بر صغیر کا نوبل ایوارڈ یافتہ عظیم شاعر رابندر ناتھ ٹیگور۔ پہلی قسط
رابندر ناتھ ٹیگور سے میرا پہلا تعارف پانچ جولائی 1969 کی اُس شب ہوا جس کی دوپہر کو میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے گرلز ہوسٹل رقیہ ہال میں بورڈر ہوئی تھی۔ آڈیٹوریم میں اُن کا ڈرامہ چترا نگدا سٹیج ہو رہا تھا۔ رم جھم برستی بارش میں رقص اور ان کی شاعری کے سنگ ڈھاکہ یونیورسٹی سٹوڈنٹس کی یہ پیش کش حد درجہ کمال کی تھی۔
بنگالی زبان سے اِسے میں نے اُردو میں جیسور کی اُردو اسپیکنگ فاخرہ آصف سے سمجھا جو پانچ چھ گھنٹوں میں میری دوست بن گئی تھی۔ فاخرہ انگریزی میں ایک ایم اے کرنے کے بعد اب بنگالی میں دوسرے ایم اے کے فائنل ائر میں تھی۔
رات کو جب میں چوبی بیڈ پر لیٹی پہلی بار گھر سے دور قدرے افسردہ سی سونے کی کوشش میں تھی کہ محسوس ہوا جیسے وہ چھوٹا سا کمرہ ایک مدھم سے سرمدی نغمے کے سرُ میں بہنے لگا ہے۔ پٹ سے آنکھیں کھولیں۔ میری روم میٹ حبیب فاطمہ جو فینی کے نام سے پکاری جاتی تھی۔ اپنی رائٹنگ ٹیبل پر چھوٹا سا ٹرانسسٹر رکھے اِس میں سے نکلتے بولوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ پوچھنے پر جانا کہ ٹیگور کی نظم ہے۔ گانے والی کلکتہ کی کوئی گلوکارہ ہے۔ تھوڑا سا مطلب بھی جانا تھا۔
آسمان کے سوا تمہیں اے سورج
اور کون اپنا سکتا ہے
میں تو تمہارا سپنا دیکھ سکتی ہوں
خدمت نہیں کر سکتی
فینی بیس اکیس سال کی انتہائی شوخ و شنگ، لا اُبالی سی، ہنسوڑ لڑکی جو فاخرہ کی طرح بنگالی ادب میں ایم کے فائنل میں تھی۔ دونوں کلاس فیلو تھیں۔
پھر گاہے گاہے کبھی زبانی کلامی، اکثر و بیشتر تو فینی کے ہونٹوں سے جو کمرے میں چلتے پھرتے
بانگلا ماٹی
بانگلا جل
امار سونار بنگلا
امی تمائی بھالو باشی
یعنی بنگال کی مٹی، بنگال کا پانی، میرا سنہرا بنگال، مجھے تجھ سے محبت ہے جیسے کئی اور گیت مثلاً
زندگی ہر لمحہ نئے رنگ میں آ
نت نئے روپ میں آ
خوشبو میں آ، نئے ڈھب میں آ
باد صبا کے فرصت آگیں جھونکوں میں آ
دل میں لطف و شادمانی کی صورت آ
آ میری نیم باز آنکھوں میں آ
ہر لمحہ نئے رنگ میں نئے ڈھنگ میں آ
اے مرکز لطف و عنایت
اے حُسن پر نور
زندگی کے ہر عمل میں
زندگی کے ہر لمحہ جان فزا میں آ
اپنے چہرے سے نقاب اٹھا
دید سے نواز دے
ہر لمحہ نئے رنگ میں آ
ہر پل نئے ڈھنگ میں آ
لبوں پر تھرکتے رہتے۔ مجھ جیسی مطلب جان جان کر محظوظ ہوتی رہتی۔ یوں کبھی ریڈیو، کبھی ٹی وی پر بھی ایسے نغمے جنہیں رابندرو شنگیت کہا جاتا ہے سننے کو ملتے۔ یہ دل کے ساتھ ساتھ روح کو بھی مسرور کر دیتے۔ تاہم اِس پیاس کو اُس واقعے نے بڑھا دیا تھا جو مجھے اواخر اکتوبر کے ایک دن پیش آیا۔
