حرکت میں برکت
بعد از نمازِ عصر کچھ افراد کا قافلہ، گول آستین والی قمیض پہنے اور شلوار کے پائنچے اوپر کیے ہوئے گلی کوچوں میں گھومتے نظر آتے ہیں، سروں پر ٹوپی، چہروں پر داڑھی، ہاتھوں میں تسبیح، لوگوں سے مل مل کر ایک آدھ منٹ بات کرتے ہوئے۔ ایسی واضح علامتیں رکھنے والے گروہ کے ساتھ کافی لوگوں کا واسطہ پڑا ہو گا۔ یہ مانگتے کیا ہیں لوگوں سے؟ تھوڑا سا وقت، مسجد میں آنے اور اُن کی بات سننے۔ ایک دفعہ اپنی بے لطف اور تناؤ زدہ زندگی کے دو چار منٹ اِن درویشوں کی محفل میں گزار کر دیکھیں، ذہنی سکون نہ ملے تو کہنا۔ یہ تو کارکنان ہیں دعوت و تبلیغ کے۔ علامتیں ہیں دین و دنیا کے بیچ توازن قائم رکھنے کی فضا کی۔ مسلسل تگ و دو کا یہ عمل لگ بھگ ایک صدی سے جاری ہے۔ یہ خود بھی سیکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی سیکھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ملکوں ملکوں، شہر شہر، قریہ قریہ پھیلے ہوئے یہ قافلے پیدل، بسوں، ٹرینوں اور جہازوں میں سفر کرتے نظر آتے ہیں۔ لوگوں کو خدا کی راہ پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں، مساجد میں قیام کرتے ہیں، قوتِ لایموت پر گزارہ کر کے کھاتے ہیں اور ذکر و فکر میں مصروف رہتے ہیں۔ کسی کو بُرا لگے تو یہ خاموشی سے عفو درگزر کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں، اچھا لگے تو دلوں میں بساتے ہیں۔
آج ہم خود ایک ایسے قافلے کا حصہ بنے، اٹک کے بازاروں اور گلی کوچوں میں گھومتے ہوئے جامع مسجد امیر معاویہ کی طرف گامزن ہیں، جہاں سہ روزہ یعنی تین دن کے لئے ہماری تشکیل ہوئی ہے۔ کہتے ہیں کہ کوئی گھنٹہ پون گھنٹے کا پیدل راستہ ہے وہاں تک۔ چلتے چلتے بازار میں ضروری سودا سلف خریدتے ہیں۔ شکل و صورت دیکھ کر ایک قصائی صاحب بہترین گوشت مفت میں ودیعت کر کے ذائقہ دار کڑاہی بنا کر کھانے کی نصیحت کرتے ہیں۔ کوئی سبزی و فروٹس اور کوئی چائے چینی بڑی سخاوت کے ساتھ عنایت کر کے بس دعا کی فرمائش کرتے ہیں۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ ہماری دعا اتنی قیمتی ہے۔ یا خدا! یہ اٹک کے لوگ دعوت و تبلیغ کے کام سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ ہم ویسے ہی رزق کے حصول کے لئے مارے مارے پھرتے تھے، اب احساس ہوا کہ رزق تو بندے کے پیچھے پیچھے آتا ہے، ہم اتنے پاگل کیوں بنتے پھرتے ہیں، شاید ہمیں یقین نہیں۔ تین سال قبل چند دوستوں کی معیت میں چولستان کے سفر کے دوران خانہ بدوش نوجوانوں کے شامِ موسیقی کا پروگرام یاد آیا۔ مشہور چولستانی آرٹسٹ دیتو لعل بھیل نے بابا فرید کے کئی کلام شاندار انداز میں پیش کیے ۔ شروعات یوں ہوئیں :
