ڈی این اے کا مغربی جھوٹ اور چندر بنسی دیوتاؤں کی اولاد۔۔۔


ذات پات نسل پرستی کے مترادف ہے۔ اور نسل پرستی انسانوں کے درمیان بے معنی امتیاز کی لکیریں لگانے کا نام ہے۔ ذات پات اور نسلی فخر دراصل ہمارے اندر گہرے احساس کمتری کے شاخسانے ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں کئی برس تک انسانی حقوق کی تعلیم دینے کے دوران ہونے والے تجربات سے معلوم ہوا کہ پاکستان میں پڑھے لکھے لوگوں کی بڑی تعداد ذات پات، قبائلی شناخت اور مفروضہ آبا و اجداد کے بارے میں ناصرف سنجیدہ ہے بلکہ اس موضوع پر زیادہ بات بھی نہیں کی جاتی کیونکہ کوئی نہ کوئی بزعم خود خاندانی دوست ناراض ہو کر مجلس سے اٹھ جاتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چالیس برس کے دوران پاکستان میں ذات پات پر زور دینے کا چلن بڑھا ہے۔ سیاسی کارکن کہا کرتے تھے کہ 1985 کے غیر سیاسی انتخابات سے اس رجحان کو تقویت ملی کیونکہ سیاسی وابستگی کے اعلان پر پابندی کے بعد لوگوں نے ذات پات کے نام پر ووٹ مانگے۔ تاہم یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ڈاکٹر، پروفیسر اور وکیل جیسے شعبوں میں نام کے ساتھ امتیازی دم چھلا لگانے کا رواج کیسے مضبوط ہوا۔ یہ لوگ تو عام طور سے ووٹ وغیرہ لینے کے دھندے میں شامل نہیں ہوتے۔ قیاس یہ ہے کہ متوسط طبقہ پھیلا ہے۔ ماضی قریب میں غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے گھرانوں میں خوشحالی آئی ہے تو اب اپنے بزرگوں کو موثر بہ ماضی طریقے سے معزز ثابت کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ سب انسان رتبے، حقوق اور صلاحیت میں ایک جیسے ہیں۔ یہ جاننا قریب قریب ناممکن ہے کہ سو برس قبل یا دو سو برس پہلے ہمارے آبا و اجداد کن حالات سے دوچار تھے۔

کیا انہیں قحط کا سامنا تھا؟

کیا ان پر جنگ مسلط کی گئی تھی؟

کیا انہیں کبھی زلزلے میں تباہی دیکھنا پڑی؟

کیا ہمارے باپ دادا کبھی سیلاب میں بے گھر ہوئے؟

کیا خاندان کے کسی فرد کی اچانک موت سے ہمارے گھرانے کو کبھی معاشی بدحالی کا سامنا کرنا پڑا؟

کیا ہمارے گھر کے کسی فرد کو کبھی اغوا کیا گیا؟

کیا ہمارے اہل خانہ ان افراد میں شامل تھے جنہیں کئی صدیاں پہلے زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا؟

کیا ہمارے علاقوں پر کبھی بیرونی حملہ آوروں نے یورش کی؟ اگر ہاں تو ہمارے خاندان پر کیا گزری؟

کیا ہمارے گھرانے کے کسی فرد نے کبھی کسی کے ساتھ شادی کے بغیر جنسی تعلقات قائم کئے؟

کیا ہمارے گھرانے کو کبھی غیرقانونی طور پر کسی جعل ساز فرد کے ہاتھوں نقصان اٹھانا پڑا؟

کیا دوسروں کی جائیداد چھیننے والے کسی گروہ سے ہمارے گھرانے کو کبھی واسطہ پڑا؟

سبحان اللہ! ہم سب کیسے ذی شان بزرگوں کے دودمان ہیں؟ کیسے عالی نسب انسانوں کے چشم و چراغ ہیں کہ دنیا بھر میں یہ سب واقعات پیش آ رہے تھے۔ ہم خدا کی ایسی برگزیدہ لڑی میں تھے کہ ہم پر ان میں سے کوئی حادثہ نہیں گزرا۔

