حکمرانوں کے سوتیلے پن جیسے رویے کا شکار ہے، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، جگہ جگہ پر کچرے کے ڈھیر لگے ہیں، پینے کا صاف پانی گھروں کے نلکوں کی بجائے نجی ٹیبنکر مافیا کو پہنچایا جا رہا ہے، سرکاری ملازمتوں کی خریدو فروخت ہو رہی ہے۔ کراچی کے حقیقی شہریوں کا سب سے بڑا مسئلہ ”کوٹہ سسٹم“ کا خاتمہ اب تک ممکن نہیں ہوسکا ہے۔
رہی بات خیبر پختون خوا کی تو وہاں ایسی سیاست کا چلن عام ہو چکا ہے جو وفاق سے ہر صورت اظہار بیزاری رکھتی ہے۔ ایسے میں پنجاب کے عوام دو واضح تقسیم رکھتے ہیں جن میں جنوبی پنجاب کے عوام سماجی و سیاسی حقوق کے اعتبار مایوسی کا شکار ہیں جبکہ پنجاب کے دیگر حصے وسائل کی دستیابی و فراہمی کے اعتبار سے اس قدر مضبوط دکھائی دیتے ہیں کہ انھیں سامراجی اختیارات کے حامل خطے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے کیونکہ اسی خطے سے ہی عموماً ملکی سیاست کی اعلی سیاسیٰ قیادت اور مقتدرہ قوتیں تعلق رکھتیں ہیں۔
آخر کب تک سیاسی و معاشی عدم استحکام کا رونا رو کر عام آدمی کے مسائل سے نظریں چرائی جائیں گی؟
یہ وہ سوال ہے جو اپنے اندر ایک ”انقلابی تحریک“ کی دعوت رکھتا ہے جبکہ نوجوان اس حوالے سے سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں، اگر مقتدرہ قوتیں یہ سوچ کر مطمئن بیٹھیں ہیں کہ عوام کو ”روٹی“ کے چکر میں اتنا الجھا کر رکھا جائے کہ وہ اپنے ”حق“ کے لیے آواز بھی بلند نہ کرسکیں تو ایسی سوچ کو ”کج فہمی“ ہی سمجھا جائے۔ بنگلہ دیش کی تازہ مثال ہمارے سامنے موجود ہے اور ماضی قریب میں سری لنکا کے عوام بھی ایسا ہی کچھ کرچکے ہیں۔
بھارت کے حالیہ انتخابات میں بھی ایسا ہی کچھ دیکھا گیا ہے۔ الغرض یہ کہ جنوبی ایشیائی خطے کے لوگ اپنے سماجی، سیاسی اور معاشی حقوق کے لیے جاگ رہے ہیں۔ قوم پرستی کا فلسفہ اور مثالی معاشی نظریات ایک بار پھر سے کروٹ لے رہے ہیں، یہی وجہ کہ سرمایہ درانہ نظام کے خلاف نوجوان آواز بلند کرنے لگے ہیں۔ جمہوریت اور آمریت کی اصطلاحیں اپنی مروجہ تعریفیں کھو رہی ہیں، ایسے میں جاگیر درانہ اور سرمایہ درانہ تسلط کب تک قائم رہ سکتا ہے۔
پاکستان ایک فلاحی ریاست ہے اور اسے حقیقی معنوں میں ایک فلاحی ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان ”اختیارات“ میں توازن ہونا چاہیے، ملک میں بسنے والے شہریوں کی علاقائی شناخت کو تسلیم کیا جانا چاہیے، ممکن ہو سکے تو انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کا قیام عمل میں لانا چاہیے، وسائل کی تقسیم کے لیے صوبوں اور وفاق کے درمیان ایک نیا ”عمرانی معاہدہ“ ہونا چاہیے، میرٹ کی بالادستی کے لیے ہر قسم کے کوٹہ سسٹم کا خاتمہ ہونا چاہیے، آئین و قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے سیاسی مداخلت اور اقرباء پروری کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے، عوام کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے آمدنی اور مہنگائی کے تناسب میں جو فرق پایا جاتا ہے اسے ختم کیا جانا چاہیے، بالخصوص مصنوعی مہنگائی کے ذرائع اور طریقہ کار کے کھیل کو ختم کیا جانا چاہیے، ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بے رحم کارروائیاں ہونی چاہیے، کرپشن اور دیگر ناجائز عوامل کے خاتمے لیے احتساب کے عمل کو با اختیار اور شفاف ہونا چاہیے۔ یعنی مساوات اور عدل و انصاف پر مشتمل سیاسی و معاشی نظام تشکیل دیا جانا چاہیے۔
رہی بات اسرار الحق مجاز کے اس شعر کی جو مضمون ہذا کے ابتدائیے میں تحریر ہے تو معاملہ کچھ یوں ہے کہ پاکستان کے سیاسی و معاشی عدم استحکام کی ایک بڑی وجہ جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کا سیاسی کردار اور حکومت سازی کے عمل میں ان کا غیر معمولی اثر و رسوخ ہے اور اس کی واضح دلیل یہ ہے پاکستانی سیاست میں وہی کامیاب سیاست دان ہے جو مالدار ہے۔ ایسے میں مجھے اپنی شریک حیات کی ایک نصیحت یاد آ گئی جو ان کی جانب سے میرے نوجوان بیٹے سے کی گئی کہ ”بیٹا اس ملک میں کچھ بننے کے لیے پہلے“ پیسہ ”کمانا ضروری ہے اور اس کے بعد آپ وہ بن سکتے ہیں جو آپ بننا چاہتے ہیں، یہاں تک کہ آپ مروجہ سیاسی نظریات کو بھی چیلنج کر سکتے ہیں۔“
- جون ایلیا کی شاعری میں پاکستانی سیاست کا المیہ - 03/12/2024
- پیڑا جلیبی لڈو جو کھاؤ سو منگا دیں - 01/11/2024
- کیا مروجہ سیاسی نظریات کو چیلنج کیا جاسکتا ہے؟ - 12/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).