ویکھ او بندیا آسماناں تے اُڈدے پنچھی، ویکھ تے سہی کی کردے نیں
ناں او کردے رزق ذخیرہ، ناں او بُھکے مردے نیں
کدی کسے نے پنکھ پکھیرو، بُھکے مردے دیکھے نیں
بندے ہی کردے رزق ذخیرہ، بندے ہی بُھکے مردے نیں ”
(اے انسان، آسمان پر اُڑتے پرندے دیکھو، دیکھ تو سہی یہ کیا کرتے ہیں، نہ تو وہ رزق جمع کرتے ہیں، نہ وہ بھوکے مرتے ہیں، کبھی کسی نے پرندے بھوک سے مرتے دیکھے ہیں، انسان ہی رزق ذخیرہ کرتے ہیں، انسان ہی بھوکے مرتے ہیں)۔
دیتو لعل ایک کلام میں بزرگ اور بچے کے بیچ ہونے والا مکالمہ بھی گیت کے انداز میں پیش کرتا ہے۔ خانہ بدوش بچہ اپنے بزرگ سے پوچھتا ہے بابا، ہم ہر وقت چلتے کیوں رہتے ہیں؟
ارشاد ہوتا ہے بیٹے، پانی چلتا ہو تو صاف رہتا ہے، شفاف رہتا ہے، یہ آلائشوں کو پرے پھینکتا ہے اور ٹھہر جائے تو گدلا ہو جاتا ہے، تعفّن و بدبو پیدا کرتا ہے، بیماریاں لاتا ہے، یہی حال انسان کا ہے، برخوردار۔ تبلیغی بھائیوں کی طرح چولستان کے لاکھوں لوگوں کا خانہ بھی ہر وقت ان کے دوش پر بندھا ہوتا ہے۔ یہ لوگ ایک جگہ قیام نہیں کرتے بلکہ چلتے رہتے ہیں۔ جہاں ان کے مویشیوں کو چارہ پانی اور مناسب موسم ملے، یہ وہاں قیام کرتے ہیں، وہاں پکا کر کھاتے پیتے ہیں اور چلتے بنتے ہیں۔ یہ کل کا سوچتے ہیں نہ پرسوں کا ، بس لمحہ موجودہ کا سوچتے ہیں۔ یہی چل چلاؤ اُن کی زندگی ہے اور یہی تبلیغیوں کی۔ کتنی ہم آہنگی اور مماثلت ہے، دونوں میں۔
لوجی، ہم لگے رہے خانہ بدوشوں اور تبلیغیوں کی زندگی کا تقابلی جائزہ لینے میں اور قافلہ کب کا آگے نکل کر نظروں سے غائب ہو گیا۔ اٹک شہر میں مینگورہ کی طرح رکشوں کی بہتات اور دھوئیں، دونوں نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ ٹریفک جام تو منٹ کا معمول ہے، متعلقہ اہلکار کوششوں میں لگے نظر آتے ہیں لیکن یہ کنٹرول کرنا اِن کی بس کی بات کہاں۔ ہم بڑی مشکل سے اِن رکشوں کی مار سے بچ بچاؤ کرتے اور لمبے ڈگ بھرتے ساتھیوں کی تلاش میں آگے بڑھتے ہیں۔ پوچھتے پاچھتے ’شیرِ پنجاب شاپنگ مال‘ دریافت کر لیتے ہیں، کیپٹن اسفندیار بخاری شہید روڈ پر پہنچ جاتے ہیں۔ ایک دُکان کی پیشانی پر لگے شاعرانہ سٹائل سائن بورڈ کا بہ نظرِ عمیق جائزہ لیتے ہیں، لکھا ہے ’سیڑھی، گھوڑی اور ریڑھی کرایہ پر دستیاب ہے‘۔ اِس ایکویشن کو سمجھانے کے لئے تینوں کی تصاویر بھی ہیں۔ کچھ دیر میں ریلوے روڈ کے نزدیک قافلہ نظر آتا ہے۔ جان میں جان آ جاتی ہے تو آس پاس کی طرف دھیان جاتا ہے کیا دیکھتے ہیں کہ محلے اور گھر تو ماڈرن ہیں، سلیقے سے بنے ہوئے۔ گلیاں کھلی ڈھلی اور پکی ہیں، لیکن ہمارے شہر کی طرح گندگی سے اَٹی پڑی ہیں۔ نالیاں کچرے، پلاسٹک اور پولی تھین بیگز سے بھری ہیں، جن میں پانی کے بہاؤ کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔ پتہ نہیں یہ میونسپل کمیٹیوں کا کام کچرہ ٹھکانے لگانا ہوتا ہے یا سرِ راہ دکھانا اور نمائش کروانا۔ لیکن، ہم ہوتے کون ہیں، درون کے معاملوں میں ٹانگ اَڑانے والے۔
قافلہ رواں دواں ہے، اکتوبر کا مہینہ ہے لیکن گرمی جاتے جاتے بھرپور زور دکھا رہی ہے، جسم پسینہ پسینہ ہے۔ اگر کچھوے سچ مچ راستوں کو خرگوش سے بہتر سمجھتے ہیں، تو کوئی کم ہم بھی نہیں۔ مسجد تک پہنچنے میں کسی تبلیغی کو کوئی دِقّت نہیں ہونی چاہیے، وہ دُور سے مینار دیکھ کر بتاتے ہیں کہ رُخ کس طرف ہونا چاہیے۔ لوگ بھی سرِ راہ، جیسے ہی ہمیں اور ہمارے کندھوں پر سجا ”سامانِ زیست“ دیکھتے ہیں تو فوری طور پر اشاروں کی زبان میں ڈائریکشن سمجھا دیتے ہیں کہ کس راستے سے جانا ہے۔ اِدھر ہم مسجد کے دروازے پر پہنچ کر دُعا کی شروعات کرتے ہیں، اُدھر مسجد کمیٹی کے نگران پہنچ جاتے ہیں، ہمیں خوش آمدید کہنے۔ وہ بن پوچھے ہمارا سامان اُٹھا کر متعلقہ جگہ پر رکھتے ہیں، ہماری ضروری رہنمائی کرتے ہیں اور تنبیہ کرتے ہیں کہ کھانا پکانے والا ’ساز و سامان‘ نہیں کھولنا، گھر کا کھانا آتا رہے گا۔ اِدھر ہم مسجد کے ملحقہ کمرے میں پاؤں پسارنے کا موڈ بناتے ہیں اُدھر امیر صاحب وضو تازہ کرنے اور پھر مشورے کے سیشن میں بیٹھنے کا اعلان فرماتے ہیں۔ یا الہٰی العالمین، یہ دین دار حضرات تو سکون سے دو چار سانسیں لینے بھی نہیں دیتے۔ رات تین بجے تہجّد کے لئے اُٹھ کر پہلے پہر تک نہ جانے کتنے اعمالِ صالحہ سرانجام دیے اور کتنے پیدل چلے ہیں، یہ سوچ کر دائیں ہتھیلی سے ایک بھاری بھر کم تھپڑ اپنی پیشانی کو ’مُرحمت‘ کر کے خود سے بڑبڑاتے ہیں۔ ”کہاں پھنس گئے ہیں کہاں ہم جیسے کاہل نکمے اور بے دین بندے اور کہاں تبلیغِ دین، مشکل ہے، بڑا مشکل ہے۔ یا اللہ! حوصلہ عطا فرما، کہیں بھاگ نہ جائیں، ہم“ پھر خود کو تسلّی دیتے ہیں، بُزرگ اور بچے کا ڈائیلاگ یاد کرتے ہیں، چلتے پانی والا۔ یہی حال انسان کا ہے یہ بھی حرکت میں ہو تو جسم تندرست و توانا اور ذہن سکون میں رہتا ہے، جمود میں ہو تو بیماریوں کا گھونسلا بن جاتا ہے۔ ازاں بعد اباسین یوسفزئی کا یہ پشتو شعر یاد آتا ہے تو فوری طور پر متحرک ہو کر تروتازہ نظر آنے کی اداکاری کرتے ہوئے و ضو خانے کی طرف دوڑ پڑتے ہیں
ما ہمیشہ پہ حرکت کے برکت موندلے
ستا اَباسین بہ سمندر تہ ہوم روان پریوزی
(میں نے ہمیشہ حرکت میں برکت پائی ہے، آپ کا ’اباسین‘ سمندر میں بھی چلتے چلتے گرے گا)
- نظارے ایک بستی کے - 28/10/2024
- حرکت میں برکت - 17/10/2024
- کہانی ایک یادگار رات کی - 12/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).