علم کا کفن


ایک وقت تھا جب دجلہ کے کنارے دلفریب نظاروں والا پُرکشش و خوبصورت شہر بغداد اپنے عروج کے دن دیکھ رہا تھا۔ علم و ادب ک محافل سجتیں، کتابوں سے بھری لائبریریاں، قدردان اُستاد، شوقِ تجسس میں ان گنت شاگرد علم سیکھنے اور جاننے کی نا ختم ہونے والی پیاس کو بُجانے کی غرض سے اس شہر کی آب و ہوا میں سانس لیتے تھے۔ مگر جہاں ایک طرف انسان اس زمین کے سینے پر روزِ اول سے امن کے پردے میں علم و ادب کی فضائیں قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے، تو دوسری طرف وہی انسان وحشت کی چادر اوڑھ کر ہتھیار کو قلم کے متبادل استعمال کرنے کے لیے بے چین رہتا ہے۔

تاریخ میں بغداد کا وہ شہر جو علم و حکمت کا گہوارا تھا۔ تاتاریوں کے ہاتھوں زمیں بوس ہوا۔ کتب خانوں کو آگ لگا دی گئی، دریائے دجلہ نے ان گنت کتابیں اپنے سینے میں چُھپا لیں۔ بیشمار علماء موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے۔ اور پھر ایک بار دہشت کا علم لہرانے لگا مگر ظُلم تو آخر ظلم ہی ہے دیر تک نہیں رہتا۔ ایک لفظ جسے ہم ظلم کا نام دیتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے اس نے بے شُمار سلطنتوں اور ریاستوں کی ان چاہی بنیادیں رکھیں اور نامعلوم کتنی مضبوط ریاستوں کو یوں خاک میں ملایا کہ آج اُن کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ وقت گُزر جاتا ہے کل کے بادشاہ آج غلام بنادیے جاتے ہیں، اور غلام تخت پر بیٹھے سیاہ و سفید کے فیصلے کر رہے ہوتے ہیں۔

ظلم جب حد سے بڑھ جائے تو بغاوت کی شکل اختیار کرتا ہے اور بغاوت تو پھر خوف سے آزادی کا دوسرا نام ہے جسے روکنے پر وہ خود بھی قادر نہیں رہتا۔ یہ وہ ہتھیار ہے جو اپنی کہتا ہے سنتا کسی کی نہیں۔ ظلم ہر دور میں مُختلف شکلوں میں انگڑائیاں لیتا رہا ہے مگر یاد رہے ہر عروج کو ایک زوال ہے مگر امتحان اُس دور کے ہر ایک شخص کا ہے کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرتا ہے، حق کا یا پھر ظلم و بربریت کا؟ یہاں تیسرا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ خاموش تماشائی کو ظُالم کا ساتھی تصور کیا جاتا ہے۔ ظالم اگر ظُلم کو حق کا نام بھی دے تو نَہتّے قلم کے پاسبان اُس کے سامنے کھڑے نظر آئیں گے۔ یہ وہ دور ہے جہاں ظالم کو حق کا رہبر اور سچے مخلص کو ایک غدار کا نام دیا جاتا ہے مگر تاریخ کا قلم اندھا نہیں ہوتا وہ ہر چیز بڑے غور سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ قلم کی قیمت انسانی خون سے کئی گُنا زیادہ قیمتی ہوتی ہے مگر جہاں قلم کے پاسبان ٹکوں کے عِوَض بِک جائیں اُس قوم کی تباہی تاریخ بن جاتی ہے وہاں زمینیں بنجر اور لوگ غُلام بنا دیے جاتے ہیں۔

علم غلامی سے نجات دِلاتا ہے یہ وہ حقیقت ہے جس کا سامنا ایک ظالم نہیں کر سکتا۔ ظالم ظُلم تب کرتا ہے جب وہ مظلوم کا اعتماد جیت کر وہ مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے جہاں سے ایک مظلوم کی چیخ سوائے ایک عام آواز کے اور کوئی معنی نہیں رکھتی۔ آج اگر ہم بلوچستان کے حالات کو دیکھیں تو ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ وہاں کے عوام کو غُلام بنانے کے لیے اُنہیں علم سے دور رکھا جا رہا ہے۔ قلم اُٹھانے کی طاقت کو اُن کے ہاتھوں سے چھینا گیا، وہاں کے تعلیمی نظام پر دنیا ہنستی ہے، اسکولوں میں طالب علموں کی بجائے جانور بندھے نظر آتے ہیں۔ حکومتی اعداد و شُمار کے مُطابق بے شُمار اسکول اور لائبریریاں بلوچستان میں آنے والی نسلوں کی تربیت کے لیے بنائی گئی ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ سرزمینِ بلوچستان میں علم کے پیاسوں کو مار دیا جاتا ہے مرنا صرف سانس کٹ جانے کو نہیں بلکہ ہر بلکتے بچے کو اُس کی ضرورت کی چیز سے دور رکھنا بھی اُسے موت کی اذیت سے دوچار کر دیتا ہے۔ اور بلوچ طالب علم کو قلم سے دور رکھنا اُس کی نسلوں کو برباد کرنے کے مترادف ہے انسان کی فطرت ہے کہ اسے جس چیز سے دور رکھا جائے وہ اُسی کے پیچھے لگ جاتا ہے اور یہ حقیقت میں نے سرزمین بلوچستان کے باشندوں کے خون میں بارہا دیکھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments