عالمی دن کے بغیر جینے والے مردوں کے نام۔۔۔


شہر بھر میں ترقیاتی کاموں کے نام پر جب کھدائی شروع ہوئی تو ہر سڑک ہی جیسے پل صراط بن گئی، اونچے نیچے راستوں سے بچنے کے لئے وین ڈرائیور نے پاک کالونی اور سائٹ ایریا کا راستہ چناتو طویل سفر کے باعث شام کو تمام لڑکیاں تھک کر وین میں سو گئیں ۔نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی میں اپنے فون سے اکتانے کے بعد کھڑکی سے باہر بے ہنگم ٹریفک کا جائزہ لینے لگی، سفر میں وقت بھی تو گزارنا تھا۔ بڑے بڑے ڈمپر، سامان لادے ٹرکوں نے تو جیسے ساری سڑک پر راج قائم کر رکھا تھا. کیا گاڑی والا یا موٹر سائیکل سوار سب ہی راستے بنانے میں پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ ایسے میں میری نظر ایک پچاس پچپن سال کی عمر کے ایک شخص پر پڑی جو موٹر سائیکل پر ڈھیروں سودا سلف رکھے ان ڈمپروں کے درمیان سے راستہ بناتے کبھی پیچھے رہ جاتا تو کبھی آگے ، تھکاوٹ اورذمہ داریوں کی جھریوں نے بڑی جلدی چہرے پر اپنی جگہ بنالی تھی یہ شخص بھی دوسروں کی طرح بھاری بھرکم گاڑیوں کے درمیان سے راستہ بنانے میں ناکام رہا اورپھر ا ٓگے جاکر ٹریفک جام میں پھنس گیا۔ بار بار میری نظر اس شخص پر پڑتی جو بار بار گھڑی بھی دیکھتے اور سامان کے تھیلے بھی سنبھالتے۔ یہ سب دیکھتے ہوئے مجھے ان صاحب میں اپنے والد کا شائبہ ہونے لگا اور پھر میں کچھ اور ہی سوچنے لگی.

ہم نے کچھ دنوں قبل خواتین کا عالمی دن منایا، ہر چینل پر تیزاب سے مسخ شدہ چہروں کی ہمت اور جرات کی داستانیں بیان کیں، کئی شیلٹر ہوم میں جاکر خواتین سے ملوایا، اہم عہدوں پر فائز عورتوں سے سیر حاصل گفتگو بھی کی اور بتایا کہ عورت کا مقام کیا ہے وہ الگ بات ہے کہ جن عورتوں کو بتانے کے لئے یہ اہتمام کیا گیا وہ، عام عورت تو اس دن سے واقف بھی نہیں اسے نہ تو ہم نے دکھایا نہ اس سے بات کرنا مناسب سمجھا۔لیکن ان کے نام پر دن کو خوب کیش کروایا، میری کام کرنے والی ماسی کو نہیں معلوم تھا کہ آج اس کا عالمی دن منایا جارہا ہے نہ میری نانی کو جو 38 سال کی عمر میں بیوہ ہوئیں اور 6 بچوں کے ساتھ مشکل وقت کاٹ کر آج بھی تھکنے کو تیار نہیں۔ مجھے یہ سب دیکھ کر ایسے ہی خیال آیا کہ عورت کا دن تو منانے کا ہم ہر سال ڈرامہ کرتے ہیں وہ الگ بات ہے کہ اس دن پر صرف بمشکل پانچ فیصد ہی خواتین سجی سنوری ٹی وی پر آکر تقاریر کرتی نظر آتی ہیں اور عام عورت کچن میں یا بچوں کے ساتھ مصروف ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں کبھی مردوں کا عالمی دن منانے کا خیال کیوں نہیں آتا۔