اس فسوں خیز سی ڈھلتی شام کے منظر نے میرے قدموں کو ساکت کر دیا تھا کہ میں اتفاقاً رقیہ ہال کی مرکزی عمارت کے عقبی لان میں بنے پوکھر (تالاب) کی جانب نکل آئی تھی۔ تقریباً تین ماہ سے ابر آلود آسمان اور دھواں دھار قسم کی بارشوں کے نظاروں کی عادی آنکھوں کو اب ڈھاکہ کے آسمان کو نکھرا ہوا دیکھنا جہاں ایک جانب پھولتی شفق کے لال گلال رنگوں نے آگ سی سلگا دی تھی۔ ڈوبتی طلائی کرنوں کی دم توڑتی فضاؤں میں نہاتے، ہنستے، مسکراتے سانولے سلونے چہروں والی لڑکیاں جن کے گھٹاؤں جیسے کھُلے آوارہ بال، کہیں اُن کے سینوں، کہیں بازوؤں اور کہیں پشت پر بکھرے جیسے شیش ناگوں کا سا تاثر اُبھارتے تھے۔ آدھی آستینوں والے بلاؤز میں پھنسے بازو چپو ہاتھوں میں تھامے نوکا (کشتی) کھیتے تھے۔ مترنم آوازیں گیتوں کی صورت فضاؤں میں سُروں کے راز کھولتی تھیں۔
مجھے محسوس ہوا تھا پوکھر (تالاب) کا ہلکورے لیتا پانی جیسے ہواؤں میں بکھرے مترنم گیت کی نغمگی پر دھیرے دھیرے رقص کرتا ہو۔ کیسا موہ لینے والا منظر تھا جو بندے کو پل بھر میں گھسیٹ کر کسی طلسمی دنیا میں لے جاتا ہے۔ بنگال کو حسن فطرت کی سرزمین، گیتوں کی دھرتی، سُروں کی دنیا ایسے ہی تو نہیں کہا گیا۔ یہی جادوئے بنگال ہے۔ سارے میں بکھرے گیت کے بول، اس کی غنایت، آواز کا لوچ اور رس جیسے میرے اندر اُتر کر میرے شریر کے ریشے ریشے میں گھُل سا گیا۔
مجھے تو صرف اتنی سی مہربانی چاہیے
ایک لمحے کے لئے تیرے پاس بیٹھ جاؤں
اور کام جو مجھے کرنے ہیں
انہیں تو میں بعد میں بھی کر ہی لوں گا
تیری صورت سے اوجھل ہو کر
میرا دل سکون و آتشی سے دور ہو جاتا ہے
آج موسم گرما اپنی آہوں اور سرگوشیوں کے ساتھ
میرے دریچے کے پاس آ گیا ہے
اور شگفتہ کنج کے صحن میں شہد کی مکھیوں نے
اپنا ساز چھیڑ دیا ہے
وقت آ گیا ہے اب کہ
خاموش تیرے چہرے کے سامنے بیٹھ جاؤں
اور پرسکون سی فرصت میں
نغمہ حیات گاؤں
سلہٹ کی خوبصورت مستورہ جو ایک تلے والے میرے فلو ر پر روم نمبر 28 میں رہتی تھی۔ کشتی سے اُتر کر میرے پاس آئی۔ آتے جاتے میری اُس سے اچھی ہیلو ہائے رہتی تھی۔ بنگالی گیت میں میری اتنی دلچسپی اور انہماک دیکھ کر اس نے پہلے انگریزی میں مجھے اس کا ترجمہ بتایا۔ بتایا کیا اچھی طرح سمجھایا پھر لہکتے ہوئے ایک اور گیت گایا۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).