نوح کے طوفان میں ہمارے بزرگوں نے خصوصی عرشے کی بکنگ کروا رکھی تھی۔ گرمی سردی ہمیں چھو کر نہیں گزری۔  کسی جنگ میں ہمارا کوئی بزرگ کبھی مارا نہیں گیا۔ ہمارے گھرانے میں کبھی کسی نے ساٹھ برس سے پہلے انتقال نہیں کیا۔ یتیم ہم کبھی نہیں ہوئے۔ بیرونی حملہ آور ہمارے علاقوں کی طرف بڑھنے سے پہلے خط و کتابت نیز تار برقی کے ذریعے ہمارے خانوادے سے پیشگی اجازت لیتے تھے، اور اطلاع دیتے تھے کہ اپنی جائیداد وغیرہ احتیاط سے فروخت کر کے جنگ زدہ علاقوں سے نکل جائیں۔ ہر نیا بادشاہ، ہر نیا راجہ مہاراجہ ہماری نانی اماں کے پاؤں چھو کر آشیر باد لیتا تھا، اور ہمارے گھرانے کے لئے معقول جاگیر باندھ دیتا تھا۔ ہمارے عقائد ہمیشہ درست رہے۔ ہمارے خاندان میں کبھی کوئی بداخلاق، نکھٹو اور بددیانت شخص پیدا نہیں ہوا۔ بزرگوں کی دعا سے ہمارے ابا و اجداد میں کبھی کوئی بے اولاد نہیں رہا۔

سرسید احمد خان نے اینگلو اورینٹل مدرسہ قائم کیا تو ہمارے اجداد اساتذہ مقرر ہوئے۔ انٹرنس اور بی اے کی ڈگری سب سے پہلے ہمارے بزرگوں کو اعزازی طور پر عطا کی گئی۔ آزادی کی لڑائی ہمارے بزرگوں نے لڑی۔ ریشمی رومال سے ہمارے بزرگ کھانا تناول فرمانے کے بعد ہاتھ پونچھتے تھے۔ جزائر انڈیمان میں بجلی کی تنصیبات کا ٹھیکہ ہمارے بزرگوں کو ملا۔  انگریزی سرکار نے ہمارے اجداد سے امن اور جنگ میں ہمیشہ مشورہ کیا۔ تحریک خلافت کو انگیخت ہم نے دی۔ گوکھلے، دھرتلک اور سروجنی نائیڈو سے ہمارے گھریلو تعلقات تھے۔ سبھاش چندر بوس نے میٹرک کے امتحان کی تیاری ہمارے دالان میں بیٹھ کر کی۔ اسلامیان ہند نے قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں ایک آزاد مملکت قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو ہمارے ماموں شملہ مذاکرات میں شریک ہوئے۔ ہمارے تایا ابو نے مسلم لیگ کو دل کھول کر چندہ دیا۔ پاکستان کے قیام کا فیصلہ ہو گیا تو ہمارئ دادی اماں نے 3 جون 1947 کا اعلان دہلی ریڈیو اسٹیشن سے سنا، چچا ابا کو تار دے کر کلکتہ سے بلایا اور فرمایا کہ بیٹا امپیرئل ایر لائن سے سب اہل خانہ کے لئے ٹکٹ خریدو، ہم سب کو پاکستان جانا ہے۔

قرار داد مقاصد کا مسودہ ہمارے ننھیالی اجداد نے مرتب کیا۔ 22 نکات ہمارے ددھیالی بزرگوں نے مدون کئے۔ ایوب خان کا مارشل لاء نافذ ہوا تو ضلع کا مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ہمارے دیوان خانے میں اجلاس کرتا تھا۔ البدر ہمارے ننھیال اور الشمس ہمارے ددھیال میں قائم ہوئیں۔ اسلامی سوشلزم ہمارے بزرگوں کی ایجاد تھا۔ حدود آرڈی ننس ہمارے اجداد کی تجویز پر منظور کیا گیا۔ ہم افغان جہاد میں دامے درمے سخنے شریک ہوئے، ہم پرویز مشرف کی روشن خیالی کے سرخیل تھے۔ عدلیہ بحالی تحریک میں ہمارے اہل خانہ سرگرم تھے، ہم آپریشن ضرب عضب کے داعی تھے۔ ہم آپریشن ردالفساد کے زبردست حامی ہیں، ہم جدی پشتی لوگ ہیں۔ مغرب میں مقیم کچھ لبرل خواتین و حضرات نے انسسٹری ٹیسٹ (Ancestry Test) کی مدد سے ہمارے شجرے خراب کرنے کی سازش تیار کی ہے۔ ہم ان فتنہ پرور عناصر کے جینیاتی جھوٹ کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ ہم سر کٹوا دیں گے، ہم ڈی این اے جیسی شوخ چشمی اور دریدہ دہنی برداشت نہیں کریں گے۔ ہم خاندانی لوگ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).