اس مرد کی کیوں نہیں بات کی جاتی جو روز دفتر جاتا ہے اور شام کو ٹریفک میں پھنستا ہوا، دھول مٹی کھاتا، جگہ جگہ رک کرگھر کی ضرورت کا سامان اکٹھا کرتا گھر لوٹتا ہے۔ میں نے اکثر مرودوں کو تنخواہ کا انتظار کرتے اور اسے کہاں کہاں استعمال کرنا ہے اس پر بات کرتے سنا ہے، بیوی بیمار ہے، بچوں کا نیا تعلیمی سال ہے، کسی بچے نے سالگرہ پر تحفے کی فرمائش کرڈالی ہے، بیگم کے لئے موسم گرما کے کپڑے لئے تو اماں اور بہن کے لئے بھی کوئی جوڑا لینا ہے ورنہ وہ خفا نہ ہوجائیں، خاندان میں کسی کی شادی ہے تو اپنی فیملی کو بھی اس شادی میں شایان شان انداز میں شرکت کرنے وانے کے جتن سے لیکر، مہینے بھر کے سودے کی بھری ٹرالیوں میں آخری لمحے تک بیگم دوڑ دوڑ کر سامان لاتی جاتی ہے اور مرد جو مظاہر مطمئن دکھائی دے رہا ہوتا ہے اس کا دماغ کسی کیلکولیٹر کی طرح چل رہا ہوتا ہے کہ بل کتنا بن سکتا ہے یہ مناظر بھی میں نے خوب دیکھے ہیں۔ کسی بازار میں اگر اسکی بیٹی کو کوئی شوز پسند آجائے تو وہ اسکے پیروں کو اس رنگ برنگے جوتے اور کلائیوں کو سجانے کے لئے چوڑیاں خریدتے وقت مہینے کا آخری ہفتہ نہیں دیکھتا۔ دوسرے شہر کمانے یا کسی کام نے گیا ہو تو فون پر بیٹے کی یہ بات بابا آپ کب آئیں گے اسکی جہاں تھکاوٹ دور کرتا ہے وہی گھر جانے سے قبل اولاد کے لئے ڈھیروں چیزیں خریدتے وقت وہ بھاو تاو کرنا بھی بھول جاتا ہے۔

بھرے پرے گھر میں بیاہی بہن جب اپنے میکے آئے اور سسرال اور شوہر کی نوازشوں کا زکر کرتے نہ تھک رہی ہو تو وہ اپنی بیوی کا چہرہ پڑھ لیتا ہے اور پھر کچھ ایسا تحفہ لے آتا ہے جسے وہ کچھ یوں کہتے دیتا ہے کہ بس بازار سے گزرتے ہوئے نظر آیا تو سوچا لے لوں اب جیسا بھی ہے گزارہ کرو۔ یہ انداز اس لئے اپنایا جاتا ہے کہ بھئی بیگم کو احساس بھی تو دلانا ہے ناں کہ خاص طور پر نہیں لیا۔ ایک ایسا مرد جو صبح سے شام تک خود کو اس لئے تھکائے کہ اس کا گھر اس کا خاندان سکھ اور چین سے رہے، اس لئے کمائے کہ اس کا بچہ بہترین تعلیم حاصل کرے، بیوی کو سب میسر ہو، اس لئے بچائے کہ ماں باپ کے بعد اگر سب بھائی ایک گھر میں نہ رہ سکے تو اس کو اپنے بیوی بچوں کو لیکر کہاں جانا ہوگا، کوئی ٹھکانہ کرنا پڑا تو یہ پیسہ کام آجائے گا۔ اپنے ملک کو چھوڑ کر پرائے دیسوں میں دن رات کام اس لئے کرتا ہے کہ اس کا کچا مکان پکا ہوجائے، بیوی کو بچوں کو وہ سب ملے جو اس کے خاندان کے دوسرے بچوں اور عورتوں کو میسر ہے، وہ خود کو جھونکتا بھی ہے تھکاتا بھی ہے اور کچھ تو ایسے کہ ان کی ذمہ داریاں انھیں بوڑھا ہونے ہی نہیں دیتیں جو عمر آرام کی ہو وہ بھی کام کی نذر ہوجاتی ہے کچھ سفیدی بالوں میں عمر لاتی ہے تو کچھ تھکا دینے والی ذمہ داریاں لے آتی ہیں۔ لیکن کمبخت یہ ذمہ داریاں قبر تک پیچھا نہیں چھوڑ رہی ہوتیں۔

 میں نے پہلی باراس وقت سوچا کہ مردوں کا بھی کوئی عالمی دن ہونا چائیے جب پہلی بار ابا کی بیماری کے دوران بینک بل جمع کروانے گئی اور بقایا اور بل کی کاپی کاونٹر پر چھوڑ آئی اور سننے کو ملا کہ لگتا ہے پہلی بار بل جمع کروایا ہے۔ میں نے مرد کی تھکن کو اس وقت محسوس کیا جب پہلی بار سائیٹ ایریا کے ایک بڑے اسٹور سے ڈھیروں سودا خریدا اور وزن اٹھا کر رکشے میں رکھتے ہوئے لہجے میں تلخی آگئی باہر نکلی تو کئی خوفناک ڈمپر کے درمیان سے نکلتے ہوئے کئی موٹر سائیکل سواروں کو تھکادینے والا سفر کرتے دیکھا ، میں نے مرد کی بے بسی تب محسوس کی جب میرے والد کینسر سے جنگ لڑ رہے تھے اور انھیں صحت یاب ہونے سے زیادہ اس بات کی فکر لاحق تھی کہ جو کچھ انھوں نے اپنے بچوں کے لئے بچایا تھا وہ ان کی بیماری پر خرچ ہورہا ہے اور ان کے بعد ہمارا کیا ہوگا؟ میں نے مرد کی قربانی تب دیکھی جب ایک بازارعید کی شاپنگ کرنے گئی اور ایک فیملی کو دیکھا جن کے ہاتھوں میں شاپنگ بیگز کا ڈھیر تھا اور بیوی شوہر سے کہہ رہی تھی کہ میری اور بچوں کی خریداری پوری ہوگئی آپ نے کرتا خرید لیا اپ کوئی نئی چپل بھی خرید لیں جس پر جواب آیا ضرورت ہی نہیں پچھلے سال والی کونسی روز پہنی ہے جو خراب ہوگئی ہوگی، تم دیکھ لو اور کیا لینا ہے بعد میں اکیلے آکر اس رش میں کچھ نہیں لے پاو گی۔ ابھی میں ساتھ ہوں جو خریدنا ہے آج ہی خرید لو۔

میں نے مرد کا ایثار تب محسوس کیا جب وہ اپنی بیوی بچوں کے لئے کچھ لایا تو اپنی ماں اور بہن کے لئے بھی تحفہ لایا، میں نے مرد کا تحفظ تب دیکھا جب سڑک کراس کرتے وقت اس نے اپنے ساتھ چلنے والی فیملی کو اپنے پیچھے کرتے ہوئے خود کو ٹریفک کے سامنے رکھا۔ میں نے مرد کا ضبط تب دیکھا جب اس کی جوان بیٹی گھر اجڑنے پر واپس لوٹی تو اس نے غم کو چھپاتے ہوئے بیٹی کو سینے سے لگایا اور کہا کہ ابھی میں زندہ ہوں لیکن اس کی کھنچتی ہوئے کنپٹیاں اور سرخ ہوتی ہوئی آنکھیں بتارہی تھیں کہ ڈھیر تو وہ بھی ہوچکا، رونا تو وہ بھی چاہتا ہے لیکن یہ جملہ کہ مرد کبھی روتا نہیں ہے اسے رونے نہیں دیگا، میں نے مرد کی احساس ذمہ داری تب دیکھی جب اپنے آفس کے ڈرائیور کو خوشی سے بتاتے ہوئے سنا کہ اس کی بیٹی کی شادی خوش اسلوبی سے ہو گئی جس کی تیاری وہ اس کے پیدا ہونے سے کر رہا تھا، میں نے مرد کی کمزوری تب سنی جب حالت جنگ میں اس کی پوسٹنگ اگلے مورچوں پر آئی اور وہ اپنے دو سالہ بیٹے اور پانچ سال کی بیٹی کی اس بات پر جواب دینے کے بجائے صرف مسکرایا کہ ابو جب آپ واپس آئیں گے تو ہمارے لئے کیا لائیں گے۔

 عید پر اپنے بچوں کو کئی کئی جوڑے بنا کر دینے والے اور خود پرانے جوڑے یا چپل پر گزارہ کرنے والے ابا، کئی کئی گھنٹے شہر کے خراب حالات میں راستے بدل بدل کر گھر آنے والے بھائی، دیار غیر میں بارش، ٹھنڈ، برفباری میں پاونڈز اور ڈالرز کماکر گھر بھیجنے والے بیٹے، تنخواہ کا بے صبری سے انتظار کرنے اور اس کو اپنوں پر خرچ کرنے والے مرد نہ تو عورت کاا ستحصال کرتا ہے نہ ہی اس کے چہرے پر تیزاب انڈیلتا ہے، نہ اس کی حرمت پر آنچ آنے دیتا ہے نہ اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے اور جو کرتا ہے وہ سب نہیں، کچھ ہی ہیں جو مرد کہلانے کے لائق نہیں۔ اس لئے کبھی کوئی دن منانا ہو اور خراج تحسین پیش کرنا ہو تو باہر ڈھونڈنے کے بجائے گھر میں ہی نظر دوڑائیے، کئی اختلاف، خدشات، رنجشیں، شکایات بات کئیے بغیر ہی ختم ہوجائیں گی اور محسوس ہوگا کہ آپ کا کتنا بوجھ ہے جو ان کاندھوں نے اٹھایا ہوا ہے ، کتنے آنسو ہیں جو ان آنکھوں میں ہی خشک ہوچکے۔ کتنا بوجھ ہے جس کا بار دل بھی اٹھاتے اٹھاتے تھک چکا ہے۔ کبھی بیٹھ کر سوچئے گا تو اپنے عالمی دن کو جسے آپ کہتی ہیں کہ عورت کا ایک ہی دن کیوں ہر دن ہمارا ہے ان کا دن بھی ہر دن محسوس ہونے لگے گا۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar